کپتان کے ناراض ووٹرز


مس رفعت کا شمار میری اُن چند قریبی ملنے والی خواتین میں ہوتا ہے جو تحریک انصاف کی بہت جنونی انداز میں حمایت کرتی ہیں۔ ہم دوستوں کے سامنے جب بھی کوئی عمران خان کے حوالے سے کسی بھی قسم کی منفی بات کرتا ہم اُسے مس رفعت کے پاس بھیج کر مطمعن ہو جاتے کہ وہ اب اُسے کسی نہ کسی طرح کپتان کی حمایت کے لئے قائل کر ہی لیں گی۔ کپتان کے وزیراعظم بننے کے بعد بھی اُن کے جوش و جذبے میں کوئی کمی نہیں آئی۔کچھ دنوں سے وہ مجھے بہت خاموش نظر آ رہی تھیں کیونکہ خان صاحب کی حکومت کے ابتدائی چالیس دنوں کی کارکردگی نے اُنہیں بھی کسی حد تک مایوس کیا ہے۔ حکومت میں آنے کے بعد منی بجٹ کے نام پر عمران خان مہنگائی کا جو طوفان لے کر آئے ہیں اُس نے اُن کے مُخالفین کو تو ہرزہ سرائی کا موقع فراہم کیا ہی ہے مگر اُن سے محبت کرنے والے اُن کے ووٹرز بھی بہت دلبرداشتہ ہیں۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی کتنی ہی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ مہنگائی کا ایک طوفان ہے جس سے سب سے زیادہ متاثر غریب آدمی ہو رہا ہے۔

خان صاحب کو شاید اندازہ نہیں ہے کہ مہنگائی بڑھتے ساتھ ہی کرپشن میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ایک آدمی جس کی ماہانہ تنخواہ محض دس ہزار ہے اور جو مہینے کے آخری دنوں میں اُدھار پر گُزارا کرتا ہے۔ اچانک سے اُس کے گھریلو بجٹ میں چند ہزار کا اضافہ ہو جاتا ہے تو اپنی زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے وہ ناجائز ذرائع آمدن اختیار کرنے پر مجبور ہو گا اور اس کا ذمہ دار ہم حکمران کے علاوہ کسی اور کو قرار نہیں دیں گے۔ وزیراعظم بنتے ہی کپتان نے معشیت سُدھارنے کے لئے ایک نہایت ہی پُراثر پروگرام عوام کے سامنے پیش کیا۔ بلاشبہ یہ ایک بہترین تقریر تھی جسے سُنتے ہی بے اختیار دل سے نکلا کہ یہی وہ شخص ہے جو مُلک کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو بھنور سے نکالے گا اور اسی کی قیادت میں مُلک ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا۔

وزیراعظم نے کام کا آغاز کیا تو ابتدائی دو ہفتوں میں کچھ ایسے کام کئے جو اس سے پہلے کسی بھی حُکمران نے نہیں کئے تھے۔ وزیراعظم ہاوٗس کی گاڑیوں اور بھینسوں کی نیلامی اور گورنر ہاوٗسز کو عام عوام کے لئے کھولنے جیسے کام شامل ہیں جنہیں نہ صرف سراہا گیا بلکہ ان پر بہت تنقید بھی ہوئی بلکہ ابھی تک ہو رہی ہے۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ ایک ایسا مُلک کس کی معشیت مسلسل ابتری کی طرف جا رہی ہو وہاں کے حُکمرانوں کا طرزِ زندگی انتہائی سادہ ہونا چاہئے اور ان اقدامات کا مقصد سادگی کے فروغ کے ساتھ ساتھ ریونیو حاصل کرنا بھی تھا مگر کچھ چیزیں ابھی تک ویسی ہی ہیں جیسے پروٹوکول کا کلچر کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔حکومت کو آئے ابھی دو ماہ نہیں ہوئے مگر ایسا لگتا ہے کہ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور سوائے قیمتیں بڑھانے کے اُسے معشیت سُدھارنے کا کوئی حل نہیں نظر آ رہا۔ اسد عمر صاحب سے سب کو بہت اُمیدیں ہیں کہ وہ مُلکی معشیت کو درست ٹریک پر لے آییں گے مگر جو راستہ وہ اختیار کر رہے ہیں اُس سے غریب آدمی کی ہی جیب ہلکی ہو رہی ہے۔ تحریکِ انصاف والے مت بھولیں کہ وہ اگر اقتدار میں آئیں ہیں تو اسی غریب آدمی کا ووٹ لے کر آئیں ہیں۔ ہم سب اپنی حکومت کو تین ماہ تو کیا پانچ سال دینے کو تیار ہیں مگر حکومت کو غریب آدمی کا بھی خیال رکھے۔کپتان کے ووٹرز کپتان کی طاقت ہیں اور انہی ووٹرز کے اندر پھلتی مایوسی کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).