کورونا، نینو ایجنٹ اور ماہرین علوم عمرانی


کورونا کی وبا ایک عالمگیر وبا ہے جس کے بارے میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں متعدد خواتین و حضرات اب تک گومگو اور شکوک و شبہات کے عالم میں ہیں۔ لیکن ہمسایہ ملک بھارت، ایران اور باقی دنیا خصوصاً یورپی ممالک سے جس قسم کی افسوس ناک بلکہ خوف ناک اطلاعات سامنے آ رہی ہیں، اس کے بعد لوگوں کی آنکھوں سے شکوک کے پردے تیزی سے ہٹ رہے ہیں اور لوگوں کو یقین ہونے لگا ہے کہ یہ وبا صرف افواہ یا افسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے اور دنیا کے سر پر واقعی ایک بہت بڑا خطرہ بن کر منڈلا رہی ہے۔ اب ہمیں مان لینا چاہیے کہ یہ وبا حقیقی ہے اور واقعتاً متعدی بھی ہے اور اس سے بچنے کے سلسلے میں احتیاطی تدابیر لازم ہیں کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے۔

اور بفرض محال یہ کوئی ”مغربی سازش“ بھی ہے، جسے کہ ہمارے ”ماہرین علوم عمرانی“ اچھی طرح سے سمجھتے بھی ہیں  کہ چند عناصر دنیا بھر کے عوام کو کورونا ویکسین کے بہانے کوئی ”نینو سپائی ایجنٹ“ انجیکٹ کرنا چاہ رہے ہیں تو، یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ، ”آخر ان کو یہ ایجنٹ پاکستان میں استعمال ہونے والی دیگر سینکڑوں قسم کی ادویات، گولیوں اور انجیکشنوں وغیرہ کے ذریعے ہمارے اجسام میں منتقل کرنے میں کیا امر مانع ہے کہ انہیں ایک بین الاقوامی قسم کی سازش تیار کرنی پڑ رہی ہے۔ آخر وطن عزیز میں سردرد کی گولی سے لے کر سرطان کی کیموتھراپی اور ہر قسم کی طاقت اور کمزوری کی دوائیں عام طور پر مغرب سے ہی درآمد کی جا رہی ہیں۔

اور تو اور اب تو پانی اور دودھ بھی اگر آپ درآمد نہیں کر رہے ہیں تو بھی یہ غیر ملکی ‏مغربی کمپنیاں ہی پروسیس اور پیک کر کے آپ تک پہنچا رہی ہیں۔ سو اگر وہ چاہیں تو آپ کو کیا کچھ نہیں کھلا پلا سکتے؟

اس قسم کے سازشی نظریات اور خیالات، افواہیں اور افسانے ہمارے لیے کوئی نئے بھی نہیں ہیں۔ ہمیں اچھی طرح سے یاد ہے کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پکی پکائی تازہ روٹی کا ایک سلسلہ جاری کیا گیا تھا جو کہ ہمیں ہی نہیں کتنے ہی لوگوں کو پسند تھی اور ہم نے کئی کئی بار بہ رغبت اسے نوش جان کیا تھا۔ اس روٹی کے بارے میں بھی اس قسم کی افواہیں پھیلائی گئیں تھیں کہ یہ ’خلاف مردانگی’ ہیں۔ اور آخر کار یہ روٹیاں بند ہو گئیں۔ لیکن ان روٹیوں کے کھانے والوں سے بھی مزید روٹیاں کھانے والے اور ان کی پیداوار برقرار رہی۔ الحمد للہ پاکستان کی آبادی میں دن سو گنی رات دو سو گنی ترقی دیکھ کر کون کہے گا کہ وطن عزیز میں اس قسم کا بھی کوئی مرض بھی ہے؟

ایک بھارتی ٹی وی شو میں ایک خاتون سے ایک صاحب پوچھتے ہیں کہ انڈیا کی سب سے بڑی پروڈکشن کیا ہے تو وہ جواب دیتی ہیں، ”انڈینز۔“ تو یقین کیجیے اسی طرح پاکستان کی سب سے بڑی پروڈکشن آج بھی ’پاکستانی` ہی ہیں۔ اگر کوئی صاحب پاکستانی کہلانے پر تحفظات رکھتے ہیں تو ناراض نہ ہوں ، وہ خود کو سب پروڈکٹس کے طور پر سندھی یا پنجابی وغیرہ بھی کہہ سکتے ہیں!

البتہ ہمارے چھوٹے بڑے شہروں کی دیواروں پر لکھے کچھ ”حکمت آمیز“ اشتہارات کی بناء پر اس قسم کی غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے کہ وطن عزیز میں حضرات کی دو ہی کمزوریاں ہیں ۔ ایک عورت اور دوسری مردانہ! لیکن دیوار پر یہ بھی تو لکھا ہوتا ہے کہ ”یہاں پیشاب کرنا منع ہے“ اور اسی دیوار کے زیرسایہ زمیں پر کچھ اور ”نقش“ بھی بنے ہوتے ہیں۔ جن کے بارے میں آپ کوئی ”فریاد“ بھی نہیں کر سکتے۔ البتہ یہ آپ کی مرضی ہے کہ اس دیوار کے تلے آپ قہقہہ لگائیں یا گریہ کریں!

