ایک امام مسجد کی تصویریں اور طالبہ کا استحصال کرنے والا پروفیسر


وہ فعل گویا دین کا علم اٹھانے والوں کے لیے شمع ہے جس کی طرف سبھی لپکتے ہیں۔ جب سبھی اس حمام میں بے لباس ہو رہے تھے تو انہوں نے سوچا ہو گا کہ ہم اگر تن ڈھانپے رہے تو اس قبیل سے ہمیں نکال باہر کیا جائے گا۔ لائل پور کے کسی امام مسجد (کیا امام ایسے ہوتے ہیں ) کے میموری کارڈ سے لڑکوں اور لڑکیوں کی نازیبا تصاویر برآمد ہوئی ہیں۔ شاید ہمارے اور تمھارے نزدیک وہ تصاویر نازیبا ہوں، ان امام صاحب کے لیے تو تفریح کا سامان تھیں وہ تصویریں۔

وہ صاحب نمازیں بھی پڑھے اور پڑھائے جاتے تھے اور ساتھ میں یہ فعل پسندیدہ بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔ یہ عوام، یہ امام، یہ امیر، یہ کبیر کیا غذا کھا رہے ہیں جو سوچ کسی اور نہج پے پہنچتی ہی نہیں۔ اس قدر بھی کیا مغلوب ہونا، مگر لوگ ہیں کہ ہوئے جاتے ہیں۔ کوئی تو مسیحا آئے جو اس قوم کا علاج کرے۔ یہاں تو جو رفو گر ہیں ان کے متعلق حضرت میر کیا خوب فرمایا کرتے تھے۔

میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں

یہ ایک نوحہ ہے جو مسلسل پڑھا جائے گا کہ اور کوئی چارا ہی نہیں۔ سدھار کے آثار ابھی افق پر نمودار نہیں ہوئے۔ تب تک صدا دیتے رہنا ہے۔ یہ تو ایسے واقعات ہیں جو میڈیا میں رپورٹ ہو جاتے ہیں جو نہیں ہوتے ان کا شمار کیا۔ اس دل دل کی گہرائی کا اندازہ کوئی نہیں کہ لوگ کس قدر اس میں دھنسے ہوئے ہیں۔ ہمارا شکوہ صرف مساجد کے اماموں سے تو صرف نہیں ہے۔ شکوہ تو ہم جامعات کے ان پروفیسر حضرات سے بھی کرتے ہیں جو طالبات کا استحصال کرنے سے ذرا نہیں چونکتے۔

گورنمنٹ کالج میں تب تیسرا سال تھا، ایک مضمون کا پرچہ نہیں ہونا تھا کہ پریکٹیکل کام تھا اور استاد محترم نے وائیوا (اس لفظ کا اردو میں نہیں معلوم ترجمہ کیا ہو گا، یاسر پیر زادہ ایسے لفاظ کا ترجمہ کرنے میں مہارت رکھتے ہیں، اگر آپ ترجمہ جاننا چاہیں تو ان سے رابطہ کر لیں ) لینا تھا۔ ہر کوئی اپنی باری پر اندر جاتا اور سوالات کے جوابات دے کر پلٹ آتا۔ ایک لڑکی کو ہم جانتے تھے کہ وہ شام کی کلاسز لیتی تھی جب کہ ہم صبح کو۔

مذکورہ استاد دونوں کلاسز کو ہی وہی مضمون پڑھا رہے تھے۔ ہمارے بعد شام کی کلاسز لینے والوں کا وائیوا تھا اور وہ بھی ہمارے ساتھ ہی ڈیپارٹمنٹ میں موجود تھے۔ ہم تو کام نپٹا کر ایک کلاس روم میں دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ شام کو کلاسز لینے والوں کی بھی باری آ گئی۔ وہ لڑکی جب وائیوا دے کر آئی تو اس کے چہرے کا رنگ عجب طور سے پھیکا پڑ چکا تھا حالاں کہ رعنائی میں وہ حوروں کو بھی مات دیتی تھی۔ سب یہی سمجھ رہے تھے کہ شاید استاد نے سوالات مشکل پوچھ لیے ہیں اور جوابات نہ دے سکنے کی وجہ سے چہرہ اس قدر اداسی کی لپیٹ میں ہے۔

مگر وجہ کچھ اور تھی جو تڑپا دینے کو، ہلا دینے کو، تھرتھرا دینے کو کافی تھی۔ لڑکے اور اور لڑکیاں تو اپنی باتوں میں دوبارہ محو ہو گئے مگر وہ کلاس کے ایک کونے میں گم سم بیٹھ گئی۔ وقت گزرتا رہا، لڑکے لڑکیاں کلاس میں آتے جاتے رہے مگر اسے اردگرد کی خبر کچھ نہ تھی کہ سر جھکا ہوا تھا۔ وہ تو اپنے خیالات سے اذیت اٹھا رہی تھی۔ جب سب کلاس سے چلے گئے تو ہم ساتھ والے بینچ پر جا بیٹھے۔ اس لڑکی کو نام سے مخاطب کیا۔

اس نے سر اٹھایا۔ چہرے پہ ملال تھا۔ آنکھوں میں نمی تھی۔ کیا ہوا، پریشان کیوں اس قدر ہو؟ اس نے بولنا شروع کیا۔ اس کی آواز بیٹھتی گئی اور ہمارا دل۔ وہ کہنے لگی کہ جب میں استاد کے آفس میں داخل ہوئی تو اس نے بیٹھنے کو کہا۔ وہ مسکرا کر میری طرف دیکھ رہا تھا اور مسکراہٹ سے بھی شیطنیت مترشح تھی۔ وہ کہنا لگا کہ میں تمھیں پسند کرتا ہوں اور تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے اسے بتایا کہ سر میری منگنی ہو چکی ہے اس لیے میں آپ سے شادی نہیں کر سکتی اور آپ کی عمر بھی بہت زیادہ ہے (قریباً دونوں کی عمروں میں دو عشروں کا فرق ہو گا) ۔

سوچ لو اگر انکار کرو گی تو نچلا گریڈ دوں گا۔ سر میں نے آپ کو اپنی مجبوری بتائی ہے، میں آپ سے شادی نہیں کر سکتی۔ تم آفس چھوڑ کر جا سکتی ہو، لیکن دھیان رہے، اگر کسی کو یہ بات بتائی تو مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔ وہ نہ جانے کس کلیجے سے یہ بات ہم کو سناتی رہی اور ہم نہ جانے کس دل سے سنتے رہے۔ بات کے اختتام پر صرف دبی دبی سی ہچکیاں تھیں جیسے کسی راکھ سے دھواں اٹھ رہا ہو۔ سسکیاں جب تھمیں تو ہم نے کہا کہ چلو ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ سے شکایت کرتے ہیں کہ آخر ایسا سلوک۔

مگر اس نے انکار کر دیا۔ کہنے لگی کیا خبر وہ نچلا گریڈ نہ دے۔ اور ویسے بھی جب شکایت کروں گی تو میرے جینا حرام ہو جائے گا۔ بات جب کمیٹی تک جائے گی تو وہ اس الزام کا ثبوت مانگیں گے۔ اور تم جانتے ہو کہ ثبوت میرے پاس کچھ بھی نہیں، سوائے میرے آنسوؤں کے۔ وہ بے گناہ قرار پائے گا اور میرے لیے ڈگری مکمل کرنا مشکل ہو جائے گا اور میرے کردار پہ بھی لوگ انگلیاں اٹھائیں گے، بات تو سچ تھی مگر بات تھی رسوائی کی۔ کچھ باتیں مزید ہوئیں اور اس کے بعد وہ اپنے ہاسٹل کو چلی گئی اور ہم نے اپنی راہ لی۔ جب رزلٹ آیا تو استاد نے اپنا کہا سچ کر دکھایا۔ اس نے سچ میں نچلا گریڈ ہی دیا تھا تا کہ سمیسٹر کا رزلٹ خراب ہو جائے۔

ایک وضاحت: ایک مضمون کے نمبروں کو گریڈز میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ گریڈ اے، گریڈ بی، سی، ڈی اور ایف۔ ایف گریڈ کا مطلب فیل اور اے گریڈ کا مطلب اچھے نمبر۔ اور استاد نے اس لڑکی کو ڈی گریڈ دیا کیوں کہ اگر وہ ایف گریڈ دیتا تو اگلے سال وہ مضمون کا امتحان دوبارہ دے کر اے گریڈ لے لیتی۔ مگر استاد نے ڈی گریڈ دے کر خوب کدورت دل کی نکالی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments