لاہور سے لاپتہ ہونے والے چار بچیاں ’جسم فروشوں کے ہتھے چڑھنے سے بچ گئیں‘

شاہد اسلم - صحافی، لاہور


لاہور

والد کے بقول بچیاں گھر سے اورنج ٹرین کی سیر کے لیے گئی تھیں

لاہور کے علاقے ہنجروال سے پُراسرار طور پر لاپتہ ہونے والی چار کم عمر بچیوں کو ساہیوال پولیس نے چھ روز بعد بازیاب کروا لیا ہے۔

تھانہ غلہ منڈی ساہیوال کے ایس ایچ او امداد خان نے بی بی سی کو تصدیق کی ہے کہ چاروں مغوی بچیوں کو باحفاظت بازیاب کروا کر لاہور پولیس کے حوالے کر دیا ہے جہاں اس کیس کی مزید تفتیش جاری رہے گی۔

30 جولائی کو ہنجروال کے علاقے نمبرداراں والا چوک سے تعلق رکھنے والی آٹھ، دس، گیارہ اور چودہ سالہ بچیوں نے ’گھریلو حالات سے دلبرداشتہ‘ ہو کر گھر چھوڑ دیا تھا۔

اسی روز رات 12 بجے کے قریب ایک رکشہ ڈرائیور نے ان چاروں بچیوں کو ای ایم ای سوسائٹی کے پاس مرکزی سڑک پر اتارا تھا اور تب سے ان کا کوئی سراغ نہیں مل پا رہا تھا۔

اس واقعے کی تفتیش سے منسلک ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پولیس نے اس کیس میں رکشہ ڈرائیور اور بچیوں کے ایک محلے دار کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا ہوا تھا کیونکہ محلے دار رات 11 بجے تک ان بچیوں کے ساتھ تھا تاہم وہ بعد میں ان بچیوں کو ہنجروال چھوڑ کر اپنے گھر چلا گیا تھا۔

بچیوں کے لاپتہ ہونے کے دو روز بعد یعنی یکم اگست کو بچیوں کے والد نے تھانہ ہنجروال میں اُن کے مبینہ اغوا کے خلاف درخواست جمع کروائی تھی۔

انھوں نے درخواست میں موقف اپنایا تھا کہ ان کی دونوں بیٹیوں کے علاوہ اُن کے ہمسائے کی دو بیٹیاں اورنج ٹرین میں سفر کرنے کی غرض سے گھر سے نکلی تھیں لیکن پھر واپس نہیں آئیں۔

والد کی درخواست کے مطابق انھوں نے بچیوں کو بہت تلاش کیا لیکن ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ والد نے اس شک کا اظہار کیا تھا کہ ان بچیوں کو کسی نے اغوا کر لیا ہے۔

بچیوں کے والد کی درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے ان بچیوں کی بازیابی کے لیے پولیس کی مختلف ٹیمیں تشکیل دی گئیں تھیں۔ تفتیشی حکام کے مطابق چاروں بچیوں میں سے ایک کے پاس موبائل فون بھی تھا جس کی آخری لوکیشن چونگی امر سدھو ظاہر ہو رہی تھی، لیکن فون بند ہونے سے پولیس کو مزید سراغ نہیں مل پا رہا تھا۔

بچیاں لاہور سے ساہیوال کیسے پہنچیں؟

تھانہ غلہ منڈی ساہیوال کے ایس ایچ او امداد خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق ای ایم ای سوسائٹی کے پاس سے ان بچیوں کو ایک رکشہ ڈرائیور نے پک کیا اور یہ معلوم ہونے پر کہ وہ گھر یلو حالات کی وجہ سے گھر سے نکلی ہیں وہ انھیں ورغلا کر یتیم خانہ کے علاقے میں واقع اپنے گھر لے گیا۔

ایس ایچ او کے مطابق وہیں ملزم نے اپنے ایک دوست اور اس کیس کے شریک ملزم سے رابطہ کیا اور دونوں نے ان بچیوں کو جسم فروشی کے کسی اڈے پر بیچنے کی غرض سے اپنے آبائی شہر ساہیوال لے جانے کا پروگرام بنایا۔

ایس ایچ او امداد خان کے مطابق ملزمان ان چاروں بچیوں کو غلط نیت کی غرض سے ہی اپنے ساتھ لے گئے تھے ورنہ وہ پولیس کو بروقت اطلاع بھی کر سکتے تھے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔

ایس ایچ او کے مطابق ملزمان نے ان چاروں بچیوں کو ہفتہ اور اتوار تک لاہور میں ہی رکھا اور پھر کار میں سوار کر کے ساہیوال لے گئے۔

ساہیوال پولیس بچیوں تک کیسی پہنچی؟

امداد خان کے مطابق ساہیوال میں پولیس گذشتہ کئی روز سے فحاشی کے اڈوں اور دیگر مقامات پر چھاپے مار رہی تھی اور دو اگست کو بھی جسم فروشی کے ایک اڈے پرچھاپے کے دوران انھوں نے ایک ملزم کو گرفتار کیا جس کی بعد میں ضمانت بھی ہو گئی تھی۔ تاہم تب تک انھیں ملزم کے اس کیس میں ملوث ہونے کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھیں۔

ایس ایچ او کے مطابق ملزم نے ضمانت ہونے کے فوری بعد ان چاروں بچیوں اس ڈر کی وجہ سے ساہیوال میں ایک سنسان جگہ پر چھوڑ دیا تھا کہ پولیس شاید انھی بچیوں کی تلاش میں ان کے اڈے تک پہنچی تھی۔

ایس ایچ او کے مطابق ملزمان نے ان چاروں بچیوں کو ساہیوال کے علاقے فرید ٹاؤن میں رکھا ہوا تھا جبکہ وہاں ان کی معاونت ان ملزمان کی بیویاں کر رہی تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

’پڑوسی ہمیں بہانے سے لے کر گئے اور افغانستان میں فروخت کر دیا‘

45 لڑکیوں کے ریپ میں ملوث جوڑا گرفتار: پولیس کا دعویٰ

’پاکستان میں ہر روز 9 بچے جنسی زیادتی کا شکار‘

لاپتہ بچی حقیقی والدین کو مل گئی

انھوں نے بتایا کہ ’ہمیں 15 پر ایک کال موصول ہوئی جس میں چار کم عمر بچیوں کے بارے میں اطلاع دی گئی۔ ہم فورا اس جگہ پر پہنچے اور ان بچیوں کو اپنی تحویل میں لیا اور پھر بعد میں ان سے بات چیت کے نتیجے میں پتا چلا کہ یہ بچیاں لاہور سے یہاں پہنچی ہیں اور لاہور پولیس بھی انھیں ڈھونڈ رہی ہیں۔‘

ایس ایچ او امداد خان کے مطابق دو خواتین سمیت تمام ملزمان اب پولیس کی حراست میں ہیں اور ان سے مزید تفتیش جاری ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ لاہور پولیس نے یہ کیس پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 363 کے تحت مقدمہ درج کیا ہے جس کی سزا موت بھی ہو سکتی ہے۔

ایس ایچ او نے دعویٰ کیا کہ بچیوں سے ہونے والی بات چیت سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ان میں سے کسی کے ساتھ بھی کسی طرح کا جنسی تشدد نہیں ہوا لیکن قانونی تقاضے پورے کرنے کی غرض سے لاہور پولیس پھر بھی ان کا میڈیکل ٹیسٹ ضرور کروائے گی۔

پولیس افسر کا کہنا ہے کہ بچیوں نے ڈر کی وجہ سے واپس اپنے گھروں میں جانے سے انکار کر دیا ہے لیکن عدالت میں ان کے دیے گئے بیان کے بعد ہی یہ طے ہو گا کہ آیا انھیں ان کے گھروں میں بھیجا جائے یا کسی دارالامان میں۔

اس کیس کے تفتیشی افسر محمد قمر نے بتایا کہ ملتان روڈ کے آس پاس جہاں جہاں سے میٹرو ٹرین کا ٹریک گزرا ہے وہاں ابھی تک سیف سٹی کے تمام کیمرے مکمل طور پر کام نہیں کر رہے جس کی وجہ سے بچیوں کو ڈھونڈنے میں ان کی مشکلات میں اضافہ ہوا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp