گیتا عمران سے کیا چاہتی ہے؟


شریمان عمران خان!

میں سندھ کے بارانی علاقے کے ایک بہت چھوٹے قصبے میں رہتی ہوں۔ میری عمر قریب 12 سال ہے۔ ہم 6 بہن بھائی ہیں؛ میرا بڑا بھائی جس کی عمر 14 سال ہے، ہمارے ساتھ رہتا ہے؛ جب کہ میری ماں کے دیہانت (انتقال) کے بعد میرے باپ نے کسی ودھوا (بیوہ) کے ساتھ دوسری شادی کر لی اور وہ اپنے چار بچوں کے ساتھ الگ رہتا ہے۔

ہم جس علاقے میں رہتے ہیں وہاں پر زیادہ تر لوگوں کا گزر بسر ان مال مویشی پر ہے؛ اگر ابر برسے تو کھیتی باڑی بھی کر لیتے ہیں اور مویشیوں کے لیے چارے کا بھی بندوبست ہو جاتا ہے۔ بصورت دیگر اس علاقے کی زیادہ تر آبادی سندھ کے بیراجی علاقوں کا رخ کرتی ہے اور سال کے تقریباً آٹھ مہینے سفر ہی میں گزارتی ہے۔

ویسے تو ہمارے گاؤں میں نہ بجلی ہے اور نہ ہی ٹی وی وغیرہ؛ لیکن لوگوں سے معلوم ہوا ہے کہ آپ کی پارٹی اکثریت سے جیتی ہے اور حکومت بنائے گی۔ لوگوں سے یہ بھی سنا ہے کہ آپ نے اپنی پہلی تقریر میں بہت سے معاملات پر بات کی ہے، جس میں سب سے بڑھ کر جو بات ہمیں اچھی لگی، وہ یہ کہ آپ بڑے محلات کو تعلیمی ادارے بنائیں گے اور ٹیکس کے پیسے جمع کر کے ہم پر خرچ کریں گے۔

آپ کی ان باتوں سے ہمیں حوصلہ ملا ہے اور میں نے سوچا کہ میں اپنے مسائل سے آپ کو آگاہ کروں؛ تا کہ آپ کو ان مسائل کو حل کرنے میں آسانی ہو۔ میں اپنے اور اپنے علاقے کے مسائل ذیل میں درج کر رہی ہوں۔

1۔ ہمارا زیادہ تر گزر اس مال مویشی پر ہے اور وہ بھی بارشوں پر منحصر ہے؛ اگر بارشیں ہو جائیں تو کچھ فصل بھی ہو جاتی ہے اور مویشی کے لیے چارا بھی۔ ہمارے کچھ دن آسانی سے گزر جاتے ہیں لیکن ہمارے سر کے اوپر ایک تلوار لٹکتی رہتی ہے کہ یہ تو کچھ دنوں کے لیے ہے، باقی ماندہ دنوں میں ہم کو پھر پیٹ پر پٹیاں باندھ کر گزارا کرنا ہوگا۔

2۔ مجھے اپنے گھر کے پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے تقریباً ایک کلومیٹر دور جانا پڑتا ہے؛ وہ بھی اگر کنویں میں پانی ہو تو ٹھیک، ورنہ مجھے ایسے ہی لوٹ کر آنا پڑتا ہے۔ پانی بھی اتنا ملتا ہے کہ اس سے یا تو برتن مانجھے جا سکتے ہیں یا کھانا پکایا جا سکتا ہے، جو پانی ہم پیتے ہیں وہ کسی بھی حوالے سے پینے کے لائق نہیں ہے؛ محسوس ہوتا ہے جیسے ہم زہر پی رہی ہیں۔ گو کہ میٹھے پانی کی پائپ لائن ہمارے گاؤں کے پاس سے گزرتی ہے، مگر اس سے پانی بھرنے کا حق ہمیں حاصل نہیں۔ کبھی کبھار لائن سے گرتے ہوئے میٹھے پانی کے قطروں کے نیچے ہتھیلی رکھ کر پانی کے ایک دو گھونٹ پی لیتے ہیں اور حسرت سی ابھر آتی ہے کہ ہمیں بھی یہ میٹھا پانی میسر ہو! تو میری آپ سے یہ بِنتی (گزارش) ہے کہ ہمارے گاؤں سے گزرتے میٹھے پانی کی پائپ لائنوں سے اگر ہمیں بھی تھوڑا سا پانی مل جائے تو ہم آپ کے بے حد شکر گزار ہوں گے۔

3۔ ہم چھہ بہن بھائیوں سمیت میرے گاؤں کا کوئی بھی بچہ اسکول نہیں جاتا؛ شاید آپ کہیں کہ یہ معاملہ صوبائی حکومت کا ہے، آپ نے جب سرکاری محلات کو تعلیمی ادارے بنانے کی بات کی تو میری آنکھوں میں بھی چمک سی آگئی اور میں نے سوچا کہ اپنے وزیر اعظم سے کہوں کہ میں بھی آپ کے بنائے ہوئے اسکول میں پڑھنا چاہتی ہوں؛ کیوں کہ ہمارے گاؤں میں اسکول ہی نہیں ہے اور اگر کسی گاؤں میں اسکول ہے بھی تو اس کا تعلیمی معیار بہت ہی ناقص ہے؛ تو آپ بس اتنا کر دیجیے کہ پورے پاکستان کے تعلیمی نظام کو ایک برابر کر دیں اور ہر بچے کو ایک جیسے مواقع فراہم کریں، تا کہ میں اور میرے جیسے دیگر بچے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو سکیں۔

4۔ میری ماں کی موت ہمارے گاؤں میں ڈلیوری کے دوران ہوئی؛ صحت کی وہ سہولیات جو کہ ایک پاکستانی شہری کو میسر ہونی چاہیں وہ ہمیں میسر نہیں ہیں۔ اگر اسپتال ہیں بھی تو ان میں ادویات نہیں؛ لیڈی ڈاکٹر بھی تو چوبیس گھنٹے نہیں ہیں۔ ہمارے ضلع کی کوٹے پر جو ڈاکٹر بنتی ہیں، وہ واپس یہاں ڈیوٹی نہیں کرتیں؛ بلکہ کسی بڑے شہر میں سرکاری نوکری بھی کرتی ہیں اور اپنے اسپتال کھول کر خوب پیسے بھی کماتی ہیں۔ ہم چاہیں گے کہ آپ ایسے قانون بنائیں کہ ایک ضلع کے کوٹے پر بھرتی ہونے والے ڈاکٹر اسی ضلع میں اپنی ڈیوٹی سر انجام دیں؛ تا کہ مجھ جیسے بہت سے بچے یتیم ہونے سے بچ جائیں۔

5۔ جب میں سات سال کی تھی تو میرے گاؤں کے قریب گھنے درخت ہوتے تھے اور میری چچی کہتی ہیں، کہ اب سے بیس سال پہلے اس سے بھی زیادہ گھنے درختوں کا جنگل ہوتا تھا، جن سے ہمیں مویشیوں کے لیے چارہ بھی ملتا تھا اور جانوروں اور انسانوں کے لیے چھاؤں بھی میسر ہوتی تھی۔ چرند پرند بہت خوش ہوتے تھے۔ صبح اُٹھتے تھے تو بہت سی اقسام کے پرندے ان درختوں پر چہچہاتے تھے، مگر اس وقت کہیں کہیں کوئی درخت نظر آتا ہے۔ پانی بھرنے کے لیے ہمیں آتے جاتے دھوپ لگتی ہے تو کہیں بیٹھنے کے لیے کوئی سایا نہیں ہوتا اور جلتی دھوپ میں ایک حسرت لیے لوٹ آتے ہیں۔ یہ سب اس لیے ہوا ہے کہ گاؤں کے کچھ لوگ اور سرکاری بندوں نے مل کر تقریباً سارے درختوں کا صفایا کر دیا ہے؛ جس سے نہ ہی انسانوں اور مویشیوں کے لیے سایہ ہے اور نہ ہی پرندوں کے رہنے کے لئے کوئی جگہ؛ تو اگر خیبر پختون خوا کی طرح پورے پاکستان بالخصوص ہمارے ضلع میں درخت لگوائیں گے تو ہمارے لیے سایہ بھی ہو جائے گا، بارش بھی ہوگی، گرمی کا پریشر کم ہو گا اور وہ پرندے جو درخت نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے علائقوں میں چلے گئے ہیں، وہ بھی لوٹ آئیں گے۔

6۔ میرے علاقے میں کچھ ایسے مقام ہیں، جو کھ سیاحوں کے لیے دل چسپی کا سامان رکھتے ہیں۔ جن سے نا صرف اس علاقے کی تاریخی پس منظر کا پتا پڑتا ہے، بلکہ لوگوں کے رہن سہن، رسم و رواج، ذرائع معاش، مذہبی ہم آہنگی کے بارے میں معلومات ملتی ہیں۔ مقامی لوگ سیاحت سے کچھ پیسا کما لیتے ہیں، تو آپ ان مقامات، خاص طور پہ کارونجھر، گوری کا مندر، بھودیسر کی مسجد، جین ٹیمپل، ماروی کا کنواں، نو کوٹ، اور عمر کوٹ قلعہ، سندھ کے دیگر تاریخی مقامات کے بارے میں ایسی پالیسی مرتب کریں، کہ سیاح بغیر کسی خوف و خطر کے گھوم سکیں۔

مجھےامید ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم ہونے کی حیثیت سے آپ میری گزارشات پر نظر کریں گے، اور ان مسائل کو حل کریں گے۔
گیتا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).