شریف برادران سہل طلب ہیں، فرہاد نہیں


مسلم لیگ نون کے صدر میاں شہباز شریف نے سلیم صافی کو دیے گئے انٹرویو میں فرمایا ہے کہ اگر ان کی جماعت دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں درست حکمت عملی اختیار کرتی تو میاں نواز شریف چوتھی مرتبہ بھی وزیراعظم منتخب ہو سکتے تھے۔ اس کے بعد بہت سے دوست حیران ہیں کہ نون لیگ کے اس بیانیے کا کہ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات چوری ہوئے ہیں اور نواز شریف کی نا اہلی کی سزا کسی سازش کا نتیجہ تھی، اور ووٹ کو عزت دلانے کے مطالبے کا مستقبل کیا ہو گا؟

ان کی حیرانی بجا ہے کیونکہ شہباز شریف کے اس بیان کا مطلب یہ ہے کہ وہ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں ناکامی کا سبب کسی اور کو قرار دینے کے بجائے شکست کی ذمہ داری اپنی ہی جماعت پر عائد کرنے کے ساتھ برملا اپنی غلطی کے اعتراف کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں لیکن شہباز شریف کے اس بیان میں حیرانی کی کوئی بات نہیں۔ میری یہ سوچ روز بروز پختہ ہوتی جا رہی ہے کہ میاں برادران کے نظریات میں فرق کسی حد تک ضرور ہے مگر دونوں بھائی درون خانہ ایک ہی ہیں اور یہ پلاننگ کے ساتھ گڈ کاپ بیڈ کاپ کھیلتے ہیں۔ مسلم لیگ نون کی جو بھی پالیسی ہوتی ہے وہ دونوں بھائیوں کی باہم مشاورت سے طے ہوتی ہے اور یہ بد سے بد ترین حالات میں بھی اسی وجہ سے سروائیو کر جاتے ہیں۔

مسلم لیگ نون پر سب سے کڑا وقت اس وقت آیا جب ملٹری ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے ٹیک اوور کیا تھا۔ اس وقت بہت سے پرانے مسلم لیگی شریف برادران کو چھوڑ کر جنرل مشرف کی کنگز پارٹی ق لیگ میں شامل ہو گئے تھے۔ جنرل مشرف نے دونوں بھائیوں کو اٹک قلعے اور بعد ازاں لانڈھی جیل میں قید رکھا ہوا اور ملک میں کوئی بھی مسلم لیگ نون کا نام لیوا موجود نہیں تھا۔ ہر کسی کا خیال تھا کہ شریف برادران کا سیاسی مستقبل بالکل تاریک ہے۔

ان بدترین حالات میں بھی مگر دونوں بھائی جنرل مشرف کے چنگل سے نکل کر سعودی عرب پہنچ گئے۔ جس کے بعد دوبارہ میاں نواز شریف وزیراعظم منتخب ہونے میں کامیاب ہو گئے لیکن ایک مرتبہ پھر وہ اپنی آئینی مدت مکمل کرنے سے قبل ہی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی بدولت نہ صرف اس منصب سے محروم ہوئے بلکہ دوبارہ زنداں جا پہنچے۔ اس سزا کے بعد میاں نواز شریف کی جانب سے ووٹ کو عزت دو کی تحریک چلائی گئی جس کے بعد لوگوں کو توقع تھی کہ شاید اب وہ واقعتاً نظریاتی سیاست کریں گے اور عوامی بالادستی کی خاطر قربانی دیں گے۔

قید میں ہی لیکن میاں صاحب کی طبیعت انتہائی ناساز ہو گئی جس کے بعد انہیں طبی بنیادوں پر ضمانت مل گئی اور وہ لندن سدھار گئے۔ مشرف دور میں ہونے والی ڈیل میں گڈ کاپ اور بیڈ کاپ کی حکمت عملی کو کتنا دخل تھا اس کی خبر نہیں لیکن اب کی بار قید سے نکال کر نواز شریف کو لندن پہنچانے میں چھوٹے بھائی کی کوششیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

شہباز شریف تو مفاہمت کی بات کر کے خوامخواہ بدنام ہو رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف بھی اقتدار کی سیاست نہیں چھوڑ سکتے ورنہ وہ کبھی باہر جاکر نہ بیٹھتے۔ یہ الگ بات ہے کہ انہیں انقلابی بننے کا بہت شوق ہے اسی لیے وہ ہر بار کوئی نہ کوئی غلطی کر کے اقتدار سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اب بھی وہ باہر بیٹھ کر وقتاً فوقتاً جارحانہ بیانات شاید اس لیے دے رہے ہیں کیونکہ ان کی سسٹم میں کوئی جگہ نہیں بن رہی۔ ورنہ میاں نواز شریف کی انقلابی سوچ کی قلعی اس دن ہی کھل گئی تھی جب خواجہ آصف نے یہ بیان دیا تھا کہ سروسز ایکٹ میں ترمیم کے لیے نون لیگی ارکان اسمبلی نے میاں صاحب کے کہنے پر ووٹ دیا تھا۔

اچھے وقتوں کا انتظار اگر صرف شہباز شریف ہی کر رہے ہیں تو ضمانت ملنے کے بعد لندن پہنچتے ہی میاں نواز شریف اور ان کی دختر مریم نواز نے کئی ماہ تک خاموشی اختیار کیوں کر رکھی تھی؟ نواز شریف کی حمایت صرف ان کے اندھے مقلدین نے ہی نہیں کی تھی۔ بہت سے ایسے لوگ بھی ان کے ہمراہ تھے جن کا مفاد محض عوامی بالادستی اور حقیقی جمہوریت کا قیام تھا۔ جیل کوئی کالے پانی کی سزا تو نہیں تھی جس سے فرار کے لیے نہ صرف میاں صاحب نے اپنی جگ ہنسائی کرائی بلکہ چاہنے والوں کو مخالفین کے روبرو رسوا کیا۔ وہ کب سمجھیں گے کہ انقلاب کے سفر میں پھولوں کی سیج پر بیٹھنے کا نہیں، خاردار اور سنگلاخ رہگزر پر سفر کا نام ہے۔ سہل طلب کو فرہاد ہونے کا دعوی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

میاں صاحب واقعتاً جمہوریت پسند ہو چکے ہیں تو وہ کیوں اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ سیاسی جماعتیں کسی کی میراث نہیں ہوتیں۔ جب وہ دیکھ رہے ہیں کہ مزاحمتی سیاست ان کے برادر خورد کے بس کا روگ نہیں تو پھر وہ خاندان کے علاوہ کسی ہاتھ میں اختیار کیوں نہیں دے دیتے۔ مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ بھی اپنی قیادت کے اس رویے پر نجی محفلوں میں نالاں رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایسے ہی ایک رہنما سے میری بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا، ”شاہد خاقان عباسی نے اپنی وزارت عظمی کے دور میں دباؤ کا بے مثال مقابلہ کیا اور قیادت سے لا زوال وفاداری دکھائی۔ لیکن انتخابات کے بعد عہدوں کی بانٹ کا مرحلہ آیا تو میاں صاحب نے مرکز اور پنجاب میں اہم عہدے اپنے بھائی کی فیملی میں بانٹ دیے، یہ جانتے ہوئے کہ اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونا ان کے بس کی بات نہیں“ ۔ نون لیگ کے بہت سے ایسے رہنما جو عقاب سمجھے جاتے تھے مگر اب نیب کیسز کے بعد وہ بکری بنے بیٹھے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کی سوچ اور خیال میں لیکن نیب کی قید بھی کوئی تبدیلی نہیں لا سکی۔ شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کی پالیسی پر اگر عملدرآمد نہیں کر سکتے تو ان کی جگہ پارٹی صدارت شاہد خاقان عباسی یا کسی اور ایسے شخص کے جو مزاحمتی بیانیے پر مکمل یقین رکھتا ہو سپرد کرنے میں کیا امر مانع ہے؟

باقی جہاں تک انتخابات میں شکست کی بات ہے یہ غلط حکمت عملی کے سبب نہیں بلکہ دوغلی پالیسی اور بیانیے میں یکسوئی نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔ یہ دوغلی سیاست زیادہ عرصہ نہیں چلے گی نون لیگ کو طے کرنا ہوگا کہ اس کا اصل بیانیہ کیا ہے۔ اس طرح کامیابی نہیں مل سکتی کہ مطالبہ تو عوامی بالادستی اور حقیقی جمہوریت کے قیام کا کیا جائے مگر قیادت میں قربانی دینے کا حوصلہ نہ ہو۔ یہ حوصلہ اگر نہیں ہے اور نون لیگ اقتدار کی سیاست ہی کرنا چاہتی ہے تو انقلابی باتیں چھوڑ کر اقتدار کے حصول کے ستر سال سے رائج راستے پر جماعت چلتی رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments