ماونٹ ایورسٹ کو سر کرنے کا تنازع


فاتحِ ایورسٹ ۔۔۔۔۔۔ ٹین زِنگ نارگے

“یہ ایک لمبا سفر رہا ہے بوجھ ڈھونے والے ایک پہاڑی قُلی سے لے کر جہازوں میں لے جایا جانے والا ایسا شخص بن جانا جو میڈلوں کی قطار لگے ہوئے کوٹ پہنتا ہے اور انکم ٹیکس کا حساب کرتا رہتا ہے”۔ (نارگے)

نیپال میں پیدا ہونے والے، ساری دنیا میں رہنے والے اور دارجلنگ میں اپنا آخری سانس لینے والے “ٹین زِنگ نارگے” کی زندگی ایک ایسے شخص کی زندگی ہے جو زیرو سے ہیرو بنتا ہے اور پھر اپنی آخری سانس تک سب سے بڑی قربانی دے کر اپنی شخصیت کے وقار کا تحفظ کرتا ہے۔ یہ ایک ایسے انسان کی کہانی ہے جس نے پہلے پوری دنیا کو اپنے کارنامے اور پھر صبر و برداشت کے ذریعے اپنے کردار کی عظمت سے حیران کردیا۔ نارگے ان دو میں سے ایک تھا جنہوں نے ماؤنٹ ایورسٹ پر پہلی بار انسانی قدم رکھے تھے۔

انگلینڈ کے کرنل جان ہنٹ نے 1953 میں جب ایورسٹ کو سَر کرنے کے لئے اپنی ساتویں مہم بھیجی تو اس کو بھی یقین نہیں تھا کہ یہ مہم ایورسٹ کے غرور کو سر کرنے کی آخری مہم ثابت ہوگی اور یہ انسان کی عظیم الشان فتوحات کے سلسلے کا ایک اور پہلا دن ہوگا۔ چار سو لوگوں کی اس ٹیم میں صرف ایک شخص کو اس فتح کا کامل یقین تھا وہ تھا سر ایڈمنڈ ہیلری جس نے ایورسٹ کی پچھلی ناکام مہم کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے سامنے لگی ایورسٹ کی تصویر کو مُکا دکھاتے ہوئے کہا تھا۔
” تم ایک بلند ترین پہاڑ ہو سکتے ہو لیکن تم مجبور ہو کہ تم اس سے زیادہ بلند نہیں ہوسکتے جبکہ میرے پاس جو حوصلہ ہے میں اسے اور زیادہ بڑھا کر اتنا بلند کر سکتا ہوں کہ تمہیں سَر کرلوں۔ اس بار شکست تمہاری ہو گی”۔

29 مئی کا دن ماؤنٹ ایورسٹ کے غرور کا تو آخری دن ثابت ہوگیا لیکن ایک ایسے تنازعہ کے شروع ہونے کا پہلا دن تھا جو شاید اس وقت بھی حل نہ ہو سکے جب کائنات میں ماؤنٹ ایورسٹ کا وجود بھی نہیں ہوگا۔ تنازعہ یہ تھا کہ آخر ایورسٹ پر سب سے پہلے کس نے قدم رکھا تھا۔ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرتے ہوئے جب ایڈمنڈ ہیلری پہاڑ کی چوٹی پر اس جگہ پہنچے جسے آج کل “ہیلری سٹیپ” کہا جاتا ہے تو ان کے ساتھ ایک مقامی شیرپا “ٹینزنگ نارگے” بھی تھا۔ نارگے ایک مقامی پہاڑی قلی تھا جس کا کام مہم جوؤں کو سہولیات فراہم کرنا اور ان کو بلندی تک گائیڈ کرنا تھا۔

حال دل جاننے والے کہتے ہیں کہ راستے میں ہیلری کو پیش آنے والی مشکلات کے باعث ٹینزنگ آگے تھے جبکہ ہیلری ان سے ڈور کے ذریعے بندھے ہوئے پیچھے تھے۔ اس لیے ایورسٹ کی چوٹی پر پہلا قدم ٹینزنگ نارگے نے ہی رکھا۔ مگر مالدار مہم جو کیونکر یہ برداشت کر سکتے تھے کہ ایورسٹ کی فتح کا کریڈٹ ایک عام مقامی ملازم لے جائے۔ اس لیے نیچے اترنے تک نارگے کو مختلف طریقوں سے اس بات پر راضی کر لیا گیا تھا کہ کریڈٹ ہیلری کو ہی ملے گا۔ یہی وجہ تھی کہ نارگے نے ساری زندگی واضح الفاظ میں اصل حقیقت بیان نہیں کی۔

دیواروں کی طرح پہاڑوں کے بھی شاید کان ہوتے ہوں گے۔ تبھی گروپ کے انگلینڈ پہنچنے تک یہ بات “کانوں کان” سفر کرتے ہوئے وہاں کے میڈیا تک بھی پہنچ چکی تھی کہ اصل راز چھپایا جا رہا ہے۔ انگلینڈ کا نسل پرست سفید فام کبھی یہ برداشت نہیں کرسکتا تھا کہ ایک سیاہ رنگت والا نیپالی تاریخ کا ایسا عظیم الشان کارنامہ صرف اپنے نام کرالے۔ آخر اس سفید فام انگریز کے لیے یہ بات کیسے قابل قبول ہو سکتی تھی جس نے بغیر کسی معقول وجہ کے دنیا کے سب سے اونچے پہاڑ کو اپنے ایک انگریز جارج ایورسٹ کے نام پر ایورسٹ کا نام دے دیا تھا۔ حالانکہ مقامی لوگ صدیوں سے اس پہاڑ کو “ساگر مَتھا” کہتے تھے۔ جو کہ اسم بامسمیٰ بھی تھا۔ مقامی زبان میں ساگر آسمان کو کہتے ہیں اور متھا ماتھے یا سر کو کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ تنازعہ مزید بڑھا اور مہم کے سربراہ کرنل ہنٹ سے جب یہ سوال کیا گیا کہ ایورسٹ سر کرنے والا “پہلا” بننے کی عظمت کا حقدار کون ہو گا اور “دوسرا” بننے کا سزاوار کون ٹھہرے گا تو ہنٹ نے حتمی طور پر کہہ دیا “یہ دونوں اکٹھے چوٹی پر پہنچے تھے”۔

ایسی صورت میں حقیقت تک پہنچنے کا صرف ایک ہی حل رہ جاتا تھا کہ نارگے اپنی زبان کھولے اور کوئی واضح جواب دے۔ ایک کلیشے ھے کہ مغرب انفرادی عظمت کا خواہاں رہتا ہے جب کہ مشرق ہمیشہ اجتماعیت کا قائل رہا ہے۔ اس لیے جب نارگے سے کھل کر جواب دینے کا کہا گیا تو اس نے صبر اور برداشت کی مثال پیش کرتے ہوئے ایسا جواب دیا جو تاریخ میں تو قربانی کی ایک سنہری مثال رہے گا ہی لیکن یہ جواب کمزور کی طرف سے طاقتور کے لئے ایک زور دار تھپڑ بھی ہے۔ اس نے کہا
“ہیلری کہے گا کہ اس نے پہلے قدم رکھا میں کہوں گا کہ میں نے پہلے رکھا لیکن اس سے کوئی اچھائی جنم نہیں لے گی اس لئے میں کہتا ہوں کہ ہم دونوں اکٹھے پہنچے ایک ٹیم کی صورت”

شاید یہ ایورسٹ کا انتقام تھا کہ اس نے مُکا دکھانے والے فاتح کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی کو بھی ادھورا بنا دیا۔ ہیلری شاید زندگی میں کبھی بھی پورے اعتماد سے اس خوشی کا مزہ نہ لے پائے ہوں گے۔ نارگے نے اپنی کتاب Man On Everest میں لکھا ہے
“چوٹی پر پہنچنے کے بعد میں نے ہیلری کو کہا کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ میں تمہاری تصویر بناتا ہوں مگر ہیلری نے انکار میں سر ہلا دیا وہ تصویر نہیں بنوانا چاہتا تھا”۔

تاہم ایورسٹ کی فتح اتنا بڑا کارنامہ تھا کہ پوری دنیا نے ان دونوں کو سر آنکھوں پر بٹھانا شروع کردیا۔ پیسوں کی بوریاں کھل گی تو اعزازات کے انبار لگ گئے۔ ناسا نے پلوٹو پر موجود ایک برفیلے پہاڑی سلسلے کو Tenzing Montes کا نام دے کر نارگے سے منسوب کردیا۔ پوری دنیا سے دونوں کو میڈل، اعزازات اور خطابات ملنے لگے۔ مگر پھر برطانیہ کی طرف سے ایک بار پھر دنیا کو حیران کر دیا گیا جب ملکہ برطانیہ نے ایڈمنڈ ہیلری کو تو سر کا خطاب دے دیا جبکہ نارگے کے لئے صرف جارج میڈل کا اعلان کیا گیا۔ یہ میڈل بھی اگرچہ انگلینڈ کا اہم ترین اعزاز ہے تاہم سر کے خطاب کی عظمت کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ دنیا میں یہ فیصلہ بھی تعصب کی ایک اور مثال کے طور پر ناپسند کیا گیا۔ لیکن ایک بار پھر نارگے نے اس میڈل کو قبول کرکے اپنی شخصیت کی عظمت کا ایک اور ثبوت پیش کردیا۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملکہ برطانیہ کو پنڈت جواہر لال نہرو نے نارگے کو سر کا خطاب دینے سے منع کیا تھا کیونکہ نارگے نیپال اور بھارت دونوں کے پاسپورٹ استعمال کرتا تھا اور بھارت میں مستقل رہائش کے باوجود اپنی نیپالی شہریت سے دستبردار ہونے کو تیار نہ تھا اور پھر باقی دنیا میں ٹینزنگ کو ایسی شہرت مل رہی تھی کہ اس کی شہریت کے حوالے سے بھارت اور نیپال کے سفارتی تعلقات بھی خراب ہونے شروع ہو گئےتھے۔

بہرحال نارگے نے اس کے بعد بھرپور زندگی گزاری۔ اس نے انسانیت کی فلاح و بہبود کو اپنا مشن بنالیا۔ سکولز کھولے، پہاڑیاں سَر کرنے والے اداروں کی سربراہی کی اور نسل انسانی کے لئے اپنی حد تک اپنا کردار بخوبی ادا کیا۔ تاریخِ انسانی شاید اُس “پہلے قدم” کا فیصلہ تو کبھی نہ کر پائے لیکن ایک ایسے نیپالی قلی کی عظمت کا ہمیشہ اعتراف کرتی رہے گی جس کے قدم چلے تو دنیا کے بلند ترین مقام تک جا پہنچے اور زبان رُکی تو ایسے رُکی کہ اُس جیت کا اعلان بھی نہ کیا جو اُس کی ذات کے لیے تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیتی۔

سچ ہے کہ انسان بہترین کارنامے سے نہیں بلکہ بڑے کردار سے عظیم بنتا ہے۔ ٹینزنگ نارگے کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لوگ کہتے ہیں کہ
” نارگے ایک ایسی سنڈریلا تھا جس نے سب کو بتا دیا کہ ہر کسی کے اندر ایک پری موجود ہے”
They too can be Belles.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).