سلوٹیں


نرملا کی دلہن بننے کے بعد پہلی ہی صبح تھی کہ وہ بستر کی سلوٹوں کو ٹٹول رہی تھی۔ بوڑھا وکیل ( گھوڑے بیچ کے سویا تھا ) جس نے نرملا کو کنواری ہی رہنے دیا۔ نرملا کے چہرے پر ایک دائمی اداسی نمایاں تھی۔ اس کے خواب چکنا چور ہو چکے تھے۔ نرملا 40 سال کی ایک بھری ہوئی عورت تھی لیکن اس کی نفسانی امنگوں کا خون کرنے کے لیے اسے 60 سال کے وکیل کے سپرد کر دیا گیا تھا۔ وہ ایک اسکول ٹیچر تھی اور ساری زندگی گھر والوں کا پیٹ پالتی رہی۔

شادی سے پہلے اس نے کبھی اپنی خواہشات کو گھر والوں کے سامنے بیان نہیں کیا تھا۔ وہ اعلی تعلیم یافتہ عورت تھی اور اپنی خواہشات کا گھر والوں کے سامنے بیان کرنا وہ گھر والوں کی طرف سے دی گئی آزادی کا خون سمجھتی تھی۔ خاندان کی کفالت کرتے کرتے اس کا جسم ڈھل چکا تھا۔ اس کی گردن اور چہرے پر جھریاں نمایاں ہو چکی تھیں۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقوں نے اسے وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا تھا اور آنکھوں کی ساری چمک گل ہو گئی تھی۔ ہونٹ مرجھا چکے تھے۔ اسے ایک نظر دیکھنے کے بعد ایسے لگتا جیسے کسی دکان میں کوئی سامان نہایت بے ترتیبی سے رکھ دیا گیا ہو۔

وہ پڑھی لکھی ہونے کے باوجود مادیت پرست تھی۔ روپے پیسے کی ہوس نے اسے بوکھلاہٹ کا شکار کر رکھا تھا۔ وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتی یہاں تک کے اس نے شنکر کو بھی محض اس لیے چھوڑ دیا تھا کہ وہ ایک متوسط گھرانے سے تھا۔

نرملا یہ سمجھتی کہ ہر ایک چیز، خوشی، اور ضرورت روپے پیسے سے خریدی جا سکتی ہے لیکن آج وہ روپے پیسے کی بہتات ہونے کے باوجود وہ خوشی خریدنے سے قاصر تھی جو اسے بوڑھے وکیل سے نہیں مل پائی تھی۔

اسے اپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھا کہ اس نے ایک اعلی تعلیم یافتہ، خوبصورت، کڑیل نوجوان (شنکر) کو چھوڑ کر خود کو ایک بوڑھے وکیل اور بزنس مین کے سپرد کر کے اپنی بنیادی، نفسانی خواہشات کا گلا اپنے ہاتھوں سے دبا دیا ہے۔

بستر کی سلوٹیں اس کا منہ چڑا رہی تھیں۔ اسے لالچی اور مادیت پرست ہونے کا طعنہ دے رہی تھیں۔ اس کی ویران آنکھیں، بھربھرے ہونٹ، چوڑی ناک، بیضوی چہرہ، موٹی انگلیوں کی پوریں، گوشت سے بھری کلائیاں، دودھ اور مکھن سے پالی ہوئی پنڈلیاں اور رانیں چیخ چیخ کے اس سے اپنا حق مانگ رہی تھیں۔

وہ اس بات سے واقف ہو چکی تھی کہ وکیل صاحب اس کے سارے حقوق پورے نہیں کر سکیں گے کیوں کہ وہ بدن کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی پھسل جاتے۔ شاید اس کو اس بات کا بھی ادراک ہو چکا تھا کہ بدن کی ضروریات پوری نہ ہوں تو ذہن بھی مفلوج ہو جاتے ہیں۔ جب ذہن مفلوج ہو جائیں تو انسان ہیجان پرور ہو جاتا ہے۔ وہ ہر رات سوتی اور بغیر کوئی خواب دیکھے اٹھ جاتی، بلکہ سوتی ہی کہاں تھی وہ ساری رات تڑپتی، بستر کی سلوٹوں سے لڑتی اور الجھتی، اس کے لاشعور کی تہوں سے اس کا ماضی ابل ابل کے چھلکنے لگ گیا، وہ جو وقت اس نے شنکر کے ساتھ گزارا وہ وقت اسے دنیا کی ہر ایک چیز سے قیمتی اور نایاب لگنے لگا۔

اسے پیٹ بھرنے کے لیے اچھی خوراک دستیاب تھی، سونے کے لیے اچھا بستر بھی موجود تھا، رہنے کے لیے ایک مضبوط چھت تو اس کے پاس تھی لیکن اس کی ریزہ ریزہ ہو کر اوپر کو اڑتی خواہشات کو روکنے کے لیے کوئی وجود سالم موجود نہیں تھا۔ وہ دن بدن کمزور ہو رہی تھی۔ چڑچڑا پن اس میں سرایت کرتا جا رہا تھا۔ وہ بوڑھے وکیل کی نہ رکنے والی کھانسی سے عاجز آ چکی تھی۔ اس کی امنگوں کو بیچ رستے میں چھوڑ کر فرار ہوتا ہوا وہ بوڑھا وکیل اسے ایک آنکھ نہ بھاتا۔

اس نے فیصلہ کیا وہ اب مزید ایک بھی دن اس کے ساتھ نہیں رہے گی۔ سامان پیک کیا اور ڈھلتی رات میں وہ شنکر کے دروازے پر پہنچ گئی۔ شنکر کے سنسان گھر میں داخل ہو کر اس نے دیکھا کہ ہر ایک چیز الٹی سیدھی اور بکھری پڑی ہے لیکن شنکر وہاں موجود نہیں تھا۔ اس نے دیوار پہ لٹکتی اپنی تصویر کو بغور دیکھا تو حیران ہوئی کہ اس کی آنکھیں غائب ہیں۔ باہر گلی سے کچھ نامانوس آوازیں اس کے کانوں میں پڑ رہی تھیں کہ شنکر اچھا انسان تھا، کسی نے بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ پاگل ہو جائے گا اور پاگل خانے داخل کر دیا جائے گا۔ وہ پاگل خانے میں Schizophrenia وارڈ کے باہر کھڑی تھی اور شنکر نے اسے پہچاننے سے انکار کر دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments