ہردل عزیز جنرل صاحب نے ہمیں اولمپکس جیسی عظیم کوفت سے بچا لیا


بھلا ہو ہر دل عزیز جنرل (ر) سید عارف حسن صاحب کا جنہوں نے ہمیں اولمپکس جیسی عظیم کوفت سے بچا رکھا ہے۔ بھلا اتنے بڑے ایونٹ میں کرکٹ کا کھیل ہی نہ ہو اور ہم کرکٹ کے جیالوں کو رات بھر ٹی وی سکرینوں پر چھوٹے موٹے کھیل دیکھنے کے لیے جاگنا پڑے؟ لا حول ولا قوۃ۔

یوں تو مملکت خدا داد کے تقریباً تمام محکموں کو ریٹائرڈ فوجی افسران نے اپنی عظیم پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے جلا بخشی ہوئی ہے، اور آخر ایسا کیوں نہ ہو؟ سننے میں آیا ہے لمز اور آئی۔ بی۔ اے آج بھی پاکستان کے مینجمینٹ سکولز میں دوسرے نمر پر ہیں۔ بقول ایک انتہائی حب الوطن شاعر، منیجمنٹ کے معاملے میں ”دما دم مست قلندر، پی۔ ایم۔ اے دا پہلا نمبر“ ۔

یہ ریٹائر فوجی افسران نہ صرف انتہائی باصلاحیت ہوتے ہیں بلکہ کچھ ایسی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں جو انہیں ہر فن مولا بنا دیتی ہیں۔ ہر ادارے اور محکمے کو سنبھالنے کی قابلیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ سویلین نااہل ہیں جس کی بنا پر ان فرشتہ صفت ریٹائر افسران کو مجبوراً معاملات سنبھالنے پڑتے ہیں۔ سینہ تان کر یہ کہنا تو بنتا ہی ہے کہ ”وہ فرض بھی نبھائے جو واجب بھی نہیں تھے“ ۔

ہاں تو بات یہ ہونی تھی کہ صادق و امین وزیر اعظم محترم عمران خان صاحب کے الیکشن سے پہلے والے سہانے خواب کے بقول نوکریوں کا ایک سیلاب پاکستان میں امڈ آنے والا تھا۔ آج عوام کے حالات تو سامنے ہیں مگر ہو نہ ہو، کچھ ریٹائر افسران اس وعدے سے ضرور مستفید ہوئے۔ لیکن اولمپکس کی تو کیا ہی بات ہے۔ جنرل صاحب نے کوئی آج کل میں تو اولمپکس کا مورچہ سنبھالا نہیں ہے، سترہ سال سے ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ اور کوئی خاطر خواہ کامیابی ملی ہو یا نہ ہو، قوم پر اتنا احسان عظیم ضرور کیا ہے کہ اسے اولمپکس پر وقت برباد کرنے سے بچا لیا۔ خود سوچیں اتنی زیادہ آبادی والا ملک اگر اولمپکس دیکھنے لگ جائے گا تو کام کون کرے گا؟ بلڈی سویلین سوچنے کی صلاحیت تو رکھتے نہیں ہیں، اولمپکس میں ناکامیوں کی اصل منطق کو سمجھے بغیر خواہ مخواہ جنرل صاحب پر مسلسل تنقید کے نشتر برسائے جا رہے ہیں۔

سادہ لوح لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ پاکستانی قوم اور اولمپکس ایک پیج پر ہیں۔ ہم تمام تر توجہ کرکٹ پر مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔ کرکٹ ہماری قوم کو آپس میں جوڑنے کے لیے گوند کا کام کرتا ہے، کبھی کبھار عنایت زیادہ ہو تو لیڈر بھی دے دیتا ہے۔ قومی کھیل ہاکی کا کیا ہے، ”وقت اچھا بھی آئے گا ناصر، غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی“ ۔

اولمپکس میں ناکامی ایسے ہی ہے کہ نہ ڈھولا ہوسی، نہ رولا ہوسی۔ نہ ملک کے باسی اس بین الاقوامی ایونٹ میں دلچسپی لیں، نہ کوئی سوال کرے۔ کیا فرق پڑ جاتا اگر ہم کوئی میڈل جیت لیتے، دنیا میں کوئی نام بناتے، کہیں عالمی میڈیا میں ایک آدھ بار کسی اچھی خبر کا حصہ بھی بن لیتے؟ مگر ہمارے لیے تو ایک کھیل ہی کافی ہے۔ آپ کو مشورہ ہے ”پیوستہ رہ کرکٹ سے، امید اولمپکس رکھ“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments