خود اپنی عدالت میں


زندگی جیسے کوئی کھلونا ہو، جس کا جب دل چاہا استعمال کیا اور پھر دوسروں کے سپرد کر دیا۔ جس چیز پر خود کا حق رہا اور ہے آج ہم نے اس کی ساری ذمہ داری دوسروں کے سپرد کی ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج لوگ خود کے بجائے دوسروں کی عدالتوں میں کھڑے ہو کر اپنے ہر ایک فیصلے اور کام کی صفائیاں پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہر روز دوسروں کی لگائی ہوئی کچہری میں حاضری لگا لگا کر ہم خود کو ان کا قیدی بنا لیتے ہیں۔

لوگ بھی کتنے عجیب ہیں نہ، خود کو خود کی عدالت میں کھڑا کر کر اپنی غلطی کو درست کرنے اور اپنے کیے پر خود کو غلط یا سہی قرار دے کر وہ کام دوبارہ نہ کرنے کا تہیہ کرنے کے بجائے دوسروں کی عدالتوں میں خود کو خوشی خوشی پیش کرنے کو فوقیت دیتے ہیں۔ اکیسویں صدی میں رہتے ہوئے بھی شعور کی کمی کم لوگوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ ایک نظر ملک میں دہرائے تو معلوم ہو گا کے آج کل لوگوں کی ترجیحات اک دوسرے سے مختلف ہیں اور یہ معلوم ہونے کے باوجود بھی ہم کسی کو الگ رائے رکھنے پر چھوڑتے نہیں ہیں۔

یہاں سوال آتا ہے کیوں اور اگر کیوں بھی تو دوسرا کیوں اختلافات آنے پر یا مختلف رائے کو زیادہ پذیرائی ملنے پر اپنی رائے سے منہ پھیر لیتا ہے؟ کیونکہ ہم خود کو دوسروں کی عدالتوں میں پیش کر کر دلی تسلی اور اطمینان حاصل کرنا چا رہے ہوتے ہیں اور اگر وہ نہ ملے تو ہم ان کے کہے پر اپنی رائے اور سوچ سے دو میل دوری اختیار کر لیتے ہیں ایسے جیسے کے ہماری سوچ کوئی وبا ہو۔

ہر انسان خود کو بہتر جانتا اور پہچانتا ہے، اپنی کمزوریوں اور طاقتوں سے با خبر ہوتا ہے، اسے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سہی اور غلط کیا ہے اور وہ کہا کھڑا ہے مگر وہ ان سب سے منہ پھیرے رکھتا ہے کیونکہ اس میں خود کا سامنا کر کے خود کی عدالت میں کھڑا ہونے کی ہمت نہیں ہوتی اور یہ تب ممکن ہوتا ہے جب اس کا ضمیر اس کے کسی کیے سے مطمئن نہ ہو اور بار بار اس سے سوال کر رہا ہو۔ چونکہ انسان اتنا بہادر نہیں ہوتا کہ اپنے ضمیر کے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دے یا اس کا سامنا کر سکے تو وہ آسان راستے کی تلاش میں نکل پڑتا ہے اور ایسے میں اوروں کا قیدی بن جاتا ہے اور ان کا کہا مانتا ہے تاکہ خود کو تسکین پہنچا سکے۔

ایسے کئی لوگ ہیں پھر چاہے وہ کش بھی شعبے یا سوشل کلاس سے تعلق رکھتے ہوں، کتنے ہی پڑھے لکھے کیوں نہ ہوں۔ ہم خود کو وہ مقام اور مرتبہ دیتے ہی نہیں جس کے ہم حق دار ہیں اور ایسے میں دوسروں سے پوری امید لگائے رکھتے ہیں کے وہ ہمارا احترام کریں، اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے ٹیلی بھی آپ خود جلائے اور پھر امید رکھیں کے آگ بھی نہ لگے۔ اپنی خود کی عدالت مہینے میں ایک دو بار لگا کہنا بہتر ہے کسی کی عدالت میں روز پیش ہو کر خود کو لاچار محسوس کرنے سے۔

کبھی کبھی خود سے ملنا باقی تمام لوگوں سے میل جھول سے بہتر ہوتا ہے لہذا کبھی خود کی عدالت میں حاضری لگوا کر ضمیر کی جانچ پڑتال کرنا کے جاگ بھی رہا ہے یا مر گیا ہے لازمی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments