مستنصر حسین تارڑ اور اوس میں بھیگا لمحہ


ان دنوں لاہور کے آسمانوں پر بارشوں کے دھنک رنگ لمحوں کی قطار اتری ہوئی ہے۔ ایسے ہی ایک بھیگے لمحے میں میری آنکھوں کے سامنے وہ مناظر کسی فلم کی طرح چلنے لگے جب میں پہلی بار مستنصر سر سے ملی تھی۔ ماڈل ٹاؤن پارک کی وہ دھند میں لپٹی صبح میں کیسے بھول سکتی ہوں جب میرے قدم میری ایک آرزو کی تکمیل میں انہی راستوں کی طرف چل پڑے جہاں سے تارڑ سر گزرتے ہیں۔ کتنا بلند بخت لمحہ تھا جب تارڑ سر پارک کے مین گیٹ سے اندر داخل ہوئے تھے۔

سر نے ماسک لگایا ہوا تھا لیکن میں انہیں پہچان گئی تھی۔ وہ واکنگ ٹریک پر آئے اور میں بغیر کچھ کہے ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ مجھے ان کے ساتھ چلنا بہت اچھا لگ رہا تھا۔ وہ لمحے کسی خوشبو کی طرح مجھے اپنی لپیٹ میں لے رہے تھے ان لمحوں کا فسوں تب ٹوٹا جب آپ اچانک سے رک گئے ساتھ ہی میرے قدموں نے بھی ان کی پیروی کی۔

”کیا آپ کو مجھ سے کچھ کام ہے“

تارڑ سر مجھ سے مخاطب تھے کیا میں اتنی خوش قسمت تھی۔ میں ہونقوں کی طرح سر کی طرف دیکھ رہی تھی۔ میرے الفاظ میرے اندر ہی دم توڑ گئے تھے تھوڑی ہمت کر کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اپنا مدعا بیان کیا

”میں نے لکھنا اور کتابیں پڑھنا چھوڑ دیا ہے۔ میں بہت بوڑھا ہو چکا ہوں۔“

یہ کہہ کر آپ مزید تیز چلنے لگے۔ سر کی اس بات پر مسکراہٹ نے بے اختیار میرے ہونٹوں کو چھو لیا۔ میں رکی نہیں۔ میں اسی تیزی سے ان کے ساتھ چلنے لگی۔

”تم باز نہیں آؤ گی“
وہ ایک بار پھر گویا ہوئے۔
”میں نے نفی میں سر ہلا دیا۔
”جانتی ہو،میں واک کے بعد چائے کہاں بیٹھ کر پیتا ہوں۔“
میں نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں بتا دیا۔
”میرا انتظار کرو،میں ٹریک مکمل کر کے آتا ہوں“

جنوری کی وہ دھند بھی میرے ساتھ مسکرانے لگی تھی۔ پارک میں برائے نام لوگ تھے۔ میں آہستہ آہستہ چلتے ہوئے جھیل کے پاس آ گئی۔ سخت سردی میں وہ مصنوعی جھیل ڈھیر سارے پھولوں سے بھر گئی تھی۔ میرا دل چاہا کہ میں خوشیوں بھرے ان تمام پھولوں کو چن لوں لیکن وہ پھول تو اس لمحے شاید میرے وجود کے ساتھ ہی لپٹ گئے تھے۔ میں ان تمام پھولوں کے ساتھ دھند کا ہاتھ تھامے پارک کی کنٹین کے پاس پہنچ گئی۔ جہاں اوس میں بھیگی چند خالی اور چند بولتی کرسیاں میری منتظر تھیں۔

میں ایک خالی کرسی پر بیٹھ گئی۔ سامنے موجود اوس میں بھیگا میز بھی میرے پاگل پن پر مسکرا رہا تھا۔ سردی میں مزید شدت آ گئی تھی۔ میں نے آسمان کی طرف دیکھا تو بادلوں نے آس بھرے چند قطروں کو میرے اوپر پھینکا اور ایک طرف ہو گئے۔ میرا پورا وجود سر کی ایک آہٹ کا منتظر تھا۔ میں اوس میں بھیگی ہوئی ایک خالی ٹریک پر چلنے لگی۔ وقت کا شمار کرنا میں نے چھوڑ دیا تھا۔ گھڑی کی طرف دیکھتی تھی تو احساس ہوتا تھا کہ گزرتے وقت کی رفتار بہت تیز ہو گئی ہے۔ میرے سامنے موجود آس و امید کا درخت بھی اب مرجھانے لگا تھا کہ اچانک سے ایک آہٹ نے اس درخت کو پھر سے ہرا بھرا کر دیا۔ سر تارڑ واک کر کے میری اوس میں بھیگی اسی کرسی کے پاس آ گئے تھے۔ جو ان کے آنے سے پہلے خاموش تھی لیکن اب چہکنے لگی تھی۔

”تم ابھی تک گئی نہیں“
اس بار ان کا لہجہ کچھ شرارتی ہو گیا تھا۔
”نہیں میں بھی آپ کی طرح بہت ضدی ہوں“
میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
”آ جاو پھر میرے ساتھ“

میں ایک بار پھر ان کے قدم سے قدم ملا کر چلنے لگی۔ اب کی بار بادلوں نے میرے وجود پر کچھ شوخ رنگوں کا پانی پھینکا تھا۔ میں ان رنگوں میں بھیگتی ہوئی اس مخصوص گوشے میں آ گئی جو یارانٍ تارڑ کا گوشہ تھا۔ جو ان کی محبوب ہستیوں کا گوشہ تھا۔

تارڑ سر نے بہت اپنائیت سے مجھے متعارف کروایا۔ اب کی بار میرا وجود بھی بہت قیمتی ہو گیا تھا۔
”اس لڑکی نے آپ کا بہت انتظار کیا ہے“

ان قیمتی لوگوں میں سے کسی نے کہا تھا اور تارڑ سر کا وہ جملہ میں کیسے بھول سکتی ہوں جب انہوں نے براہ راست میری طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

”میں نے بھی کسی وقت فیض صاحب کا ایک تپتی دوپہر میں ایسے ہی انتظار کیا تھا۔ اس انتظار نے مجھے کیا کچھ دے دیا“

اور کوئی میرے دل سے پوچھتا کہ اس انتظار نے مجھے کیا کیا دے دیا ہے،

میں نے اپنا مسودہ انہیں تھما دیا۔ وہ ورق گردانی کرنے لگے اور ساتھ ساتھ مجھے لکھنے کے حوالے سے کچھ مشورے دینے لگے۔ ان کے توصیفی جملے کسی خوشبو کی مانند میرے آس پاس بکھرنے لگے۔ وہ لمحے ایک خواب کی طرح اب بھی میرے ساتھ ساتھ ہیں۔ میں تارڑ سر سے جتنی بار بھی ملوں گی۔ اس پہلی ملاقات سے شوخ رنگ مجھے کہیں نہیں ملیں گے۔ وہ اوس میں بھیگا لمحہ آج بھی ماڈل ٹاؤن پارک کی اسی کرسی پر موجود ہے جس کے رنگ کبھی پھیکے نہیں پڑیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments