منبروں سے بٹتی نفرت


زیادہ تر پاکستانی مسلمان بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ تیار ہو کر جمعہ کی نماز کے لئے مسجد کا رخ کرتے ہیں اور کوشش کرتے کہ پہلی صف میں بیٹھیں تا کہ علامہ صاحب کا قرب حاصل ہو۔

منبر پر بیٹھے علامہ صاحب کو لوگ بڑی توجہ سے سنتے ہیں گویا صاحب منبر کی بات کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔ مگر جو بات قابل تشویش ہے وہ یہ کہ مساجد میں علماء کی زیادہ تر تقاریر جذباتی و فرقہ پرستی پر مبنی ہوتی ہیں۔ عموماً کسی فرقے سے متعلق مسئلہ ہی بیان فرماتے ہیں۔ اب ان مسائل کی نوعیت آپ بخوبی جانتے ہیں، ان میں فقط نفرت کا درس ہی دیا جاتا ہے اور مخالف فرقے کو نیچا دکھانے کے پورے جتن کیے جاتے ہیں۔

میں کہتا ہوں آخر ہم لوگ یہ کیوں نہیں کہتے ان علماء کو کہ کیا دین کی تبلیغ صرف فرقہ وارانہ تعلیمات ہی رہ گئی ہے؟ ہمارے علماء کے پاس کیا فقط یہی اک موضوع رہ گیا ہے؟ جس میں وہ ہمیشہ خود کو صحیح اور دوسرے فرقہ کو غلط ثابت کر کے اک زعم میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ہم ہی ہمیشہ سے درست تھے اور ہمیشہ درست رہیں گے۔ ہمارے ملک میں فرقہ واریت کا کھیل کچھ نیا نہیں ہے۔ اور بہت سے معتبر علماء کی روزی روٹی بھی اسی نفرت کے کھیل سے منسلک تھی اور اب بھی ہے۔

مجھے یقین ہے آپ لوگوں نے مساجد کی انتظامیہ یا کوئی محفل منعقد کرانے والے حضرات سے سنا ہوگا۔ فلاں مولانا کو بلاتے ہیں وہ فلاں فرقے پر بہت گرجتے ہیں۔ فلاں علامہ صاحب کو بلاتے ہیں وہ دوسرے فرقے کی صحیح دھول بٹھاتے ہیں۔ حالانکہ اس طرح کے تمام علامہ حضرات کی باتیں دھول سے رسی بٹنے کے مترادف ہوتی ہیں۔ وہی گھسی پٹی اور منطق سے خالی باتیں جن کو سن کر سامعین (جو زیادہ تر ان پڑھ ہوتے ہیں ) یوں سر دھنتے ہیں گویا آج حق سامنے آ گیا ہے اور باطل اب بھاگ کھڑا ہوگا۔ حالانکہ جس کو وہ حق سمجھتے ہیں وہ دوسروں کا باطل ہے۔

اب تو علماء کی کئی اقسام بھی مارکیٹ میں آ گئی ہیں جن میں سے سر فہرست مزاحیہ علماء چھوٹی پگڑی یا بڑی پگڑی والے علماء ہیں۔ میری نظر میں ایسے لوگوں کو عالم کہنا علم کو رسوا کرنے جیسا ہے۔

خیر بات ہو رہی تھی فرقوں کی تبلیغ کرنے والے علماء کی اور ہمارے زیادہ علماء اسی کیٹگری میں شامل ہوتے ہیں۔ ہمارے منبروں سے بھائی چارے کی بجائے ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کی آوازیں ہی بلند ہوئی ہیں۔ اس بات کے قصور وار وہ تمام لوگ بھی ہیں جنہوں نے نفرت کا بیوپار کرتے علماء کو منبر پر بٹھانے کے لئے کسی طرح بھی مدد فراہم کی ہو۔ پاکستان میں پچھلے تہتر سالوں اور مجموعی طور پر چودہ صدیوں سے مسلمان فرقے بنا کر آپس میں لڑ مر رہے ہیں۔

مسلمانوں کی آپسی لڑائیوں کی گواہی سے تاریخی کتب بھری پڑی ہیں۔ پھر ہماری عقلیت کا معیار بھی دیکھ لیجیے ہم نے ہمیشہ ہر ناکامی اور غلط کام کا قصور وار یہودیوں کی سازش کو ہی ٹھہرایا ہے۔ میں کہتا ہوں جتنا تباہ ہم مسلمانوں نے خود کو کیا ہے شاید یہودی سازشوں کے ذریعہ بھی نہ کر پاتے مگر کیا کریں ہم اس قدر سست اور کاہل لوگ ہیں کہ ہر طرح کے برے حالات کو یہودیوں کے کھاتے میں ڈال کر اپنا پلو جھاڑتے ہیں اور حقائق سے یوں نظریں چرا لیتے ہیں گویا حقائق سے چشم پوشی کے بعد ہمارے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ چند گنتی کے علماء ایسے ضرور موجود ہیں جو مسلمانوں کو تفریق کرنے کی بجائے جمع کرنے کی کوشش میں ہیں اور مجھے امید ہے کہ یوں ہی آہستہ آہستہ چراغ سے چراغ جلیں گے اور نور بڑھتا رہے گا۔

لیکن بحیثیت مسلمان کچھ ذمہ داری ہماری بھی ہے۔ کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ جس طرح ہم ہر بات کو یہودیوں کے کھاتے میں ڈالتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ یہودی ہمیشہ مسلمانوں کو آپس میں لڑاتے ہیں اسی طرح کبھی منبر پر بیٹھے فرقہ پرستی کے بانیوں کو کیوں نہیں کہتے کہ تم مسلمانوں میں انتشار کا باعث ہو تم اس دین کی غلط تشریح کر رہے ہو جس کی کتاب میں بہت واضح لکھا ہے ”خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں مت پڑو“ آخر منبر پر بیٹھے بڑی دستاروں والے کون سے مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں؟ قرآن کی ہزاروں تاویلیں بیان کریں گے مگر جو سادہ سی بات قرآن مندرجہ بالا آیت میں واضح الفاظ میں کہتا ہے اس طرف کیوں نہیں آتے؟ آخر کیوں یہ لوگ مسلسل فرقے بنا کر بیٹھے ہیں؟

کیا فرقہ پرستی کے علاوہ کوئی وعظ ان کو نہیں آتا؟
کیوں مسلسل تباہ حال امت کو جوش و خروش سے عین ثواب سمجھتے ہوئے مزید تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں؟
آخر کیوں چودہ سو سالوں مسائل (فرقوں ) کے حل کی بجائے مزید مسائل کو جنم دیا گیا؟

یہ چند سوالات میں قاری کے لے چھوڑتا ہوں خدارا سوچئے اس سے پہلے کہ ہماری داستاں تک نہ ہو داستانوں میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments