سوال تو بجا ہے!


ملک اس وقت کورونا کی چوتھی لہر کی زد میں ہیں۔ حکومت کی جانب سے اس وائرس سے بچاؤ کے لیے روز بروز نت نئے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ نہ صرف اقدامات کیے جا رہیں بلکہ سختی کی جا رہی ہے۔ اس وقت سارا زور ویکسینیشن پر ہے۔ ویکسینیشن نہ کروانے پر مختلف پابندیاں عائد کی جانے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ ملازمین کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی، ریل اور ہوائی سفر کی پابندی، سیاحتی مقامات پر داخلہ بند، سرکاری اسپتالوں میں او پی ڈی بند، موبائل سم بند کر نے کی دھمکی، شناختی کارڈ بلاک کرنے کی دھمکی وغیرہ وغیرہ۔

الغرض ہر حربہ اختیار کر کے عوام کے روزمرہ معاملات میں بے جا سختی اور رکاوٹیں کھڑی کر کے عوام کو ویکسین لگوانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اس سختی پر لوگ انتہائی تشویش میں مبتلا ہیں کہ اس وبا پر ویکسینیشن کی اتنی سختی کیوں؟ حکومت کی جانب سے اس پر اتنا خرچہ کیوں؟ اگر صرف لوگوں کو مرنے سے بچانا ہے تو موت کے دیگر اسباب پر نظر کیوں نہیں کی جاتی۔ اگر تھوڑا بیماریوں سے ہٹ کر جائزہ لیں تو آج کل غربت جو کہ موت کی ایک بہت بڑی وجہ بنی ہوئی ہے، لوگ فاقہ کشی سے تنگ آ کر خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔

اسی طرح دہشتگردی، قتل و غارت گری اور ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے کئی اموات واقع ہوجاتی ہیں۔ یہاں عوام کی جانوں کا تحفظ کیوں یاد نہیں آتا؟ نیز یہاں تو ایسے بہت سے کام ہیں جو حکومت کے ذمہ ہیں، مگر حکومت کوئی ذمہ داری نہیں دکھا رہی۔ اگر صرف شہر کراچی کی ہی بات کر لیں تو پورے شہر میں غلاظت، گندگی اور کچرے کے ڈھیر۔ مہلک جانوروں کی پیدائش اور ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ملیریا جیسی مختلف بیماریوں کا پھیلنا اموات کا باعث بنتا ہے۔

مگر اس معاملہ میں حکومت کا کیا کردار ہے؟ سوائے محدود وسائل کے رونے دھونے کے کچھ نہیں۔ اسی طرح ایسی کئی بیماریاں ہیں جن سے سالانہ اموات کی شرح ناقابل یقین ہے، مگر ان بیماریوں سے حفاظت کے لیے کوئی اقدامات نہیں ہیں۔ اگر مختلف بیماریوں کا جائزہ لیا جائے تو تھیلیسیما سے متاثرہ افراد کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے، مگر ان کے لیے حکومتی اقدامات نہیں ہیں۔ ان کے علاج کے لیے محدود وسائل کا رونا رویا جاتا ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں اس کے یونٹس ناپید ہیں۔

ان کے علاج کے لیے فلاحی تنظیمیں خدمت انسانیت کے جذبہ کے تحت خون کے عطیات جمع کر کے ان کے علاج معالجہ کا بندوبست کرتی ہیں مگر حکومتی سطح پر کچھ نہیں ہوتا۔ یہاں بھی یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کورونا کی ویکسین پر اربوں ڈالر کا خرچہ اور تھیلیسیمیا سے متاثرہ افراد اور بچوں کے علاج کے لیے وسائل کا رونا۔ ؟ اس خطرناک بیماری پر حکومتی غیر سنجیدگی عوام کے ذہنوں تشویش پیدا کرتی ہے اور بہت سے سوالات چھوڑتی ہے۔

اسی طرح سے خون میں زہر پھیلنے کی بیماری جسے ”سیمپس“ کہا جاتا ہے۔ عالمی ماہرین کی تحقیق کے مطابق اس بیماری سے سالانہ گیارہ ملین افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا عالمی و مقامی سطح پر کبھی اس بیماری کے علاج کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے گئے؟ اس بیماری کی وجہ سے سالانہ گیارہ ملین افراد کا دنیا سے چلے جانا کوئی معنی نہیں رکھتا؟ اگر کورونا سے انتقال کر جانے والوں کی شرح دیکھی جائے اور اس میں ان اموات کو بھی شامل کر لیا جائے جو زبردستی کورونا کے کھاتے میں ڈالی گئیں، پھر بھی ڈیڑھ سال میں ان کی تعداد اس کی سالانہ شرح کے مطابق نصف بھی نہیں بنتی۔ اعداد و شمار کے مطابق کورونا سے اب تک تقریباً چار ملین افراد دنیا سے گئے ہیں۔ جبکہ مذکورہ بالا بیماری سے سالانہ گیارہ ملین افراد انتقال کر جاتے ہیں۔ اس خطرناک بیماری کو چھوڑ کر صرف کورونا کی رٹ لگانا چہ معنی دارد؟

ایک اور تحقیق کے مطابق اکیسویں صدی میں سب سے زیادہ اموات کینسر سے ہوئیں۔ ماہرین کے مطابق کینسر کا سب سے بڑا خطرہ ہوائی آلودگی، خطرناک الٹرا وائلٹ شعاعوں، صنعتی فضلے اور پانی اور غذائی اجناس میں ملاوٹ ہے۔ منشیات کی وجہ سے ہونے والی کینسر کی بیماریاں بھی عام ہیں، منشیات بھی ہلاکت کا بہت بڑا سبب ہے۔ مگر اس سے بچاؤ کی کیا تدابیر اختیار کی گئیں؟ جواب ندارد۔ جو بری صحبت کی وجہ سے منشیات کے عادی ہو جاتے ہیں، حالت نشہ میں گلیوں اور محلوں میں گھومنے پھرتے رہتے ہیں، اپنی طلب پوری کرنے کے لیے چوری چکاری کرتے ہیں، یہ لوگ معاشرے پر بوجھ اور گھر والوں کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیں۔ سوال وہی ہے کہ نشئی افراد کی ریکوری کے لیے حکومت فری ویکسینیشن اور علاج معالجہ کا اہتمام کیوں نہیں کرتی؟

اگر سوال اٹھایا جائے کہ عالمی سطح پر بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص مہلک بیماریوں سے حفاظت کے لیے کیا ٹھوس اقدامات اٹھائے جاتے ہیں؟ لا محالہ جواب یہی ہو گا کہ سالانہ ان بیماریوں کا عالمی و آگاہی دن منایا جاتا ہے ۔ سیمینارز اور پروگرامز کا انعقاد کر کے، اس سے متاثر ہونے والے اور ہلاک ہونے والوں کی شرح بتا دی جاتی ہے، ذمہ داران دو سطروں کا بیان جاری کر کے اخبارات کی سرخیوں کا حصہ بن جاتے ہیں، اور سمجھا جا تا ہے کہ ہم نے بہت بڑا کام کر لیا ہے۔ درج بالا تمام حقائق کے مد نظر رکھتے ہوئے کورونا ویکسین پر زبردستی پر عوام کے ذہنوں میں اٹھنے والے اشکالات بجا ہیں کہ جب متعدد خطرناک مہلک بیماریوں سے حفاظت پر کوئی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے تو کورونا ویکسین پر زبردستی اتنی مہربانی کیوں؟ کوئی مانے یا نہ مانے، بے شک سوال تو بجا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments