گستاخانہ خاکے اور ہمارے رویے


پوری دنیا میں مسلمانوں کو کمزور کرنے اور دین اسلام کا نام مٹانے کی ناکام کوششیں عرصہ دراز سے جاری ہیں۔ صیہونی منصوبہ ساز باقاعدہ طور پر منظم طریقے سے ان کوششوں کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ صیہونی میڈیا نے اسلام کو مغربی دنیا میں ایک خطرے کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ مسلمانوں پر دہشتگرد کی چھاپ لگائی جارہی ہے۔ یہ پروپگینڈہ کیا جارہا ہے کہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعدادپوری دنیا کے لیے خصوصا مغربی دنیا کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ اسی خطرے کو بنیاد بناتے ہوئے مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کو اسلام چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کی نسل کشی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی کردار کشی بھی کی جارہی ہے۔ آزادئی اظہار رائے (Freedom of Expression) کے نام سے اسلام اور قرآن کی توہین کی جارہی ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نازیبا کلمات بولے جارہے ہیں۔ کبھی آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے بنائے جارہے ہیں تو کبھی ان پر نازل ہونے والی کتاب کو جلایا جارہا ہے۔ سن دوہزار کے بعد اس میں باقاعدہ تیزی دکھائی دی اور ہر سال کچھ نہ کچھ گستاخانہ مواد شائع کرکے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہچائی گئی۔ 2004میں صومالی نژاد مرتد خاتون آیان ہر سی علی (Ayaan Hirsi Ali)اور ہالینڈ کے فلم میکر تھیووین گاف (Theo Van Gogh)نے مل کر ”Submission‘‘ کے نام سے ایک گستاخانہ فلم بنائی جس کا نام عربی نام ” اسلام ‘‘ رکھا گیا۔ اس فلم میں قرآن پاک کی توہین کی گئی اور ایک برہنہ خاتون کے جسم پر آیات قرآنی لکھی ہوئی دکھائی گئی۔ اس فلم کے خلاف بھی پورے عالم اسلا م میں شدید احتجاج ہوا۔ جب اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا تو اس فلم کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر تھیووین گاف کو 2004 میں ہالینڈ کے شہری محمد بوژہری نے قتل کرکے جہنم واصل کردیا تھا۔

اس کے بعد 30ستمبر 2005کو ڈنمارک کے کثیر الاشاعت اخبار جیلنڈس پوسٹن (Jyllands Posten) نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ گستاخانہ خاکے شائع کیے۔ اس گستاخی کے بعد پورے عالم اسلام میں ہلچل مچ گئی اور عالمی سطح پر احتجاج ریکارڈ کروایا گیا اور ڈنمارک کی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی کیا گیا۔ بعد میں یہ مسئلہ عارضی طور پر ٹھنڈا ہوگیا۔ ایک سال بعد اس معاملے کو مزید ہوا دینے کی کوشش کی گئی۔ صیہونی ڈینٹل پائیس پھر میدان میں آیا اور یہودیو ں کے زیر اثر یورپ کے سات بڑے اخبارات میں یکم فروری 2006کو فرانس میں چارلی ہیبڈو (Charlie Hebdo)، جرمنی، اٹلی، ہالینڈ، اسپین اور سوئزرلینڈمیں جیلنڈس پوسٹن والے بارہ خاکے دوبارہ شائع کیے گئے۔ اس معاملے کو مزید بڑھایا گیا۔ 2008میں ہالینڈ کے کارٹونسٹ گریکوری نیکشٹ (Gregory Nekschot)نے اپنے خاکوں سے اسلامی اقدار کا مذاق اڑایا۔

اسی طرح 2008میں ہالینڈ میں رکن پارلیمنٹ گیرٹ ولڈرز نے ایک متنازعہ فلم ” فتنہ ‘‘ بنائی جس میں قرآن کریم کی آیات پر تنقید کی گئی جس پر پوری دنیا میں مظاہرے کیے گئے اور گیرٹ ولڈرز کے مقد مہ کا مطالبہ کیا گیا۔ لیکن اس پر بھی کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ اسی طرح 21مارچ 2011 کو ملعون پادری ٹیری جونز (Terry Jones)نے بھی قرآن کریم کی گستاخی کی۔ اس نے قرآن پاک پر مقدمہ بناکر مجرم ٹھہرایا اور پھر سزا کے طور پر قرآن پاک کو نذر آتش کیا۔ 2نومبر 2011کو فرانس کے متنازعہ ترین اخبار چارلی ہیبڈو نے پیغمبر رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی والا شمارہ ” شریعہ ہیبڈو‘‘ (Sharia Hebdo)کے نام سے جاری کرنے کا فیصلہ کیا جس کے رد عمل میں اس پر حملہ ہوا لیکن اس کا ایڈیٹر گستاخیوں سے باز نہیں آیا اور یہ سلسلہ 2012میں بھی جاری رہا۔

اسی ٹیری جونز نے ستمبر 2012میں ایک متنازعہ فلم بنائی جس کا نام ” مسلمانوں کی سادگی‘‘ رکھا۔ یہ فلم بھی گستاخیوں سے بھری ہوئی ہے۔ 2015میں ایک مسلح مسلمان نے فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ایک میگزین ”چارلی ہیبڈو‘‘ کے دفتر پر حملہ کر کے گستاخانہ کارٹون چھاپنے پر 12 افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد چند عالمی نشریاتی اداروں نے اعلان کیا کہ وہ آئندہ ایسا کوئی گستاخانہ خاکہ نہیں چھاپیں گے جس سے کسی کی مذہبی دلآزاری ہو لیکن جس طرح مغرب نے اکٹھے ہو کر پیرس میں یہ اعلان کیا کہ ہم سب چارلی ہیں اور اگلے شمارہ میں مزید گستاخانہ خاکے شائع کر کے 6 زبانوں میں 30 لاکھ کی تعداد میں پوری دنیا میں تقسیمکیے گئے ہیں۔

ہالینڈ کی اسلام دشمن جماعت ”فریڈم پارٹی ‘‘کے سربراہ ملعون گیرٹ ولڈرز(Geert Wilders) نے ایک بار پھر دنیا کا امن داؤ پر لگاتے ہوئے نومبر 2018میں گستاخانہ خاکوں کی نمائش کا اعلان کیا ہے۔ گیرٹ ولڈرز(Geert Wilders) ایک ڈچ سیاستدان ہے اور اس کی شہرت اسلام پر تنقید کی وجہ سے ہے۔ نیدر لینڈ اور بیرون نیدرلینڈ میں اسلام مخالف خیالات کی وجہ سے وہ متنازع بنا ہوا ہے۔ اس کی پارٹی نے نیدر لینڈ میں اسلام کے خلاف مہم چلاتے ہوئے قرآن کا مقابلہ ہٹلر کی لکھی ہوئی کتاب ”مائن کیمپف‘‘ (Mein Kampf) سے کیا۔ نیدر لینڈ میں قرآن کی اشاعت اور اس کی تلاوت پر پابندی عائد کرنے کی مہم چلائی۔ مساجد کو تالا لگانے اور نئی مساجد کی تعمیر کو ممنوع قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ اسی کے ایماء پر ڈچ حکومت نے حجاب، برقعہ اور نقاب پر پابندی لگائی۔

ولڈرز ایک لادین قسم کا انسان ہے۔ اس کے عقیدے کے مطابق خدا کا وجود محال ہے۔ اسلام کی مخالفت اور توہین کی وجہ سے ولڈرز مستقل طور پر سادہ لباس میں پولس محافظین کے محاصرہ میں رہتا ہے اور کسی کو بھی بغیر مشورے، تحقیق اور حفاظت کے ملنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ وہ ریاست کی طرف سے دیے گئے ایک بلٹ پروف گھر میں رہتا ہے جس کی نگرانی میں ہمہ وقت پولس تعینات رہتی ہے۔ وہ گھر سے پارلیمان اپنے دفتر تک سخت پولس محاصرہ میں بلٹ پروف جیکٹ پہن کر جاتا ہے۔ اس کا دفتر ڈچ پارلیمان میں سب سے الگ ایک کونے میں بنا ہوا ہے تاکہ کوئی بھی حملہ آور اس تک نہ پہنچ سکے۔ ایک ہنگرین خاتون ڈپلومیٹ کرسٹینا ویلڈرس (Diplomat Christine Wilders)سے اس کی شادی ہوئی جس سے وہ سیکیورٹی کی وجہ سے ہفتہ میں صرف ایک بار ہی ملتا ہے۔

اسلام دشمن ڈچ سیاست دان گیرٹ ولڈرز نے اعلان کیا کہ اس بار گستاخانہ خاکوں کا نمائشی مقابلہ سیکورٹی نکتہ نظر سے ڈچ پارلیمنٹ کی عمارت کے اندر منعقد کیا جائے گا۔ اس میں ڈچ شہریوں سمیت فریڈم پارٹی کے اراکین کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے اور آن لائن گستاخانہ خاکے بھی طلب کیے گئے ہیں۔ ڈچ میڈیا کے مطابق اس مقابلے کو سوشل میڈیا پر بھی براہِ راست دکھایا جائے گا اور شرکا ء کو بھاری انعامات دیے جائیں گے۔ اس گستاخانہ مقابلے کے جج کے طور پر گیرٹ ولڈرز نے امریکہ سے تعلق رکھنے والے ملعون کارٹونسٹ بوش فاسٹن کے نام کا اعلان کیا ہے۔ یہ وہی جس نے 2015میں امریکن فریڈم ڈیفینس انیٹیٹیو (American Freedom Defense Initiative)کے تحت منعقدہ گستاخانہ مقابلے میں اوّل انعام حاصل کیا تھا، جس کی وجہ سے ملعون گیرٹ ولڈرز نے اس کو ڈچ پارلیمنٹ میں منعقد ہونے والے مقابلہ کا منصف بنایا ہے۔

اس مقابلہ کو منعقد ہونے میں ابھی کچھ مہینے باقی ہیں۔ اللہ کرے کہ یہ منعقد نہ ہو۔ لیکن ظاہری حالات و اسباب بتاتے ہیں کہ یہ منعقد ہوکر رہے گا۔ کیونکہ گذشتہ سالوں بھی اس قسم کے مقابلوں کے اعلانات کیے گئے اور مسلمانوں کے احتجاج کے باوجود وہ مقابلے اپنے وقت پر ہوئے۔ جب بھی اس طرح کا واقعہ سامنے آیا تو ہر بار مسلمانوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا، ریلیاں نکالیں، مظاہرے کیے، دھرنے دیے۔ لیکن گستاخوں کے کانوں میں جوں بھی نہیں رینگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان خاکوں کی مذمت میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ صرف عوامی سطح پر ہوتا ہے۔ حکومتی سطح پر کوئی اقدامات اور بائیکاٹ نہیں کیے جاتے۔ یہ ضرور ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں مذمتی قرار دادیں جمع کروائی جاتی ہیں جوکہ قابلِ تحسین ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کی حیثیت محض عارضی طور پر دل کو بہلانے اور عوام کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی ہوتی ہے۔ کچھ دنوں تک معاملہ زیرِ بحث رہتا ہے۔ پھر سب ٹھنڈے پڑجاتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2