عمران خان کا مُکا


یہ نومبر دو ہزار سات کا قصہ ہے۔ پاکستان کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی تھی۔ تمام ٹی وی چینلز پر پابندی لگا دی گئی لیکن میں نے جیو نیوز کے لیے اپنا ٹی وی شو کیپیٹل ٹاک بند نہیں کیا تھا۔

میں اپنے ساتھیوں کی مدد سے سڑکوں اور چوراہوں پر یہ شو کرتا اور پھر اسے سیٹلائٹ پر نشر کیا جاتا۔ اس طرح یہ شو پاکستان سے باہر ناظرین تک پہنچ جاتا تھا۔ اس ‘چھاپہ مار‘ صحافت کی خبر سی این این کو ملی، تو اس امریکی نشریاتی ادارے نے ہمارے روڈ شوز کے بارے میں ایک خصوصی رپورٹ نشر کی۔ یہ رپورٹ نشر ہوئی تو عمران خان نے مجھ سے رابطہ کیا۔ ان دنوں وہ انڈرگراؤنڈ یعنی روپوش تھے۔ پولیس ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی تھی لیکن وہ مجھے انٹرویو دینا چاہتے تھے۔ ان کی پارٹی کے ایک رہنما میاں محمود الرشید نے مجھے لاہور بلایا اور بہت سی گاڑیاں بدل بدل کر مجھے عمران خان تک پہنچا دیا گیا۔

عمران خان نے اس انٹرویو میں مجھے پولیس کے چھاپوں سے فرار کی پوری کہانی سنائی۔ جب یہ کہانی سیٹلائٹ پر نشر ہوئی تو مشرف حکومت نے ایک مفرور کے انٹرویو کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے سیٹلائٹ پر جیو نیوز کی نشریات بند کرنے کا جواز بھی تلاش کر لیا۔ کچھ دنوں بعد عمران خان پنجاب یونیورسٹی لاہور سے گرفتار ہو گئے اور انسدادِ دہشت گردی کے قانون کے تحت درج مقدمے میں جیل بھیج دیے گئے۔ چند دنوں میں ان کی ضمانت ہو گئی، وہ سیدھے اسلام آباد آئے اور آبپارہ مارکیٹ میں پرانے پریس کلب کے باہر روڈ شو میں بیٹھے اور آزادیء صحافت اور آئین کی بالا دستی کے حق میں گفتگو کرنے لگے۔

مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب عمران خان مُکا لہرا کے کہتے کہ میڈیا کی آزادی کے بغیر جمہوریت فروغ نہیں پا سکتی تو مجمع میں کھڑے احمد نورانی زور زور سے نعرے لگواتے: ”لے کے رہیں گے آزادی۔‘‘

اب آپ دو ہزار سات سے دو ہزار اکیس میں آ جائیں۔ عمران خان کو وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالے تین سال ہونے والے ہیں اور ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان 139 ویں نمبر سے 145 ویں نمبر پر آ چکا ہے۔

مشرف دور میں مجھ پر صرف ٹی وی اسکرین پر نمودار ہونے پر پابندی تھی۔ لیکن میں اخبار میں لکھ سکتا تھا۔ عمران خان کے دور میں مجھ پر ٹی وی کے ساتھ ساتھ اخبار میں لکھنے پر بھی پابندی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مشرف دور میں مجھ پر پابندی پیمرا کے ذریعے لگائی گئی تھی۔ لیکن عمران خان کے دور میں پابندی لگانے کے لیے پیمرا یا کسی عدالت کے حکم کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اب مجھ پر لگائی گئی پابندی کا ایک ماہ پورا ہو گیا ہے۔ لیکن اس دوران عمران خان کے وزراء بڑے اعتماد کے ساتھ یہ دعوے کرتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا مکمل آزاد ہے۔

یاد کیجیے! جولائی 2019ء میں سابق صدر آصف علی زرداری کا میں نے جیو نیوز کے لیے انٹرویو کیا تھا۔ یہ انٹرویو جیسے ہی نشر ہونا شروع ہوا، تو اچانک اسے جیو نیوز کی اسکرین سے غائب کر دیا گیا۔ اس وقت ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان وزیر اعظم کی مشیر برائے اطلاعات تھیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ انٹرویو اس لیے روکا گیا کیوں کہ آصف علی زرداری چند زیر سماعت مقدمات میں نامزد ملزم ہیں۔

پیمرا نے وضاحت کی کہ یہ انٹرویو رکوانے کے لیے کوئی حکم جاری نہیں کیا گیا۔ جب یہ انٹرویو رکوایا گیا، تو میں نے وفاقی وزراء اسد عمر، شفقت محمود اور شیریں مزاری کو یاد دلایا کہ سن 2014ء میں دھرنے کے دوران آپ پر قائم ہونے والے مقدمات ختم نہیں ہوئے، ان مقدمات میں عمران خان اور عارف علوی بھی ملوث کیے گئے تھے۔ لہٰذا آپ سب بھی ملزمان ہیں تو پھر آپ لوگ ٹی وی پر کیوں آتے ہیں؟ ہمارے ان دوستوں نے یہ اعتراض نظر انداز کر دیا۔

کچھ دن بعد مریم نواز کی پریس کانفرنس نشر کرنے پر اکیس ٹی وی چینلز کو نوٹس جاری کیے گئے، جب کہ چینل 24، اب تک ٹی وی اور کیپیٹل ٹی وی کو کیبل پر بند کر دیا گیا۔ پچھلے تین سال میں چینل 24 تین مرتبہ بند کیا گیا، جس میں سب سے لمبی بندش ایک سو دن کی تھی۔ مارچ 2020 میں جنگ گروپ کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمان کو نیب نے ایک شکایت کی تصدیق کے لیے بلایا اور قید کر لیا۔ پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے سربراہ کو ایک تین عشرے پرانے کیس میں آٹھ ماہ تک قید میں رکھا گیا اور ان کی رہائی سپریم کورٹ کے ذریعے عمل میں آئی۔

عمران خان کی حکومت کے تین سال میں ایف آئی اے کے ذریعے درجنوں صحافیوں پر دباؤ ڈالا گیا۔ ایک دن مجھے ایف بی آر کے ذریعے نوٹس ملا کہ آپ کے پاس دبئی میں ایک گھر ہے، جو آپ نے ڈکلیئر نہیں کیا۔ جب میں نے شور مچایا کہ پاکستان سے باہر میری کوئی جائیداد ہے اور نہ ہی کوئی بینک اکاؤنٹ، تو ایف بی آر نے یہ نوٹس واپس لے لیا۔

اب صورت حال یہ ہے کہ فریڈم نیٹ ورک کی طرف سے اپریل میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق مئی 2020ء سے اپریل 2021 ء تک پاکستان میں صحافیوں پر 148 حملے ہوئے۔ پچھلے سال اس عرصے میں 91 حملے ہوئے تھے۔ یوں صرف ایک سال میں صحافیوں پر حملوں میں 40 فیصد سے زائد اضافہ ہوا۔ سب سے زیادہ حملے اسلام آباد میں ہوئے۔ اسی لیے فریڈم نیٹ ورک نے اسلام آباد کو صحافیوں کے لیے خطرناک ترین شہر قرار دیا۔

فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ جاری ہونے کے بعد اسد علی طور پر اسلام آباد میں حملہ ہوا۔ حملہ آوروں کی سی سی ٹی وی فوٹیج موجود تھی لیکن وہ گرفتار نہ ہو سکے۔ ان حملہ آوروں کا ایک چوتھا ساتھی اسد علی طور کی رہائش گاہ کے باہر سڑک پر کھڑا تھا، اس کی بھی فوٹیج مل گئی، پھر بھی ملزمان گرفتار نہیں ہوئے۔ حیرت ہے کہ لاہور میں بم دھماکے کے ملزمان چار دن میں گرفتار ہو گئے لیکن اسد علی طور کے گھر میں گھسنے والے چار ہفتے بعد بھی نہ پکڑے گئے۔

عرض صرف یہ کرنا تھا کہ عمران خان نے قومی اسمبلی سے بجٹ پاس کرا لیا ہے اور اپوزیشن کو تتر بتر کر دیا ہے۔ اب وہ کسی نہ کسی طرح میڈیا اور عدلیہ کو بھی ‘فتح‘ کرنا چاہتے ہیں۔ شاید وہ پاکستان کو چین بنانا چاہتے ہیں، جہاں صرف ایک ہی سیاسی پارٹی ہے۔

اگر وہ پاکستان کو چین بنانا چاہتے ہیں تو یہ ایک خطرناک سوچ ہے، چین کے ساتھ دوستی تو اچھی ہو سکتی ہے لیکن چین کا نظام پاکستان میں نہیں چل سکتا۔ فی الحال عمران خان کے دور میں اسلام آباد صحافیوں کے لیے خطرناک ترین شہر قرار پایا ہے۔ لیکن آثار بتا رہے ہیں کہ میڈیا اور عدلیہ کو ‘فتح‘ کرنے کی کوشش تحریک انصاف کو پاکستانیوں کے لیے خطرناک ترین جماعت بنا سکتی ہے۔

جب بھی مجھے یہ پوچھا جاتا ہے کہ آپ پر پابندی کب ختم ہو گی، تو مجھے عمران خان کا وہ مُکا یاد آ جاتا ہے، جو وہ کبھی میرے روڈ شو میں لہراتے تھے اور آزادیء صحافت کے حق میں تقریریں کیا کرتے تھے۔ یہ مُکا آزادی صحافت کے منہ پر بار بار رسید ہو رہا ہے۔ لہٰذا میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ مجھ پر لگائی گئی پابندی کب ختم ہو گی؟

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments