ہربرٹ جارج ویلز کی ایک کہانی: جادو گھر


لندن کی ریجنٹ سٹریٹ کے اس حصے سے میں نہ جانے میں کتنی مرتبہ گزرا ہوں گا لیکن کبھی اس معمولی سی دکان کی طرف توجہ نہیں دی تھی۔ اس دن بھی میں جمی کو ٹہلانے نکلا تھا۔ وہ میری انگلی پکڑے چل رہا تھا۔ اچانک میری انگلی پر اس کے ننھے ہاتھ کی گرفت کچھ مضبوط ہو گئی۔ اس نے دکان کی طرف اشارہ کیا۔

اب میرے پاس سوائے دکان کی جانب مڑنے کے اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ ہم دکان کے دروازے کے کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے۔

”یہ دیکھیں ڈیڈی۔“
جمی نے شیشے کے دروازے سے جھانکا جس پر روشنی کے حروف میں لکھا تھا، ’جادو گھر‘ ۔

جمی کو جادو کے کرتب سیکھنے کا ہمیشہ سے شوق تھا۔ اگلے مہینے جمی کی آٹھویں سالگرہ تھی۔ میں نے سوچا یہ اچھا موقع ہے اسے اپنی پسند کا تحفہ دلوانے کا۔ ہم دکان میں داخل ہوئے۔ وہاں کوئی بھی نظر نہیں آیا۔ دیواروں پر قد آدم آئینے لگے ہوئے تھے۔ کسی میں دیکھنے والا سرکنڈے کی طرح لمبا اور باریک نظر آتا۔ کسی میں فٹ بال جیسا۔

میں نے ہنستے ہنستے کاؤنٹر پر رکھی گھنٹی کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اچانک پردے کے پیچھے سے ایک عجیب حلیے کا شخص برآمد ہوا جس نے مجھے چونکا دیا لیکن جمی نے اس کے حلیے کو بالکل نظر انداز کر دیا۔ اس کا لمبوترا چہرہ تانبے کی رنگت کا تھا۔ آنکھیں پر اسرار، ایک کان دوسرے کان سے خاصہ بڑا، اور آواز ایسی جیسے گراریوں والا چاقو کھل رہا ہو۔

”آہا، آج صحیح بچہ آیا، مدت کے بعد ۔“
ایک بڑے اور ایک چھوٹے کان والے دکان دار نے گراری دار آواز میں کہا۔
”فرمائیے کیا خدمت کروں آپ کی؟“
”میں بچے کی سالگرہ کے لئے کچھ آسان سے جادو کے کرتب تلاش کر رہا تھا جو یہ اپنے دوستوں کو دکھا سکے۔“
”فکر نہ کریں صاحب، ایسے شعبدے دکھاؤں گا کہ ننھے جمی کے دوست ہکا بکا رہ جائیں گے۔ ایسا؟“
دکان دار نے اپنے گھنے بالوں سے شیشے کی ایک گیند نکالی اور جمی کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
”بہت خوب۔“

میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ مگر میں حیران تھا کہ اسے جمی کا نام کیسے معلوم ہو گیا۔ شاید مجھ ہی سے سن لیا ہو؟

جمی گیند پکڑنے لگا لیکن دکاندار کا ہاتھ خالی تھا۔
”جمی، اپنے ابا کے کوٹ کی جیب میں دیکھو۔“

میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ گیند واقعی میری جیب میں تھی۔ میں گیند جمی کو دینے ہی والا تھا کہ مجھے لگا جیسے میرے ہاتھ میں کوئی نرم، روئیں دار، ملائم سی چیز ہے۔ میں نے زور سے ہاتھ جھٹکا۔ گیند اچانک کبوتر میں بدل گئی جو اڑ کر الماری پر جا کر بیٹھا اور گردن ہلا کر یوں غٹر غوں غٹر غوں کی آوازیں نکالنے لگا جیسے مجھ پر ہنس رہا ہو۔

پھر دکاندار نے یکے با دیگرے نئے نئے کرتب دکھانے شروع کر دیے۔ اس نے ایک ڈبے سے بینڈ باجے سمیت درجن بھر سپاہیوں کی ایک نفری نکال کر انہیں ترتیب سے کاؤنٹر پر کھڑا کر دیا۔ جیسے ہی جمی ان سپاہیوں کو دیکھنے کے لئے ان کے نزدیک ہوا اچانک ڈھول اور باجوں کی آواز گونجی اور سپاہیوں نے مارچ کرنی شروع کر دی۔

اتنے میں دروازے پر ایک کھڑکھڑاہٹ کی آواز آئی۔ جمی کی عمر کا ایک بچہ دروازے کے ہینڈل کو زور زور سے ہلا رہا تھا اور ساتھ کھڑے آدمی سے کہہ رہا تھا،

”ڈیڈی، مجھے سپاہیوں کے بینڈ والا کھلونا چاہیے۔“
”نہیں اینڈی بیٹے۔ دکان بند ہے۔ دیکھو دروازے پر تالا لگا ہوا ہے۔“
میں نے مروت میں آگے بڑھ کر دروازہ کھولنا چاہا۔
”کوئی فائدہ نہیں صاحب۔ یہ دروازہ ہر ایک کے لئے نہیں کھلتا۔ صرف جمی جیسے صحیح بچوں کے لئے کھلتا ہے۔“
”لیکن دروازہ تو کھلا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے۔“
میں نے حیرت سے پوچھا۔

” حضور یہ اصل جادو کی دکان ہے۔ کوئی بناوٹی، آنکھوں کا دھوکہ ہاتھ کی صفائی والا معاملہ نہیں۔ یہاں آپ کو صرف مستند چیزیں ہی ملیں گی۔ بتائیے کچھ اور دکھاؤں؟“

اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا جمی نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
”آئیے۔“
پردے کے پیچھے ایک زینے سے ہوتے ہم تہہ خانے میں پہنچے۔
”یہ ہمارا گودام ہے۔“

نیم تاریک گودام بہت بڑا تھا۔ محرابوں نے اسے کئی حصوں میں تقسیم کیا ہوا تھا جن میں سینکڑوں طلسماتی کرتب رکھے تھے۔ جمی ایک کاٹھ کے گھوڑے کو دیکھ رہا تھا جس نے جمی کو دیکھ کر ایک کدک لگائی اور ہنہنانا شروع کر دیا۔ اسے ایک طلسماتی تلوار اور لوہے کی ایک خود بہت پسند آئی جس سے پہننے والا دوسروں کو دکھائی نہیں دیتا تھا۔

میں نے ان سپاہیوں کی نفری، تلوار اور خود کی قیمت معلوم کرنے کی کوشش کی۔ بارہا پوچھا لیکن غیر متوازی کانوں والا دکاندار ہر بار بات ٹال جاتا۔ وہ جمی کو نئے نئے طلسمی کھلونے دکھاتا رہا۔

اس نے جمی کو مسحور کر دیا تھا۔ اب جمی نے میری انگلی چھوڑ کر اس کی انگلی پکڑ لی تھی۔ مجھے دکان دار پر شک بھی ہو رہا تھا اور رشک بھی آ رہا تھا۔

” ہمارے پاس بہت زیادہ وقت نہیں۔ آپ یہ کھلونے پیک کردیں اور بتا دیں کتنا بل بنا ہے۔“
میں نے کچھ عجلت آمیز اور کچھ خفگی کے انداز میں کہا۔ میں اب مزید وہاں رکنا نہیں چاہتا تھا۔

دکان دار نے منہ سے ریشمی ڈوری کا ایک سرا نکالا جس کو وہ کھینچتا چلا گیا۔ کئی گز ڈوری نکال کر اس نے سپاہیوں کا ڈبہ، تلوار اور خود باندھے۔ پیکٹ پر جمی کا پورا نام اور پتہ لکھا اور انگلی سے اپنی ناک کو رگڑا۔ آگ کا ایک شعلہ نکلا اور انگلی سرخ لاکھ میں بدل گئی جس کو پگھلا کراس نے پیکٹ سیل کر دیا۔ ایک پھونک ماری اور ہاتھ ویسے ہی ہو گیا جیسا پہلے تھا۔

جمی کی خوشی کی انتہا نہیں تھی۔ دکاندار نے ہاتھ بڑھا کر اسے قریب آنے کا اشارہ کیا اور بازؤوں میں اٹھا کر پاس پڑے سٹول پر کھڑا کر کے ایک خالی ڈرم سے اسے ڈھانپ دیا۔

”ڈیڈی، چلیں آنکھ مچولی کھیلیں۔“
جمی نے ڈرم کے اندر سے آواز لگائی۔
”یہ کیا خرافات ہے؟“
میں نے غصے میں کہا۔
”ہٹاؤ اس ڈرم کو۔ بچہ ڈر جائے گا۔“

دکاندار نے ڈرم اٹھایا۔ اس کے نیچے سٹول خالی تھا۔ جمی کا کہیں نام و نشان نہیں تھا۔ اس چہرے پر ایک گستاخانہ سی مسکراہٹ تھی۔

قارئین آپ یقیناً جانتے ہوں گے کہ کچھ لمحات ایسے ہوتے ہیں جن میں باشعور انسان بھی اپنے ہوش و حواس سے محروم ہو جاتا ہے۔ غصے اور پاگل پن کی یہ درمیانی کیفیت ایسی ہوتی ہے کہ انسان کچھ بھی کر گزر سکتا ہے۔ میں نے اسی کیفیت میں چلا کر کہا،

” یہ مذاق ختم کرو۔ کہاں ہے میرا بچہ؟“
اور دونوں ہاتھ اس کا گلا دبوچنے کے لئے بڑھائے۔

اچانک میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ مجھے یوں لگا جیسے میں ہوا میں معلق ہوں۔ پھر اچانک دھڑام سے کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی۔ جب مجھے ہوش آیا پتہ چلا یہ میرے ہی گرنے کی آواز تھی۔ میں ریجنٹ سٹریٹ میں زمین پر پڑا ہوا تھا۔ ایک شریف سے آدمی نے مجھے ہاتھ کا سہارا دے کر اٹھا یا۔ جمی تشویش ناک نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ اس کے ہاتھوں میں کھلونوں کے پارسل تھے۔

میں نے خفت اور شرمندگی میں مڑ کر دکان کی جانب دیکھا۔ لیکن مجھے اپنی نظروں پر یقین نہیں آیا۔ وہاں کوئی دکان نہیں تھی۔ کوئی دروازہ نہیں تھا۔ کوئی روشنیوں کے الفاظ میں ’جادو گھر‘ لکھا بورڈ نہیں تھا۔ صرف دو دکانوں کے درمیان ایک سیمنٹ کا تھڑا اور اس کے پیچھے سفیدی پھری ایک دیوار تھی۔

لوگ ہمارے ارد گرد جمع ہونے شروع ہو گئے تھے۔ میں نے وہاں سے فوراً کھسکنے ہی میں عافیت جانی۔ ایک ٹیکسی رکوائی۔ خشک زبان سے ڈرائیور کو گھر کا پتہ بتایا۔ کوئی چیز میرے کوٹ کی جیب میں ہلی۔ میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو وہی گیند نکلی جو دکان میں کبوتر بن گئی تھی۔ میں نے جھنجھلا کر گیند کو کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ جمی نے معنی خیز نظروں سے مجھے دیکھا لیکن کچھ بولا نہیں۔

کچھ دیر تک ہم دونوں خاموش رہے۔
”ڈیڈی، وہ بہت اچھی دکان تھی۔“

جمی نے بڑے اطمینان سے کہا۔ اس کے چہرے پر خوف، حیرانی یا تعجب کے کوئی آثار نہ تھے۔ وہ پوری تسلی سے پارسلوں کو گود میں رکھے کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔

”ان میں کیا ہو سکتا ہے؟“
میں سوچ رہا تھا۔

گھر پہنچ کر جب جمی نے اپنی ماں اور بہن کے ساتھ مل کر پارسل کھولے تو مجھے کچھ اطمینان ہوا۔ پیکٹوں میں ایک چھوٹی سی تلوار، ایک خود اور سیسے کے بنے ہوئے سپاہیوں سے بھرا ڈبہ تھا۔ انہیں اتنی مہارت اور خوبصورتی سے بنایا گیا تھا کہ لگتا تھا جمی کو ان کے طلسماتی سپاہی نہ ہونے کا کوئی خاص افسوس نہیں ہے۔

اس بات کو چھ مہینے گزر گئے۔ جمی اپنے کھلونوں سے بہت خوش تھا اور سارا فالتو وقت ان سے کھیلنے میں گزارتا اور انہیں بڑے فخر سے اپنے دوستوں کو دکھاتا جن میں وہ بہت مقبول ہو گیا تھا۔

سب ذمہ دار والدین اس بات سے اتفاق کریں گے کہ جو کچھ بھی اس دکان میں ہوا اس کا ذکر بچے سے کرنے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ جمی کی ان کھلونوں سے پیار اور رفاقت کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے جمی سے جادو گھر والے دن کا ذکر عرصے تک نہیں کیا۔

لیکن ایک دن میں تجسس پر قابو نہ رکھ سکا اور اتنا ضرور کہہ بیٹھا کہ جمی کیا ہی اچھا ہوتا کہ تمہارے یہ سپاہی سچ مچ پریڈ کر سکتے۔

” لیکن ڈیڈی میرے سپاہی تو پریڈ کرتے ہیں۔ جب میں اکیلا ان کا ساتھ کھیلتا ہوں۔“
جمی نے بالکل عام انداز سے جیسے کوئی خاص بات نہ ہو، بغیر کسی تاثر کے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

اس دن کے بعد سے کئی مرتبہ میں جمی کو بتائے بغیر اچانک اس کے کمرے میں گیا جب وہ اپنے کھلونوں سے کھیل رہا تھا۔ لیکن میں نے کبھی اس کے سیسے کے سپاہیوں کو مارچ کرتے نہیں دیکھا۔ اور نہ ہی میں نے جمی سے اس موضوع پر دوبارہ بات کی۔

میں ان لوگوں میں ہوں جو ’بخشش لاکھوں کی لیکن حساب پائی پائی کا‘ پر یقین رکھتے ہیں۔ میری عادت ہے کہ میں اپنے بل ملتے ہی ادا کر دیتا ہوں۔ جب تک حساب صاف نہ ہو جائے مجھے چین نہیں آتا۔ میں نے پارسلوں میں رسید تلاش کی لیکن کہیں نہ ملی۔ بھیجنے والے سے رابطے کا کوئی اشارہ نہ ملا۔

اس واقعے کے بعد ریجنٹ سٹریٹ پر میں کئی مرتبہ اس جگہ کے سامنے سے گزرا کہ شاید وہ دکان دوبارہ نظر آ جائے۔ میرے تجسس کی کچھ تسکین ہو جائے اور میں اپنا قرض بھی ادا کر سکوں۔ لیکن وہاں صرف وہی تھڑا اور اس کے پیچھے دیوار ہی دکھائی دیے۔

میں آج تک اس بل کا انتظار کر رہا ہوں جو میں ادا نہیں کر سکا۔ خیر ان کے پاس جمی کا نام پتہ موجود ہے۔ اب میں نے بھی بل کی ادائیگی کو ان لوگوں پر، وہ جو بھی ہیں، اور خدا پر چھوڑ دیا ہے۔ شاید ایک نہ ایک دن بل بھیج دیں تاکہ میرے سر سے یہ بوجھ اتر جائے۔ میں منتظر رہوں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments