تحریک انصاف کی حکومت اور انصاف کا جنازہ


یہ پاکستان ہے۔ یہاں کسی کے ساتھ، کسی بھی وقت، کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ساہیوال جیسے واقعات ایک دو نہیں اس وطن عزیز میں سینکڑوں رونما ہوئے ہیں جہاں نہتے شہریوں کو جعلی مقابلوں میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ لیکن اکثر واقعات اس وجہ سے دب گئے کہ مرنے والے دہشت گرد تھے کیونکہ ان کے چہرے پر سنت رسول داڑھی اور سر پر پگڑی یا دستار پہنی ہوتی تھی۔ یوں سی ٹی ڈی یا راؤ انوار جیسے قاتل دعویٰ کرتے تھے کہ پولیس مقابلے میں اتنے دہشت گرد ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ کہ مقابلہ کرنے والی پولیس کو تربیت یافتہ دہشت گردوں کی ایک بھی گولی نہ لگی اور نہ کوئی دہشت گرد کی فائرنگ سے اہلکار زخمی ہوا۔

ساہیوال سی ٹی ڈی پولیس نے مقابلہ کرنے سے پہلے شاید سوچا ہو گا کہ ان نہتے شہریوں کو ان کے معصوم بچوں کے سامنے مار کر وہ اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہو جائیں گے۔ تاہم چال الٹی پڑی۔ ایک تو ساہیوال والے دہشت گرد ثابت نہیں ہوئے دوسری یہ کہ خواتین نے برقعہ بھی نہیں پہنا ہوا تھا تیسرا یہ کہ مقتولین کی نہ داڑھی تھی اور نہ سر پر پگڑی پہنی ہوئی تھی۔ ساہیوال پولیس نے دہشت گرد تو کہ دیا مگر یہ کیسے ثابت کریں کہ وہ کون سے دہشت گرد تھے۔ اس لئے داعش سے ان کو جوڑ دیا گیا۔ مگر بچوں کی تربیت اور ان کی ڈریسنگ سے تو نظر نہیں آتا کہ ان کی تربیت دہشت گرد گھرانے میں ہو رہی ہے۔

بے شرمی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے فوراً میڈیا پر کہ دیا کہ سی ٹی ڈی پولیس نے چار داعش کے دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ کچھ دیر بعد وہی وفاقی وزیر کہ رہا تھا اگر سی ٹی ڈی پولیس والے غلط ثابت ہوئے تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ پنجاب حکومت نے میڈیا پر حقائق آنے کے بعد نوٹس لیتے ہوئے جی آئی ٹی بنائی (جس طرح ہر مرتبہ بنائی جاتی ہے)۔

کچھ نہیں ہوگا۔ نہ جانے گزشتہ 19 سالوں میں سیاسی بنیادوں پر انتقامی کارروائی کے دوران اور ذاتی رنجش سمیت کسی کو سبق سکھانے کے لئے ہماری پولیس اور سی ٹی ڈی پولیس نے کراچی سے کوئٹہ اور پشاور سے ساہیوال تک کتنے بیگناہ نہتے شہریوں کو چند ٹکوں کے عوض زیر زمین پہنچایا ہے۔ اور وہ بیگناہ ہونے کے باوجود قانون کی کتابوں اور پولیس رکارڈ میں دہشت گرد ٹھہرے۔ کچھ سال قبل کوئٹہ میں اخروٹ آباد واقعہ جس میں پولیس نے خواتین سمیت مردوں کو کس طرح بی رحمی سے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔

پاکستان میں قانون ہے مگر اس کا اس طرح ناجائز استعمال کیا جاتا ہے جس کا پوچھنے والا کوئی نہیں۔ ایک سال قبل اسی روز کراچی پولیس کے چیف قاتل جعلی پولیس مقابلوں کے ماسٹر مائنڈ راؤ انوار نے نقیب اللہ محسود کو گرفتار کر کے ایک جعلی مقابلے میں قتل کیا تھا جس کے بعد آج تک پولیس کا کوئی مقابلہ نہیں ہوا ہے جس میں راؤ انوار جیسے واقعات میں کوئی شہری قتل ہوا ہو۔ اسی سی ٹی ڈی پولیس کی وجہ سے شریف النفس شہری بیگناہ جیلوں میں قید ہیں اور دہشت گرد جیسے لعنت کے الزام میں پل پل جی رہے ہیں اور مر رہے ہیں۔

پاکستان میں اگر کوئٹہ کے اخروٹ آباد واقعہ اور کراچی نقیب اللہ محسود جعلی مقابلے کے ماسٹر مائنڈ راؤ انوار کو سزا ملتی تو آج ساہیوال جیسا واقعہ رونما نہ ہوتا۔ مگر کوئٹہ اور کراچی واقعات کی طرح ساہیوال واقعہ کے ملزمان کو بھی کسی نہ کسی شکل میں رلیف مل جائے گا یوں یہ جعلی مقابلوں کا سلسلہ جاری رہے گا اور بے گناہ شہریوں کے جنازے اٹھتے رہیں گے۔ ساہیوال میں جن معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا ہے کیا وہ بڑی ہوکر پرامن معزز شہری بن جائیں گے۔ کیا یہ بچے بڑے ہو کر ڈاکٹر۔ انجنیئر۔ پروفیسر۔ وکیل۔ جج۔ بن سکیں گے۔

نہی نہیں یہ بچے اپنے سامنے والدین کو مرتا ہوا دیکھتے رہیں گے اس انتقام کی آگ میں جلتے رہیں گے۔

یہاں 20 سال پہلے کوئی پنجابی پٹھان سندھی بلوچ دہشت گرد نہیں تھا ہم نے نہ جانے سینکڑوں نہیں ہزاروں خاندانوں کو دہشت گرد ڈکلیئر کر دیا۔ اس خونی کھیل میں ہم مر رہے ہیں اور ہم ہی مار رہے ہیں۔ تحریک انصاف حکومت کے لئے چیلنج ہے کہ وہ ساہیوال واقعہ کے ملزمان کو کس طرح ڈیل کرتی ہے۔ سزا دیتی ہے یا راؤ انوار اور اخروٹ آباد واقعے کی طرح ریلیف دے کر پولیس گردی کو زندہ رکھتی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ انصاف کی تحریک کے نتیجے میں اقتدار تک پہنچنے والی حکومت میں انصاف کا جنازہ اٹھایا گیا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).