برف کی تہذیب


مجھے احساس تھا کہ گلیشیئر ٹوٹ رہے ہیں۔ میں حبس کی ایک نادیدہ خلاء میں داخل ہو رہا ہوں۔ اور جس وقت ساحل پر خس و خاشاک میں لپٹیں تند ہوائیں سیاہ آندھی میں تبدیل ہوئیں، سمندر میں لمحہ موجود کی بپھری ہوئی موجوں سے ایک غیر آہنی قلعہ تعمیر ہو چکا تھا اور اس کی کچھ سفید دیواریں بھر بھرا کر تیزی سے گرتی جا رہی تھیں۔ آبی سطح پر دور دور تک پھیلی ہوئی پانیوں کی ایک چمکتی چادر تھی اور اس نے قلعے اور اس کے در و دیوار کو ڈھانپنا شروع کر دیا تھا۔ اس پر حاوی دھند کے بہت سارے غبارے تھے، اور کچھ ماہی گیر کشتی سمیت اپنا راستہ بھول چکے تھے۔

اگر یہ سب آپ کو کچھ عجیب لگ رہا ہے تو وہ ناگہانی آفت، جس نے میرے سوا اور بھی کئی لوگوں کو خلاء میں گم کر دیا تھا، اس سے بھی زیادہ عجیب تھا کہ کبھی میرا اپنا آپ مجھے یوں محسوس ہوتا کہ وہ کافکا کے گریگر سے بہت زیادہ ہمدردی رکھنے لگا ہے۔ اور کبھی وہ گریگر کے وجود پر ہی سوال اٹھانے لگا کہ تو پیدا ہی کیوں ہو گیا؟

میرے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی کہ سائرہ روز میرے عظیم کارناموں کا معاوضہ میری ماں کے بے نقطیوں سے مستعار لیے کچھ بے سرے لفظوں سے دیا کرتی تھی۔ وہ اطفال اسکول میں بحیثیت ایک استانی، اور ہفتہ واری اخبار دور جدید میں اطفال ادب کی ایڈیٹر تھی۔ حالات کی ستم ظریفی کہ میرے گھر کے داخلی و خارجی اخراجات کے سارے گانٹھ اسی عورت کے پلو سے بندھ کر رہ گئے تھے۔

اس روز بھی میں نے تصور کیا کہ میں اپنے مادر وطن کے خاکستری سڑک پہ ایستادہ، ایک کہر آلود شام میں محض ایک سگریٹ کے لیے لرزیدہ دست و پا، اپنا افسردہ وجود لیے بھٹک رہا ہوں۔ ایک آدمی جو شاید بہت پہلے اسی سڑک پہ ایک اسپی گاڑی کے ذریعے حمالی کیا کرتا تھا، میری قریب آتا ہے۔

’کیا آپ کے پاس سگریٹ ہے؟‘
’نہیں۔ مگر سگریٹ ہی کیوں؟‘

’صاحب، سگریٹ، میرے مرگ جنوں کا حصہ ہے۔ میں اپنے جنون کا غلام ہوں۔ اور مجھے اس کی بہت سخت ضرورت ہے۔‘ میں اداس کن نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتا ہوں۔

’جنون کا غلام۔ ؟ معافی صاحب۔ مگر آپ کو تمباکو اور بیڑی میں سے کچھ چاہیے تو ضرور بتا دیجیے۔‘

’یہاں کسی کو کچھ نہیں چاہیے۔ ہم دونوں کو تنہا اپنے حال پہ چھوڑ دو۔‘ وہ اپنے موتیوں جیسے سفید دانتوں سے مسکراتی ہے۔

’مگر تم کون ہو؟‘
’میں وہی ہوں جو تم ہو۔‘

اسے دیکھ کر، میں محسوس کرتا ہوں کہ خوشبوؤں کی ایک پری میرے ذہن کے پراسرار وادیوں میں اتر آئی ہے۔ اور میرا یقین کیجیے کہ لمحۂ موجود میں اس سے سے زیادہ خوف زدہ کردینے والی بات، میرے لیے اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ اس کے بعد وہ لڑکی بھی غائب ہوجاتی ہے۔

میں اپنے وطن کی خاکستری سڑک سے آگے بڑھتا ہوں مگر مجھ پر کچھ توہمات اور مفروضے حاوی ہو جاتے ہیں۔

’آخر وہ کون تھی؟ اسے کون اٹھا لے گیا؟ کہیں وہ اسپی گاڑی والا حمال تو اسے۔ ؟ نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ۔‘

سڑک پہ جولانی کرتے ہوئے میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ چھپر کھٹ پہ خمیدہ گردن ایک کالا بلا، اپنے آگے کو جھکا ہوا ہے، اس کے نوکیلے ناخن دار پنجے میں ایک کبوتری ہے۔ اور قریب کہ وہ اسے بھنبھوڑ کر چٹ کر جائے گا۔ کبوتری پھڑ پھڑا رہی ہے۔

اسی اثناء ایک نقاب پوش میرے قریب آتی ہے۔
’تم یہاں کیسے؟‘
’مجھے خود نہیں معلوم۔‘
’تم کس ملک میں رہتے ہو؟‘
’یہ بھی نہیں معلوم۔‘
’تمہارا مذہب کیا ہے؟‘
’اس بارے میں زیادہ تو نہیں جانتا مگر۔‘
’مگر کیا؟‘
’مگر میرا مذہب محبت ہے۔‘
’پر اسرار اجنبی ذرا یہ تو بتا کہ تمام کہکشاؤں سے الگ اس کائنات میں تو کس سے محبت کرتا ہے؟‘
’فی الحال بلے کے پنجے میں لرزہ اور وحشت زدہ اس کبوتری سے جو مرتے وقت اپنا دفاع بھی نہ کر سکی۔‘
مگر تم کون ہو؟
’جو تم ہو۔‘ وہ ٹھہاکا لگاتی ہے۔

گلیشیئر یہاں بھی ٹوٹ رہے تھے اور متواتر حبس کی ایک نادیدہ خلاء میں میرے دخول کا سفر ابھی تھما نہیں تھا۔ دھند کی فضاء اب بھی قائم تھی۔ کچھ غبارے دھندلے بادلوں کو چھو کر گزر جاتے تھے۔ اور کچھ کو خنک ہواؤں کی لہر نے ننگی زمین پر پٹخ دیا تھا۔ وہ دھند کے اسی غبارے کو پھوڑ کر باہر نکلی۔ میں اسے دیکھ سکتا تھا۔ اب وہ میرے بالکل قریب آ چکی تھی۔ اس نے مجھ سے کہا۔

’تم نے کبھی زندگی دیکھی ہے؟
’ہاں۔‘

’نہیں تم زندگی کو میری نگاہ سے دیکھو۔ زندگی ایک جنت ہے مگر اس میں شب و روز ابلیس کا رقص جاری رہتا ہے۔‘

پھر اس نے مجھ سے کہا۔
’ کیا تم خدا پر یقین رکھتے ہو؟‘
’ہاں۔ کیوں نہیں۔‘
’تو پھر تم مکافات عمل پر بھی یقین رکھتے ہو گے؟‘
’یقینا۔‘ میرے لفظ مضبوط تھے۔

اس نے مجھے بتایا کہ میرا گھر سمندری ساحل کے اسی چبوترے پر واقع ہے۔ اور میں جب چاہوں اس کے پاس آ سکتا ہوں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میں گم ہو چکا تھا۔ اور میری گمشدگی کی خبر کسی اخبار اور میڈیا نے چھاپنے کی زحمت تک نہیں کی تھی۔ میری بیوی ساریہ جو میرے ساتھ اپنی زندگی کا آخری سورج دیکھنے کی آرزو مند تھی، وہ بھی نہیں۔

اپنے آبائی وطن سے دور، میری زندگی کا ہر لمحہ مجھ پر کسی زہریلے بچھو کے ڈنک سے بھی زیادہ اثر انداز ہو رہا تھا۔ کچھ ہفتے میں نے اسی ساحل پہ خاک چھانتے ہوئے گزار دیے۔ چھ روز بعد وہ لڑکی مجھے پھر نظر آئی تو میں نے دبے پاؤں اس کا تعاقب کیا۔ وہ خیمے کی طرف جا رہی تھی۔ وہ ایک ہی خیمہ تھا جس کے کپڑے کافی حد تک دیمک خوردہ تھے۔ خیمے کے اوپر خشک بانس کی لچک دار لکڑی سے سرخ صلیب بنا ہوا تھا۔ سورج نا آسودہ گھڑیال کی طرح افق کے سرخ حوض میں نہا کر محو خواب ہو چکا تھا اور ماہ تمام کی بیداری نے منجمد صحراء میں سرسراتے سانپ کی طرح آسمان پر رینگنا شروع کر دیا تھا کہ وہ اپنے خیمے میں داخل ہوئی اور اس نے اپنے دروازے کے عقب سے میری مخفی آہٹ کو محسوس کر لیا۔

’آپ یہاں۔ ؟ اندر آ جائیے۔‘ اس نے میری طرف دیکھا۔
’آپ کون ہیں؟‘
’میں ایک لڑکی ہوں۔ وہ بھی طلاق شدہ۔‘ وہ ہنسی۔
’مگر یہاں کیسے؟‘
’یہی تو میں بھی جاننا چاہتی ہوں آپ سے۔‘ وہ پھر سے ہنسی۔
’میں گم ہو گیا ہوں۔‘
شاید آپ کو الزائیمر ہے۔ ’
نہیں مجھے کوئی الزائیمر نہیں۔ صرف میں نہیں، یہاں بہت سے لوگ اپنی راہ بھٹک گئے ہیں۔

میں اس خیمے میں داخل ہوا۔ خیمے کا اندرون کافی وحشت ناک تھا۔ کچھ انسانی کھوپڑیاں اور جانوروں کی ہڈیاں خاک سے لپٹی ہوئیں تھیں ‌۔

’یہ میرے بابا کی کارستانی ہے۔‘ اس نے سرد آہ بھری۔
’مگر وہ ایسا کیوں کرتے تھے؟‘

وہ عیسائی تھے۔ اور میں اس کی غیر عیسائی بیٹی۔ باپ میرا خدا پر یقین رکھتا اور مجھے مسیح کے بارے میں بتاتا۔ اور قبل از مرگ اس نے مجھے صلیب کے بارے میں بھی بتایا۔

’بٹیا۔ صلیب خدا کی روح ہے۔ جب آپ صلیب کے نیچے مسیح کو دھیان لگاتے ہیں تو صلیب کے اندر ان کی روح حلول کرتی ہے۔ اور وہ آپ کی حفاظت کرتی ہے۔‘

میرا باپ مجھے یہ بھی کہتا۔

’بٹیا۔ دنیا نقاب پوش فرشتوں کی مطابقت آمیز شکل میں سیاہ پوش وحشیوں کی ایک مجلس ہے۔ جب تم ایک نقاب اٹھاؤ گی، فرشتوں کی حیوانیت دیکھ لو گی۔‘

’شاید وہ بائیبل خوانی کے بہت شوقین رہے ہوں۔‘
’ہاں لیکن وہ قرآن بھی اتنا ہی پڑھتے تھے۔‘
اور آپ عیسائی نہیں تو کیا ہیں؟

میں بھی کبھی عیسائی تھی۔ مسلمان ہوئی تو ایک مولوی صاحب نے مجھ سے شادی رچائی۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ شب زفاف کا وہ اذیت ناک لمحہ جب میں میں اس کے نیچے ایک لاش بن کر رہ گئی تھی اور ایک وہ تھا کہ میرے اوپر کسی بھوکے درندے کی طرح ٹوٹ پڑا۔ اس ناگہانی کربناک صورت حال میں جب میں نے تکلیف سے کراہنے کی کوشش کی تو اس نے میرا منہ بند کر دیا اور کہا۔

’تم ایک تہذیب یافتہ گھرانے کی بیوی ہو، طوائفوں کی طرح چیخنا اور آہ۔ اف۔ کی تمہاری یہ آواز مجھے پسند نہیں آئی۔‘

دوسرے روز جب میں نے اپنے جسم کے الاؤ سے اسے جنسی عمل کی طرف مائل کرنا چاہا تو پہلے پہل میں نے قوس قزح کو غور سے دیکھا۔ سب رنگ بکھر گئے۔ سیاہ بادلوں کا ایک طوفان پھر سے آیا۔ ہوا، ریلا، درخت، پتے، پتھر، پہاڑ، جانور اور پرندے سب کی شور میں اس کی آواز اوپر نیچے ہونے لگی۔ میں نے اپنی آواز کو بلند کیا اور کہا۔

’تم نے کبھی رقص کرنے کا فن سیکھا ہے؟‘
’نہیں۔‘
’مگر میں تمہیں سکھاؤں گی۔‘
’یہ سب ضروری ہوتا ہے؟‘

’بہت ضروری، کیوں کہ تمہارے اور کسی درندے کے جنسی عمل کے درمیان تفاوت کی ایک مضبوط حد فاصل لکیر ضرور ہونی چاہیے۔‘

وہ پر سکوت ہو گیا اور اس تہذیب یافتہ شوہر کی زبان سے سوائے ”طلاق طلاق طلاق“ کے کچھ نہیں نکلا۔ اس روز سے میں بھی گم ہو گئی ہوں۔

اس نومسلم لڑکی کے ہاتھوں میں ایک آب دار خنجر تھا۔ جاتے جاتے اس نے مجھ سے پھر کہا۔
’میں یہیں مر جاؤں گی مگر میری خواہش مجھے اپنی لحد میں چین سے محو خواب نہ ہونے دے گی۔‘
’اور وہ کیا ہے؟‘
’بس ایک قتل کرنا چاہتی ہوں۔‘
’قتل؟ کس کا قتل؟ ہاں۔ تم چاہو تو ابھی میرے سینے میں اپنا پورا خنجر اتار دو۔‘
’ نہیں۔ تمہارا نہیں۔‘
’پھر کس کا؟‘

’تمہارے سماج کا۔ کاغذوں میں لپٹی تمہاری اس تہذیب کا کہ جس کے مردار وجود کو دیکھ کے آسمان میں اڑتے گدھ کی آنکھیں ٹھہر جاتی ہیں۔‘

’مگر تہذیب ہوتی کیا ہے؟‘

’تہذیب تمہیں خوفزدہ کردینے والا ایک ایسا دہکتا دوزخ ہے جہاں ہر کس و ناکس تمہارا خدا بن جاتا ہے، اور تم اس کے فرشتے۔ خدا فرمان جاری کرتا ہے اور تم اس کی پیروی کرتے رہتے ہو یہاں تک کہ تمہارے مردہ جسم کا بھوت اس آہنی خول کے طول و عرض گڑھے میں جا گرتا ہے، جہاں گدھے اور گھوڑے کی استوائی نوعیت کے بچھو اور مکڑے رینگ رہے ہوتے ہیں۔‘

مجھے احساس تھا کہ گلیشئر ٹوٹ رہے ہیں۔ میں حبس کی ایک نادیدہ خلاء میں داخل ہو رہا ہوں۔ اور اس مطلقہ کی آواز منجمد درختوں کے سناٹے میں کہیں کھو گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments