عاصمہ جہانگیر کے بعد۔۔۔۔


 سید ابوالاعلی مودودی کے صاحبزادے کی اقتدا میں نماز جنازہ اور جنازے کے اس اجتماع کی صف اول میں خواتین کا ہجوم کیا پیغام دیتا ہے؟ مجھے اس سے کوئی خاص غرض نہیں۔ اگر زیادہ ہاو ہو نہ ہوئی ہوتی تو ممکن ہے، لوگ باگ اس واقعے کو ذرا اچنبھے سے دیکھتے پھر اس منظر کو نظر انداز کر کے گزر جاتے کہ زندہ معاشروں میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں جو بالآخر کان کا نمک بن جاتے ہیں۔ پریشانی کا سبب دراصل ایک اور بات ہے۔

 اتوار کی سہ پہر فرشتہ اجل عاصمہ جہانگیر کی روح قبض کر کے لاہور کی حدود سے ابھی نہیں نکلا ہو گا کہ ایک ہنگامہ بپا ہو گیا۔ لاہور ہی میں ایک کرم فرما ہوتے ہیں جو ماضی قریب میں سلطانی جمہور پر لعنت بھیجنے، قبریں کھودنے، کفن پہننے یا پھر تبدیلی کے نام طوفان بدتمیزی مچانےوالوں کی بلائیں لیا کرتے تھے۔ اس سے کچھ وقت بچ رہتا تو اپنے ہی دیس کے مرد و خواتین اور بوڑھے بچوں کو خاک و خوں میں نہلا دینے والوں کے قصیدے پڑھتے، ریاست کے مقام و مرتبے پر سوال اٹھاتے اور اعتدال کی بات کہنے والوں کے لتے لیتے۔ ان صاحب نے ارشاد فرمایا کہ اس ملعونہ کی نماز جنازہ درست ہوگی نہ تدفین، ہاں البتہ اس کی میت جلا ڈالی جائے اور سرزمین پاک کو اس کی خاک ناپاک سے بچاتے ہوئے سرزمین ہند پر اڑا دیا جائےتو بہتر ہو۔

 جن صاحب کا یہ ذکر ہے، وہ کچھ بھی کہہ ڈالتےتو حیرت نہ ہوتی لیکن یہ بات تو حاشیہ خیال میں بھی نہ تھی کہ یہ صاحب اور ان کے بے شمار دوسرے ہم خیالوں کا دل دشمن کے مرنے پر بھی ٹھنڈا نہ ہو گا۔ بس یہی بات ہے جو پریشاں کیے دیتی ہے۔

 صرف ان ہی صاحب کی گل افشانی گفتار پر کیا موقوف، اس واقعے پر یاروں نے ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی ایسی ایسی کوشش کی کہ حالی یاد آگئے جنھیں زمانہ قبل اسلام کی یاد آئی تو فرمایا:

کہیں تھا مویشی چرانے پہ جھگڑا

کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا

لب جو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا

کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا

یوں ہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں

یوں ہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں

گستاخی معاف، کیا پاکستانی معاشرہ زمانہ قبل از اسلام کی ذہنی کیفیت میں جا پہنچا ہے؟

اگر تو یہ مفروضہ درست ہے تو پھر جو کچھ عاصمہ جہانگیر کے جنازے میں ہوا، اس پر فکر مند ہوتے رہئے لیکن اس ساتھ ہی اس امکان پر بھی غور کیجئے کہ کہیں اس طرح کے مظاہر آپ کے ہسٹیریائی طرز عمل کا ردعمل تو نہیں۔

ان سطور کے لکھنےوالے کی اتنی مجال تو نہیں کہ وہ بہت دور کی کڑی لاتے ہوئے عبداللہ بن ابی کے جنازے کی مثال درمیان میں لائے لیکن اتنا تو کہا ہی جا سکتا ہے کہ پاکستانی معاشرے کی تہذیبی روایات ہوں یا ہمارے آفاقی عقیدے کی تعلیمات، ان سب میں مشکل یا صدمے کے شکار دشمن جاں بلکہ دشمن دین و ایماں کے ساتھ بھی وہ طرز عمل اختیار کرنے کی اجازت ہرگز نہیں جس کے مظاہر گزشتہ چند روز کے دوران دیکھے گئے۔

ان معاملات کی فلسفیانہ تہہ میں جانے کی ہمت نہیں، صرف یہ سمجھنے کی آرزو ہے کہ ہمارے معاشرے میں، جس کے بزرگوں نے دشمن کے مرنے پر بھی خوشی نہ کرنے روایات پروان چڑھائی تھیں، اسے کس مرض نے آلیا ہے کہ اختلاف کےاظہار میں وہ ان اخلاقی حدود کو بھی پھلانگ گیا ہے جن کی خلاف ورزی کا کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔

 ہمارے وہ شہر جیسے سرگودھا، جھنگ، مردان، مانسہرہ یا ڈیرہ الہ یار ہیں، دیہی بود و باش کی نمائندگی کرتے ہیں، ایسے مقامات پر لوگ عام طور پر ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں، راہ چلتوں کو راستہ دیتے اور سوار پیدل کو ساتھ بٹھا لیتے تھے مگر ہمارے بین الاقوامی شہر یعنی کراچی لاہور وغیرہ کے لوگ بھی ایسی خوبیوں سے مبرا نہ تھے لیکن جیسے ہی اس ملک میں خود کش حملوں کی وبا آئی، لوگ خوف زدہ ہوگئے اور رفتہ رفتہ یہ خوب صورت تہذیبی مظاہر معدوم ہوتے چلے گئے۔ اب عاصمہ جہانگیر کے انتقال پر جن ” تہذیبی” مظاہر کے “پھول” کھلے ہیں، ان کے نتیجے میں تو ایسی بربادی پاوں پسارے گی کہ فیض یاد آجائیں گے جنھوں نےکچھ ایسی کیفیت میں بہ حسرت و یاس کہا ہوگا:

گھر رہیے تو ویرانیِ دل کھانے کو آوے

رہ چلیے تو ہر گام پہ غوغائے سگاں ہے

 بہت اچھا ہو کہ ہم لوگ ایسے واقعات سے عبرت پکڑیں اور اپنے طور طریقے درست کرنے کی تدبیر کریں۔ کہنے والے درست کہتے ہیں کہ یہ کام ایک ہمہ گیر فکری تحریک کے بغیر ممکن نہ ہو پائے گا اور اس نیک مقصد کے لیے اپنے نام نہاد تعصبات اور فکری و غیر فکری وابستگیوں سے اوپر اٹھ کر باہم سر جوڑ کر بیٹھنا پڑے گا۔ ایسا اب نہ ہوا تو پھر جان لیجئے کہ پھر ہر کوئی اپنے اپنے نظرئیے کی ڈفلی بجاتا پھرے گا اور اس کے جواب میں کوئی ” مجاہد” اٹھے گا اور آپ کی خوش خیالیوں کی ارتھی بھسم کر کے فضا میں بکھیر دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).