فہمیدہ ریاض: وجود کرب سے آگے


ادب، جو اپنے گرد و پیش میں بکھری ہوئی زندگی اور اپنے عہد کے عصری تقاضوں سے بے خبر ہو وہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کچے رنگوں سے بنی کوئی تصویر جو موسم کی سختیوں سے متاثر ہو کر اپنی دلکشی کھو بیٹھتی ہے۔ ہر دور کا ادب اپنے اپنے عہد کے چہرے پر پڑی وقت کی خراشوں سے ایسے خدوخال ابھارتا ہے جو لفظوں، لکیروں اور رنگوں کے محتاج نہیں ہوتے اور پھر وقت کی بے رحمیوں کے سبس ہونے والی شکست و ریخت کے چارہ گر بھی یہی فنکار ہوا کرتے ہیں۔

ایک ماہر فنکار اپنے عہد کی وستعوں میں غوطہ زن ہوکر سماج کی ناہمواریوں کو سوچ کی گہرائیوں اور الفاظ و استعاروں کی حسین ترکیبوں کی مختلف پرتوں میں پیوست کرتا جاتا ہے بالکل ایسے ہی فہمیدہ ریاض اپنے عہد کے حالات و واقعات اور جمالیات و جذبات کو تخلیقیت کا لبادہ اوڑھا دیا۔ نطشے کا کہنا ہے ”جو تاریخ میں درج نہیں، تلاش کیا جا سکتا ہے“ گویا جستجو انسان کے زندہ اور حساس ہونے کی دلیل ہے اور فہمیدہ ریاض اس مقولے پر پوری طرح موزوں ٹھہرتی ہیں، انھوں نے وہ کیا جو پہلے کسی اور نے نہیں کیا تھا

میں تیز گام چلی جا رہی تھی اس کی سمت
کشش عجیب تھی اس دشت کی صداؤں میں
(غزل۔ بدن دریدہ)

جس دور میں میں فہمیدہ ریاض کی پہلی کتاب پتھر کی زبان 1967 میں شائع ہوئی اس سے کچھ عرصہ قبل یعنی 1960 میں اردو شاعری میں جدیدیت کا باقاعدہ چلن ہوا۔ یہاں میں اس بات کا ذکر اہم سمجھتی ہوں کہ جدیدیت دراصل اپنے عہد کی حسیت کو تصویر کرنا قرار ٹھہرا، جدیدیت چونکہ فرد مرکوز ہے اور ادیب ایک اکائی لہذا وہ اپنی فکر کو بنہ صرف تخلیقی پیرائے میں ڈھالنے کا اختیار رکھتا ہے بلکہ بنا کسی خوف کے اس کے اظہار میں بھی آزاد ہے یعنی جدیدیت فردیت کی پکار ہے، جیسا کہ جدید اردو شاعری میں فرد کو مرکزی اہمیت حاصل ہے لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جدیدیت میں وجودیت کی تحریک کارفرما نظر آتی ہے بلکہ یوں کہنا غلط نہ ہو گا کہ اردو شاعری میں وجودیت نے جدیدیت کی کوکھ میں جنم لیا جس میں مروجہ اصول و قواعد سے بغاوت امتیازی صفت ہے گویا روایت شکنی جدید اردو شاعری کا وصف ٹھہرا اور فہمیدہ ریاض اس روایت کی پیروکار نکلیں

نقوش پاؤں کے لکھتے ہیں منزل نا یافت
مرا سفر تو ہے تحریر میری راہوں میں
(غزل۔ بدن دریدہ)

یہ طے شدہ امر ہے کہ کسی بھی دور کا سچا اور کھرا فنکار اپنے قلم سے بے چہرہ عہد کے ایسے نقوش تراشتا ہے جو نہ صرف اس کی سوچ کے خدوخال نمایاں کرتے ہیں بلکہ کسی سماج کی قدروں اور تہذیبوں کے عکس بھی دکھتا ہے

میں کہ بنت ہجر ہوں
مجھ میں ایسی پیاس ہے
میں کہ میرے واسطے
وصل بھی فراق ہے
مجھ میں ایسی آگ ہے
(میگھ دوت۔ بدن دریدہ)

فہمیدہ ریاض جدیدیت پسند تو تھیں ہی ان کی فکر اور شاعری میں وجودیت کی تحریک بھی کارفرما نظر آتی ہے، چونکہ جدیدیت کا عقیدہ ہے ”دنیا ویسی ہی بنی ہے جیسی کہ ہم اسے سمجھیں“ اور فہمیدہ ریاض بھی اپنی نظریاتی صداقتوں کی گواہی اپنے عہد کی تاریخ پر نہیں رکھتیں بلکہ وہ سماج کے جبر اور بربریت کا سامنا کرتی ہیں اور اس کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں

سنگ دل رواجوں کے
خستہ حال زنداں میں
اک صدائے مستانہ
ایک رقص رندانہ
یہ عمارت کہنہ ٹوٹ بھی تو سکتی ہے
یہ اسیر شہزادی چھوٹ بھی تو سکتی ہے
(ایک لڑکی سے۔ دھوپ)

میرے نزدیک یہ بغاوت نہیں، سماجی وجودیت کا احساس ہے، یہ محض میمنیزم نہیں، انسانیت کا اقرار ہے۔ بیسویں صدی کے ادب میں چونکہ علامیت، جنسیت اور وجودیت غالب نظر آتے ہیں اور اہل علم اس امر سے متفق ہیں کہ یہ نظریات زندگی سے قریب تر ہیں اور زندگی کو ایک خاص انداز میں برتنے کا نظام واضع کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں، ان کے یہاں زندگی میں حس لطیف سے رنگ بھرنے کا نام ادب ہے اور دراصل یہی وجودی فکر کی ادبی تصویر بھی ہے۔ جدید اردو شاعری میں فرد اور اس کی داخلی قوت کو اہم مقام حاصل ہے اور تلاش ذات ہی جدید شاعری کا محور ہے۔ فہمیدہ ریاض تلاش ذات کے ساتھ ساتھ انکشاف ذات میں بھی مشغول نظر آتی ہیں۔ ”آدمی کی زندگی“ سے ان کی ایک نظم ”راز“ انکشاف ذات کا بہترین اظہاریہ ہے

تاریک مہیب راستے پرکب سے چلتے تھے سر جھکائے
جو ختم نہ ہو گی وہ تیرگی تھی
اور راہ بھی وہ جو کٹ نہ پائے
اک دم جو پلٹ کے میں نے دیکھا
تا حد نظر عجب سماں تھا
گنگا میں بہیں چراغ جیسے
اک نور کا کارواں رواں تھا
مبہوت کھڑی میں سدیکھتی تھی
اسرار اس راہ کا عیاں تھا
اتنے مایوس قافلے کا
نقش کف پا جہاں جہاں تھا
اک نور کا قوس بن گئی تھی
حیران زمیں پہ تن گئی تھی

اسرار ذات کسی مخصوص ذہنی ارتکاز کے باعث ممکن ہوا کرتا ہے، نور کی کرن تیرگی کی دھند میں ہی چمکتی ہے مگر نظر خاص لمحات میں ہی آتی ہے، یہ دراصل داخلی نوعیت کا تجربہ ہے جسے لفظوں کی اوڑھنی پہنا کر آشکار کر دیا گیا ہے۔ فہمیدہ ریاض کی شاعری میں خود مرکزیت کا دائرہ بہت وسع ہے

کوئی تر آئے رین اندھیاری
مہک سے بوجھل، کاری کاری
میرے سنگ ہو میت مرا
پھر برسے گھنگھور گھٹا
(بہاؤ۔ دھوپ)

ایک اور نظم میں وجودی فکر کا عکس اس طرح جھلکتا ہے
تو ہے وہ زن زندہ
جس کاجسم شعلہ ہے
جس کی روح آہن ہے
جس کا نطق گویا ہے
بازوؤں میں قوت ہے
انگلیوں میں صناعی
ولولوں میں بیباکی
لذتوں کی شیدائی
عشق آشنا عورت
وصل آشنا عورت
(ایک لڑکی سے۔ دھوپ)

جس طرح ہر فلسفے کا آغاز اضطراب اور انحراف سے ہوتا ہے اسی طرح ہر شاعری یا تخلیق کسی نہ کسی کسک سے جنم لیتی ہے۔ انسان کو اپنے آپ کو دریافت کرنے کا عمل تہہ دار اور کرب آمیز ہے، جذبات و احساسات کا جلترنگ فہمیدہ ریاض کے یہاں سر چڑھ کر بولتا ہے اور اسی کے زیر اثر فہمیدہ ریاض فرد کی زندگی سے باہمی کشمکش کو اپنی نظم ”کبھی کبھی“ میں یوں بیان کرتی ہیں

اصول زندگی ہے یہ، حیات ہے تو آس ہے
دبیز ہوں سیاہیاں تو پھوٹے صبح کی کرن
چلی ہے جب بھی باد نامراد، جل اٹھے چمن
سلگ کے اس تپش سے اور بھی چمک اٹھی لگن

وہ شوق کی خلش جو دل کے آس پاس ہے
فراق، شدت جنوں بھلا گھٹا سکا ہے کب
صعوبتوں کا سلسلہ بنا ہے جہد کا سبب
مہک اٹھے ہیں حسرتوں پھول، بزھ گئی طلب
مرے چراغ شوق کو ہوائے تند راس ہے
(کبھی کبھی۔ پتھر کی زبان)

فرد کی زندگی امید سے وابسطہ ہے، یہ امید ہی متاع حیات ہے جس کی پرستش احساس خودشناسائی عطا کرتی ہے اور انسان اپنے انتخاب پر پر اعتماد رہتا ہے۔ سارتر کے نزدیک ”انسان پہلے وجود میں آتا ہے بعد میں وہ اپنے جوہر کا انتخاب کرتا ہے“ گویا انسان اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔ میرے نزدیک دنیا کا ہر فنکار کم و بیش ”وجودی“ ہوتا ہے، فہمیدہ ریاض نے بھی زندگی اپنے ڈھب سے گزاری اور اپنے انتخاب میں پر اعتماد رہیں۔ وہ تصوراتی و تخیلاتی دنیل کی باسی نہیں تھیں بلکہ اپنے انتخاب کے نتیجے میں پیش آنے والے حالات و واقعات کا مقابلہ حقیقت پسندانہ طریقے سے کرتی رہیں، مجھے تو یوں بھی محسوس ہوتا ہے کہ ایک مشہور وجودیت پسند فلسفی کیرکیگارڈ کی طرح فہمیدہ ریاض نے بھی روایتی حد بندیوں سے منحرف ہو کر ”جست“ لگائی اور دنیا کے روایتی اور مصنوعی ضابطوں کے خلاف احتجاج بلند کیا اور جبر مسلسل کے تسلسل کا حصہ نہیں بنیں

جسے میں توڑ چکی ہوں وہ روشنی کا طلسم
شعاع نور ازل کے سوا کچھ اور نہ تھا
(غزل۔ بدن دریدہ)

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبایئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2