نریندر مودی: اسلام آباد میں انڈیا کے وزیر اعظم کے غیر معمولی پوسٹرز کو کسی نے مضحکہ خیز کہا تو کسی نے درست جانا


 

اسلام آباد، نریندر مودی

‘مودی ڈریکولا کے روپ میں۔۔۔ واہ! اب میں نے اپنی زندگی میں سب کچھ دیکھ لیا۔’

اسلام آباد کی رہائشی اونیر رضا حیرت میں مبتلا ہیں۔ گذشتہ روز ان کی نظر رات کے اندھیرے میں ایک عجیب تصویر پر پڑی۔ شاید رات کی تاریکی میں اسے دیکھ کر کمزور دل افراد ڈر ہی جائیں۔ اس تصویر میں فوٹو شاپ کے ذریعے مسٹر مودی کو ڈریکولا کے روپ میں دکھایا گیا ہے۔ یہاں تک کے اُن کے منھ سے خون ٹپک کر داڑھی پر بہہ رہا ہے۔

تصویر پر لکھا ہے: ’امن تباہ کرنے والا مودی۔ اگر آپ اس سے متفق ہیں تو ہارن بجائیں۔‘

پوسٹر کا ماجرا کیا ہے؟

پانچ اگست 2019 کو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی گئی تھی۔ اور اس کے دو سال مکمل ہونے پر پاکستان میں مودی حکومت کے اس اقدام کی مذمت کے لیے ایک منفرد طریقہ دیکھنے میں آیا ہے۔

انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی کے ڈریکولا کے لباس میں پوسٹرز اچانک سے اسلام آباد کی شاہراہوں پر نمودار ہوئے۔

بی بی سی کی نامہ نگار سحر بلوچ بتاتی ہیں کہ اسلام آباد کے سیرینا چوک کی ایک جانب مجسٹریٹ سگنل پر کھڑے کچھ لوگ یہ کہتے سنائی دیے کہ ‘ہارن بجائیں، ہارن بجائیں۔’

گاڑیاں چوک سے گزرتی رہیں یا پھر ہارن بجا کر کچھ ڈرائیور بے چینی سے سگنل کو دیکھتے رہے۔

ان پوسٹرز کو دیکھ کر کچھ لوگ تو حیران ہوئے لیکن زیادہ تر افراد یہ پوسٹرز دیکھ کر آگے نکل گئے۔

’کیا اسلام آباد ہارن بجا کر مودی کو شکست دے گا‘

مگر وفاقی دارالحکومت کے اہم مقامات پر ان پوسٹرز کی ضرورت کیوں پیش آئی، یہ سوال سوشل میڈیا پر کئی لوگ پوچھتے دکھائے دے رہے ہیں۔

روحان احمد پوچھتے ہیں کہ ‘کیا مسٹر مودی نئی دہلی میں یہ ہارن سن سکیں گے؟’ اس کے جواب میں خلیق میمن نے لکھا ‘نہیں، جو سیرینا میں رہ رہے ہوں گے ان کا سکون تو گیا۔’

انڈین صحافی سمیتا پرکاش کا کہنا تھا کہ ‘مودی کو شکست دینے کے لیے ‘ہارن بجائیں؟’ کیا اسلام آباد کی بہترین حکمت عملی یہ ہے؟’

مزاحیہ تبصرے ایک طرف، کچھ لوگوں نے اس اقدام کے سفارتی اور سیاسی پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے۔

فاطمہ کہتی ہیں کہ ‘کیا یہ ایک سفارتی قدم ہے؟ اگر دفتر خارجہ اسے پانچ اگست پر مظاہرے کے لیے استعمال کر رہا ہے جب (کشمیر میں خصوصی حیثیت کے) آرٹیکل ختم کیے گئے تھے، تو اس سے پہلے کی جانے والی کوششوں کو بھی ناکامی ہوئی ہے۔’

نیلوفر آفریدی نے اعتراض اٹھایا کہ ‘کیا ہم واقعی ایسے عوامی اظہار پر (عوام کا) پیسہ خرچ کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ یہ ہیلووین ہے یا ڈریکولا؟’

مگر بعض لوگ اس پوسٹر سے متفق ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس میں کچھ غلط نہیں۔ جیسے آمنہ لکھتی ہیں کہ ‘پوسٹر پر لکھا جملہ بالکل درست ہے۔’

ایک صارف کا کہنا تھا ‘جمہوریت میں سب کو اظہارِ رائے کی آزادی ہوتی ہے، جب تک یہ پرامن طریقے سے کیا جائے۔ مجھے اس میں کچھ غلط نظر نہیں آ رہا۔’

مگر ماہوبلی نامی صارف کے مطابق جس دن یہ پوسٹر لگا اسی دن ہندوؤں کے ایک مندر پر حملہ کیا گیا۔ ان پوسٹرز کو اب ہٹا دینا ہی ٹھیک ہوگا۔

خیال رہے کہ گذشتہ روز صوبہ پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کے علاقے بھونگ شریف میں ایک مندر پر مشتعل افراد نے حملہ اور توڑ پھوڑ کی تھی۔

کچھ ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ درجنوں افراد ڈنڈوں، پتھروں اور اینٹوں کے ساتھ مندر کی کھڑکیوں، دروازوں اور وہاں موجود مورتیوں کو توڑ رہے تھے۔ صورت حال پر قابو پانے کے لیے پولیس کے بعد رینجرز کو علاقے میں طلب کر لیا گیا تھا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے صورت حال پر قابو پا لیا، تاہم اس وقت تک مندر کی عمارت کو خاصا نقصان پہنچایا جا چکا تھا۔

اسلام آباد میں لگائے جانے والے پوسٹر انڈیا میں بھی زیر بحث ہیں۔

موگدھا جوگلکر نامی انڈین صارف نے لکھا ہے کہ ’اگر ہارن بجانے سے مودی جی کو شکست دی جا سکتی تو انڈیا میں کبھی مودی جی جیت ہی نہ پاتے۔۔۔ ہم تو لال بتی پر بھی پیپو پیپو کرتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp