تعلیم و تربیت


ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص نے ایک لڑکی کے ساتھ ایسا بھیانک سلوک کیا اور ظلم کی ایسی داستان رقم کی کہ شیطان بھی اس شخص کے اس کارنامے سے شرما گیا ہوگا اور ہو سکتا ہے کہ اسے اگر پتہ ہوتا اکیسویں صدی کے انسان کی انسانیت کا تو مرشد مان کر سجدہ کرچکا ہوتا اور تذلیل سے بچ جاتا۔

ہمیشہ جب بھی بزرگ کہیں اکٹھے بیٹھتے ہیں تو میں نے اکثر ان کو ایک دوسرے سے کہتے سنا ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیجیے، لیکن یقین مانیے مجھے تعلیم کے ساتھ لفظ تربیت کی اہمیت کا ادراک اس واقعہ کے بعد ہوا ہے۔ آپ صرف حیاتیات، کیمسٹری یا سائیکالوجی پڑھا کر بچے کو ایک مہذب انسان نہیں بنا سکتے جب تک کہ آپ اس کی تربیت کو ساتھ ساتھ لے کر نہ چلیں۔

تربیت کیا ہے؟ جب بھی آپ کوئی کام شروع کرنے جا رہے ہوں تو اس کے معنی و مفہوم سے آشنائی بہت ضروری ہے۔ سب سے پہلے ہم تربیت کے معنی و مفہوم کو سمجھ لیتے ہیں پھر آگے بڑھیں گے۔ تربیت کے بہت سارے معنی ہیں جیسے پالنا، نشوونما کرنا اور کسی کو نشوونما کر کے حد کمال تک پہنچانا۔ اس کے اور بھی بہت سارے معنی ہیں جیسے برتری، سردار، سیاستدان وغیرہ۔ تربیت کا مفہوم کچھ اس طرح سے ہوگا، کسی کو پستی سے نکال کر اس کی ظاہری و مخفی صلاحیتوں کو بلندی و کامل کی راہ پر گامزن کرنے کا نام تربیت ہے۔ یعنی جتنی بھی صفات ایک انسان میں پائی جاتی ہیں ان میں سے جن کی ضرورت ہو ان کو پروان چڑھانا اور ان کی دیکھ بھال کرنا۔

ایک بچے کا دل صاف ستھرا اور میل کچیل سے پاک ہوتا ہے۔ انسان کی زندگی میں بنیادی ادارہ جو سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور جو کسی بھی انسان کی شخصیت پر گہرے نقوش چھوڑتا ہے وہ خاندان ہے۔ ایک بچے کی تربیت کی باگ ڈور اس کے والدین کے ہاتھ میں ہوتی ہے اب یہ ان پر انحصار کرتا ہے کہ وہ کیسے اپنے بچے کو پروان چڑھاتے ہیں یا کتنا دھیان دیتے ہیں۔ والدین گھر میں جیسا رویہ اپنائیں گے بچہ اسے سیکھتا جائے گا اور بول چال سے لے کر والدین کے منفی اور مثبت پہلووٴں تک سب کے سب بچے کی زندگی کا بھی حصہ بنتے جائیں گے۔

تو بچے کے سامنے ہم خود کو جیسا پیش کریں اس کو ویسا ہی پائیں گے، اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس کو محبت کا درس دیتے یا نفرت کرنا سکھاتے ہیں۔ عزت و احترام کرنا سکھائیں گے تو وہ عزت و احترام کرے گے، تشدد کریں گے تو وہ تشدد کا رستہ اختیار کرے گا، ایک امن پسند قانون کا احترام کرنے والے شہری بنیں گے تو بچہ بھی قانون کا احترام کرے گا۔ اس کے اندر موجود صفات میں سے جس جس صفت کو پالش کریں گے وہ نکھرتی جائے گی۔

یقین مانیے میں نے پاکستان کے گاوٴں اور دیہاتوں میں بسنے والے اکثر سفید پوش گھرانوں کے بچوں کو صرف اپنے باپ داد کی نیک نامی کی صرف لاج رکھنے کی خاطر جرم کے ارتکاب سے خود کو بچاتے دیکھا اور سنا ہے۔ اور اسی طرح میں نے کسی کی بہن، بیٹی کی عصمت دری کرنے والے شخص کی بہن، بیٹی کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوتے سنا بھی ہے اور دیکھا بھی ہے۔

قصہ مختصر جیسی کہانی ہم لکھنا چاہیں گے ویسے ہی کردار سامنے پائیں گے۔ اپنے آپ کو راہ راست پر لا کر اگر آج ہم نے بحیثیت فرد خود کو بہتر نہ کیا تو جن کے ہم آئیڈیل ہیں ان سے کیسے توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ بحیثیت قوم ایک خوبصورت معاشرے کی بنیاد رکھیں گے یا ایک آئیڈیل معاشرے میں کبھی رہنے کے قابل ہوں گے۔ اپنے بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر دھیان دینا ہوگا تاکہ مستقبل میں کوئی ظاہر کسی نور کی عزت کو پامال نہ کر سکے، تاکہ زینب درندوں سے محفوظ رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments