دلہن بننے کا شوق


ستائیس سال قبل شبانہ اعظمی کا بیان سامنے آیا جس کے مطابق شادی کے سات سال بعد میاں بیوی کو ایک دوسرے کو چھوڑ دینا چا ہیے۔ اپنے اس بیان کے موقف میں انہوں نے کئی دلائل دیے۔ اسی دوران احمد نوید نے نے ہمیں پروپوز کر دیا۔ ہماری متلون مزاج کیفیت شبانہ اعظمی کے اس بیان سے کافی لگا کھاتی تھی۔ پھر شعراء کے بارے میں بھی سن رکھا تھا کہ عاشق مزاج ہو تے ہیں۔ اس زمانے میں اکثر شاعروں کی دو بیویاں تھیں۔ ہم ٹھہرے موحد اور کیش ہمارا ترکِ رسوم ہی ہے، سوچا بھلا یہ کب ہمارا طوفانی مزاج سہہ پائیں گے سات سال دور کی بات سات مہینے میں ہاتھ جوڑ دیں گے۔

ہمیں شادی کرنے سے زیادہ دلہن بننے کا شوق تھا۔ ٹی وی ڈراموں یا فلموں میں ہی یہ شوق پورا ہو سکتا تھا۔ مگر فلموں کے نام بڑے گندے ہوتے تھے۔ دلہن ایک رات کی، کنواری دلہن وغیرہ وغیرہ اس لیے محض دلہن بننے کی خاطر فلموں اور ڈراموں کا آئیڈیا پسِ پشت ڈال کر انہیں ہاں کر دی۔ اسی زمانے میں ڈرامہ ’ آسمان تک دیوار ’ پی ٹی وی سے آیا تو شاعروں کے خلاف انتقام کاجذبہ عود کر آیا، سوچا سارا شگفتہ کا انتقام لینے کو بھی سنہری موقع ہے۔ یہ خیال بھی آیا کہ تھوڑا پہلے پیدا ہو جا تے تو مجاز سے شادی کرتے اور پھر اسے تگنی کا ناچ نچاتے۔ بڑا شوق تھا اسے شادی کرنے کا، کئی حسیناؤں نے غزل کی بنجر زمینوں کے اس مالک کو شادی کے وعدوں پر ٹرخا کے اس کی وحشتِ دل کو ایسا مہمیز کیا کہ اس نے چاند ستارے نوچ ڈالے۔ کنگلے شاعر، الفاظ پر قدرت رکھتے ہیں اور انہیں ہی غلام بنایا کرتے ہیں۔

ہمارے دادا کا دو ماہ قبل ہی انتقال ہوا تھا اور ہماری دادی ان سے وفاداری نبھانے کی آخری قسط ’ عدت ’ بڑی ذمے داری اور دل جمعی سے پوری کر رہی تھیں۔ یہاں شادی کی تاریخ مقرر ہو چکی تھی دادی کی عدت ختم ہو نے میں ابھی دو ما ہ چار دن باقی تھے۔ شاید دادی کو بھی درون اور برون تبدیلی کے لیے یہ موقع غنیمت لگا۔ کمالِ بلند خیالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اجازت دے دی کہ ان کی موت کی طرح شادی بھی برحق ہے، وقتِ مقررہ پر ہی ہونی چاہیے۔ مگر اجازت مرحمت فرماتے ہوئے بہت گریہ ناک ہوئیں۔ امی کا خیال تھا کہ انہیں اس موقع پر دادا کی کمی کا احساس ہوا ہو گا۔ مگر ہمیں لگا خوشی کے آنسو تھے۔

ایسا نہیں کہ ستائیس سال قبل بیوٹی پارلر نہیں تھے۔ لیکن ہماری بڑی بہن نے حکم صادر فرمایا کہ ان کی نند نے طارق روڈ کے مہنگے بیوٹی پارلر سے بیوٹیشن کا جو کورس کیا ہے اس کے لیے اسے ہم پر تجرباتی بنیادوں پر طبع آزمائی کرنی چاہیے۔ تاکہ اسے تجربے کی سند کے طور پر مزید شکار مل سکیں۔ ہم گو کہ بہت سادہ مزاج رکھتے ہیں، لیکن پہلی شادی تھی ہماری، ہم نے بہت کہا، دادی سے بھی سفارش کروائی وہ الٹا ہم پر برس پڑیں کہ دلہنوں کو ان معاملات میں نہیں بولنا چا ہیے ورنہ نور جاتا رہتا ہے۔ ہم نے دادی کو سری دیوی، زیبا بیگم، شبنم کی دلہن بنی تصویریں دکھائیں کہ دیکھیں ان بے شرم دلہنوں پر کتنا نور ہے۔ جب کہ یہ کبھی کسی کی تو کبھی کسی کی دلہن بنتی ہیں۔ ہماری کوئی دلیل کام نہ آئی۔ سب لوگ اپنے فیصلے پر قائم رہے۔ ہم نے بھی مہندی کی تقریب کے لیے مارے غصے کے ہاتھوں پر ڈیزائن نہ بنوائے اوردونوں ہاتھوں پر مہندی کا گولا رکھ کر مٹھی بند کر لی۔

ساس نے جو رسم کرتے ہوئے ہمارے ہاتھوں پر مہندی دیکھی تو بہت خوش ہوئیں اور کہا مغلئی مہندی لگی ہے۔ شادی والے دن باجی کی بیوٹیشن نند، فائزہ اپنا بیوٹی بکس لیے ہمارے پاس آکر بیٹھ گئیں اور سب لڑکیوں کو کمرے سے نکال کر دروازے پر کنڈی چڑھا دی۔

بیو ٹی بکس کھولا اور کریم نکالی، اور ہتھیلیوں پر ملنے لگیں۔ ہم نے آنکھیں بند کر لیں۔ کافی دیر تک اپنے چہرے پرجب ان کے ہاتھ محسوس نہ ہوئے تو آنکھیں کھولیں، محترمہ اپنے چہرے سے کریم کی بتیاں جھاڑ رہی تھیں۔ پھر انہوں نے ہمارے کریم لگائی۔ میک اپ کی ہر چیز پہلے وہ اپنے چہرے پر اپلائی کرتیں، پھر ہمارے لگاتیں۔ تھوڑی دیر بعد دھڑ دھڑ بجنے پر محترمہ نے جب دروازہ کھولا تو ہماری بہن شفو اندر داخل ہو ئی، اس نے بتا یا کہ بارات کب کی آچکی ہے یہ کہتے ہوئے اس کی نظر ہمارے چہرے پر پڑی اس کی چیخ نکل گئی۔ ہماری سراسیمگی کے خیال سے اس نے اپنے حواس مجتمع کیے اوردبے دبے الفاظ میں اسے سر زنش کی کہ عمر پڑی ہے، کم از کم پہلی رات تو دلہا کو شک نہ ہو کہ پالا بھوت سے پڑ گیا ہے۔

تھوڑی دیر بعد نزہت شیریں اندر آئیں۔ ہمیں دیکھ کر ان کی بھی پوری آنکھیں باہر آگئیں۔ انہوں نے باقاعدہ بیوٹیشن کو ڈانٹنا شروع کر دیا۔ انہوں نے اپنی حکمتِ عملی یہ کہہ کر واضح کی کہ مووی میں بہت اچھی آئیں گی۔ شیریں نے انہیں سمجھایا دلہا کی زندگی کی خیر ہو، ویڈیو دیکھنے کو عمر پڑی ہے۔ دلہا شاعر ہے، غریب ہے لیکن نا بینا نہیں۔ لوگوں کا شور مچنے لگا کہ آرسی مصحف کی رسم کے لیے دلہن کا انتظار ہو رہا ہے۔ شیریں نے ہماری لپ اسٹک چھڑا کر جلدی جلدی دوسرے رنگ کی لپ اسٹک لگا ئی، شفو ہمارے گالوں کو ٹشو پیپر سے صاف کرنے لگی۔ ہم نے کہا ہمیں خود کو آئینے میں دیکھنا ہے مگر شیریں اور شفو نے آنکھوں آنکھوں میں اشارہ کیا۔ فائزہ نے جلدی سے ہمارا گھونگٹ لمبا کر دیا اور دونوں ہمیں کھینچتے ہوئے کمرے میں لے گئیں۔

آرسی مصحف کی رسم شروع ہوئی ایک آئینہ ہمارے اور احمد کے بیچ رکھ دیا گیا احمد کی نظر ہم پر اور ہماری نظر بھی ہم پر پڑی۔ احمد نے جلدی سے اپنا منہ باہر نکال لیا۔ دادی ہم سے لپٹ کر بھوں بھوں رونے لگیں۔ اور ہمارے آنسوؤں کے بہہ نکلنے کو یہ بہترین موقع تھا سب سمجھ رہے تھے کہ ہمیں میکے سے جدائی کا غم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).