شہباز شریف یا مریم نواز؟ ن لیگ کا گرم محاذ

عاصمہ شیرازی - صحافی


پاکستان میں اپوزیشن کی جماعت مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کا ایک حالیہ انٹرویو محض انٹرویو نہیں تھا بلکہ کئی ماہ سے جاری اندرونی لڑائی کا حتمی پیغام تھا۔

’بہت ہو گیا‘ اب اور نہیں۔۔ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ن لیگ میں کون کہاں کھڑا ہے؟ اقتدار کے لیے سیاست ہے یا پھر صرف مزاحمت؟ شہباز شریف کا مفاہمت کرنے اور مزاحمت نہ کرنے کے طعنوں کا جواب تلخ تھا۔

شکوہ زبان پر تھا کہ جیلیں اُنھوں نے بھی بھگتیں ہیں اور آج بھی بھگت رہے ہیں مگر چند غلط فیصلوں نے سنہ 2018 کے انتخابات گنوا دیے، ورنہ وزیراعظم چوتھی بار بھی نواز شریف ہی ہوتے۔

غلط فیصلے کس کے تھے اور تنہا نواز شریف ہی اُن غلط فیصلوں کا بوجھ اُٹھا رہے ہیں یا جماعت کہیں اور تھی؟ بہرحال شریف خاندان میں بیانیے کے پس منظر میں جانشینی کی جنگ حتمی مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔

ایسے وقت میں جب تحریک انصاف باقی پاکستان ’فتح‘ کرنے کے بعد سندھ کی جانب رُخ کر چکی ہے اور پیپلز پارٹی پنجاب خاص کر کے جنوبی پنجاب اور کراچی کو عام انتخابات سے قبل اپنی توجہ کا مرکز گردان چکی ہے۔ جہانگیر ترین گروپ سے لے کر حلقوں کی سیاست کی جوڑ توڑ پر ہوم ورک میں مصروف ہے۔ ایسے وقت میں ن لیگ میں اختلاف انتشار میں بدل رہا ہے۔

مریم نواز سیاست میں ایک حقیقت بن چُکی ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف کے سیاسی بیانیے کی جانشین بھی ہیں مگر کیا عام انتخابات محض بیانیے اور شعلہ بیاں تقریروں سے جیتے جا سکتے ہیں۔

لیگ میں یہ بحث شد و مد سے جاری ہے کہ مریم نواز کی تنہا شعلہ بیانی انتخابی معرکوں کو کامیابیوں میں بدل نہیں سکی جس کا اشارہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور سیالکوٹ ضمنی انتخابات میں کھل کر سامنے آ گیا۔

آخر کیا وجہ ہے کہ محض تین ماہ قبل ڈسکہ ضمنی انتخاب میں میدان مارنے والی پاکستان مسلم لیگ کشمیر اور سیالکوٹ کے ضمنی انتخاب ہار گئی۔

شہباز شریف کی غیر موجودگی میں ن لیگ کی ان دیکھی کمان بہرحال مریم نواز کے ہاتھوں میں تھی۔ اس دورانیے میں مریم نواز شریف کی سیاست میں واپسی کے لیے ’مذاکرات‘ بھی جاری رہے تاہم بعض وجوہات کی بنا پر یہ مذاکرات یا ڈیل کسی سرے نہ چڑھ سکی اور یوں ن میں ’م‘ اور ’ش‘ بظاہر مزاحمت اور مفاہمت میں اختلاف کی صورت منظر عام پر آئیں۔

غلطی کہاں ہوئی اور کس سے ہوئی؟

ایسے وقت میں جب پی ڈی ایم کی سیاسی قوت اپنا زور دکھا رہی تھی، سینیٹ انتخابات میں کامیابیاں سمیٹ رہی تھی اور پہلی بار تحریک انصاف حکومت پریشان دکھائی دے رہی تھی، مولانا اور ن لیگ کی جانب سے پیپلز پارٹی سے استعفوں کا مطالبہ سامنے آیا۔۔۔

بدلے میں زرداری صاحب نے میاں صاحب سے واپس آ کر ’انقلاب‘ کی رہنمائی کا مطالبہ کر دیا اور پھر مریم نواز کے پی پی مخالف ٹویٹس اور بیانات بھی اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر آج پی ڈی ایم زندہ ہوتی تو حالات مختلف ہوتے تاہم یہ الزام اب کس کے سر رکھا جائے یہ بے معنی ہو گا۔

سچ تو یہ ہے کہ اپوزیشن اور خصوصاً ن لیگ نے جانے انجانے، ڈیل بغیر ڈیل ایک اہم موقع گنوا دیا۔ اب ن لیگ کے مسائل تصوف گھمبیر ہو چکے ہیں۔ کشمیر انتخابات میں مریم نواز پر ’ناکامی‘ کا الزام اور پھر جماعت کے اندر ان کی بڑھتی ہوئی مداخلت ’انکلز‘ کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔

بیانیے کے طریقہ کار کو بدلنے کے بارے میں منتخب ہونے والے اور عملی سیاست کرنے والے اراکین اسمبلی کی رائے الگ جبکہ چند سینیئرز کی رائے مختلف ہے۔

انتخابی سیاست میں عملی حصہ لینے والے سمجھتے ہیں کہ ’محض مزاحمت‘ نہ تو انتخابات میں کامیابی دلا سکتی ہے اور نہ ہی مقتدر حلقوں کی آشیر باد کے لیے ہر حد تک ’کمپرومائز‘ کرنا ممکن ہو گا۔

ایسے میں ن لیگ کی سیاست ایک دوراہے پر کھڑی ہے۔

سیالکوٹ اور کشمیر انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کا اخلاقی گراف بہت اونچا ہے، مقتدر حلقوں کی مدد اپنی جگہ موجود، حکومت اب بھی ایک صفحے کی ہے جبکہ اختلافات کی ہلکی پھلکی موسیقی محض دل لبھانے کے لیے ہے۔

اس صورتحال میں اپوزیشن جماعتوں میں محض پیپلز پارٹی ہی واضح ایجنڈے کے ساتھ آگے بڑھتی دکھائی دے رہی ہے جبکہ ن لیگ میں اختلافات انتشار کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

میاں نواز شریف کو اس موقع پر مداخلت کرنا ہو گی جس کے امکانات تاحال نہ ہونے کے برابر ہیں۔

کیا شہباز شریف میڈیا کے توسط سے اپنے خدشات اور گذارشات پیش کرتے رہیں گے یا جماعت کے اندر ایک صحت مندانہ مذاکراتی عمل بھی شروع کر سکتے ہیں؟

میاں نواز شریف کے لیے وہ وقت دور نہیں جب اُنھیں یہ فیصلہ کرنا پڑے کہ ن لیگ کا واضح ایجنڈا کیا ہے۔ شہباز شریف کے انٹرویو کے بعد نواز شریف کے سماجی ویب سائٹ پر جذبات اس بات کے غماز ہیں کہ بیانیہ نہیں بدلے گا۔

میاں نواز شریف کو یہ بھی فیصلہ کرنا ہو گا کہ اُن کے بھائی کی موجودگی میں پاکستان میں سیاسی فیصلے کون کرے گا۔ کیا وہ اس معاملے میں باپ بن کر سوچیں گے، ایک بھائی یا ایک قائد؟

جماعت کے اختلافات کو ختم کرنے کے لیے نواز شریف صاحب کو وطن واپس آنا پڑ سکتا ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو بیانیہ اور جماعت دونوں بہتر نتائج دے سکتے ہیں۔

اور اگر نہیں تو عام انتخابات سے قبل جماعت مزید بحران اور تقسیم کی شکار ہو گی۔

شہباز یا مریم نواز۔۔۔ فیصلہ نواز شریف کو جلد کرنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).