ہمیں یاد ہے کہ ایک بار کوچ کی کھڑکی سے ایک صاحب کو ایک مشہور تاریخی تعلیمی ادارے کی دیوار کے تلے پیشاب کرتے دیکھ کر ایک ساتھی مسافر نے ہماری توجہ مبذول کرائی تو ہمارے ذہن و دہن سے بے ساختہ نکلا تھا: ”یہ صاحب تعلیم کی آبیاری کر رہے ہیں!“

اسی طرح پولیو سے بچاؤ کے قطرات کے بارے میں بھی مختلف قسم کے خدشات و خطرات کا ذکر کیا جاتا رہا ہے۔ جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے یہ مہم اب ہماری دوسری نسل تک آ پہنچی ہے۔ لیکن دیکھیں تو وہ پہلی نسل جس نے یہ قطرات پیے تھے، بے چاری آج بھی خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق اداروں و دفاتر کے چکر لگانے پر مجبور ہے۔ اور ہر قسم کی منصوبہ بندی کے باوجود اگر پیداوار یا آبادی میں اضافہ کی بات کریں تو، اور تو اور کتنوں کی تو ”منسوبہ بندی“ کے لیے بھی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔

اسی طرح اگرچہ موسم کی تبدیلیوں اور طبیعی حالات پر کنٹرول کے سلسلے میں بھی دنیا بھر میں تجربات و مشاہدات کا سلسلہ جاری ہے۔ اردو میں مظہر کلیم صاحب کے اور انگریزی میں سڈنی شیلڈن صاحب کے بھی ہمارے مطالعہ شدہ کم از کم ایک ایک ناول میں ایسی ٹیکنالوجی کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ جن کی مدد سے برسات، سیلاب اور دیگر موسمی تبدیلیاں برپا کی جا سکتی ہیں۔ لیکن حقیقی طور پر فی الوقت نہ تو سائنس دان مصنوعی برسات پر باقاعدہ کنٹرول کر سکے ہیں، نہ ہی دیگر طبیعی حالات پر۔

(اس کے برعکس موسم اور ماحول ہیں کہ ہاتھ سے نکلے چلے جا رہے ہیں ) یہاں تک کہ اب تک زلزلہ کی بھی باقاعدہ پیشن گوئی ممکن نہیں ہو سکی ہے لیکن دنیا بھر میں آئے کئی زلزلوں اور سیلابوں کے بارے میں بھی اس قسم کی سازشی نظریات کی بات کی جا چکی ہے کہ فلاں زلزلہ کا ذمہ دار فلاں ملک ہے اور فلاں ملک میں فلاں آسمانی آفت فلاں کی سازش کا نتیجہ ہے وغیرہ۔

تو ابھی تک اس قسم کی سازشوں کا بھی کوئی سراغ یا ثبوت کسی کو کہیں نہیں ملا۔ لیکن سازشی نظریات موجود ہیں۔

بہرحال مندرجہ بالا توجیہات و توضیحات کے باوجود مذکورہ بالا تمام تر خطرات و خدشات خارج از امکان بھی نہیں ہیں لیکن ان کا تعین اور تدارک محض نعرے بازی اور دشمن کی سازش جیسے دعوے تو ہرگز نہیں ہو سکتے۔ ان کے مقابلے کے لیے ضرورت تعلیم کے فروغ کی اور شعور کے عموم کی ہے۔ یہ کام دعاؤں اور درخواستوں کے ساتھ ساتھ علمی و عملی اقدام کا بھی متقاضی ہے۔ اور اگر آپ اس کے لیے مزید ستر پچہتر سال لگانا چاہتے ہیں تو معاف کیجیے گا اتنا وقت اب آپ کو کوئی نہیں دے گا۔

یہ کام آپ کو اور ہم کو سب کو مل کر ہنگامی اور جنگی بنیادوں پر کرنا ہو گا اور اس کے لیے سب سے پہلے افراد اور اداروں کو اپنی تمام لڑائیاں ایک طرف رکھنی ہوں گی ۔ ہر ہر فرد و ادارے کو ایک دوسرے کا احترام کرنا ہو گا۔ اپنے فرائض کا ادراک اور دوسروں کے حقوق کا احساس کرنا ہو گا۔ اختیارات کے ساتھ ذمہ داریوں کا بھی تعین اور ان کے نبھانے کا تہیہ کرنا ہو گا۔ ورنہ وطن عزیز میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں سندھی میں ایک عام سا لطیفہ ہے، جو کہ سندھ کے ماضی کے خوشحالی کا گواہ بھی ہے، کہ ہمارے فقیر بھی سواریاں رکھتے تھے۔ لطیفہ یوں ہے کہ ”ایک گھڑسوار بھکاری سے کسی نے کہا کہ :“ فقیر تیری گھوڑی تو منحوس ہے۔”

تو اس نے جواب دیا: ”بھائی بھیک تو پہلے ہی مانگ رہا ہوں ، اس کی نحوست میرا مزید کیا بگاڑ  لے گی۔“

الحمدللہ پاکستان اس وقت بڑی حد تک اس خطرناک وبا سے محفوظ ہے، اگرچہ گاہے بگاہے کچھ بری خبریں بھی سنائی دیتی ہیں لیکن مجموعی طور وطن عزیز میں کسی نہ کسی حد تک سب اچھا ہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ حکومت اور حکام سے زیادہ اس حکیم کی حکمت و کرم نوازی ہے جو کہ عرش بریں پر ہم ”اہل پاک سرزمیں“ پر مہرباں ہے۔ عوامی انداز سے کہیں تو یوں کہیں کہ:

انجن کی خوبی نہ ڈرائیور کا کمال
خدا کے سہارے چلی جا رہی ہے

ہم نے اپنے تحریر کے آغاز میں جن ماہرین عمرانیات کا ذکر کیا ہے ، کیا ان ماہرین کے بس میں وعدوں، دعوؤں، دعاؤں اور درخواستوں کے علاہ بھی کچھ ہے؟ نہیں ناں!

تو بھول جائیے ان کی لن ترانیاں اور اگلے اعلان و اطلاع تک صرف اور صرف احتیاط کیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments