ایک خواب جو میں اکثر دیکھتا ہوں


کہتے ہیں خواب آپ کی سوچ کی عکاسی ہوتے ہیں۔ جو کچھ آپ دن کے اجالے میں سوچتے رہتے ہیں۔ وہی رات کو آپ کے سپنوں میں آ جاتے ہیں۔ میرے ساتھ کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ جب ترقی یافتہ ممالک کی طرف دیکھتا ہوں۔ تو فوراً اپنے ملک کا خیال آتا ہے۔ میرے ملک میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کو آزاد ہوئے 73 سال ہو گئے۔ کئی ممالک ہم سے بہت بعد آزاد ہوئے مگر وہ بہت ترقی کر گئے اور ہم بہت پیچھے رہ گئے۔ میں اکثر خواب میں دیکھتا ہوں پاکستان کے تمام مرکزی رہنما اور تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں ملک کی ترقی اور سربلندی کے لئے اپنے اپنے منشور بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف پاکستان کی ترقی کا منشور سامنے رکھتے ہوئے اکٹھے ہو گئے ہیں۔

پاکستان کے تمام ادارے ان کی مدد کے لیے موجود ہیں۔ پاکستان میں ہر طرح کے جلسے جلوس پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ سب لوگ مل جل کر ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سب جماعتیں سبز ہلالی پرچم کے نیچے ایک ہو کر کام کریں گی۔ کوئی جماعت کسی کی ٹانگیں نہیں کھینچے گی۔ ملک کی تقدیر بدل کر رکھ دیں گے۔ لیکن یہ خواب دیکھنے کے بعد جب میری آنکھ کھلتی ہے۔ اور جب میں اخبارات کا مطالعہ کرتا ہوں۔

تو پھر وہی الزامات نفرتیں جلسے جلوس احتجاج پڑھنے کو ملتا ہے۔ وہ حسین خواب میری آنکھوں کے سامنے چکنا چور ہو جاتا ہے۔ یوم آزادی کا دن قریب ہے۔ 73 سال گزر گئے ہم نے ان گزرے سالوں میں کیا کھویا اور کیا پایا۔ وطن عزیز کا ایک بڑا حصہ ہم سے الگ ہو گیا اور جو وطن ہمارے پاس موجود ہے۔ اس کی ہم سب نے مل جل کر حالت یہ کر دی ہے۔ یوم آزادی پر اگر بچے ضد کریں گھر کی چھت پر بڑا سا قومی پرچم لگانا ہے۔ تو گھر کا سرپرست اس سوچ میں پڑ جاتا ہے۔

میں تین سو روپے کا جھنڈا خریدوں یا بچوں کے لئے شام کا راشن۔ جب اتنے سال گزر جانے کے بعد ہمارے ملک کی حالت یہ ہو۔ اور ہم پھر بھی نہ سمجھیں۔ ہر کسی نے اتنے لمبے لمبے منشور اٹھائے ہوئے ہیں لیکن کوئی ایک سیاسی، مذہبی جماعت بھی اپنے منشور پر عمل نہیں کر رہی۔ پاکستان ایک ایسا اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ جس میں نہ اسلام ہے اور نہ جمہور۔ نام نہاد جمہوری جماعتیں خود جمہوریت کی الف ب سے بھی واقف نہیں۔ کسی بھی جمہوری جماعت میں عام آدمی کے لیے کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔

تمام جمہوری اور مذہبی جماعتیں شخصیات کے ارد گرد گھوم رہی ہیں۔ سب اپنے اپنے اثاثے بڑھاتے جا رہے ہیں۔ جبکہ عوام کا جینا دو بھر ہو چکا ہے۔ پاکستان اس وقت اس نہج پر پہنچ چکا ہے۔ جہاں پر عوام کا اس نظام سے بغاوت کا سوچ سکتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد پاکستان کو کوئی ایسا راہنما نہیں ملا جو اس ملک کو تعمیر و ترقی کی طرف لے کے جاتا گزشتہ 73 سالوں میں میں سب سے زیادہ عرصہ ملک میں آمریت رہی۔ جو باقی بچا اس میں نام نہاد جمہوریت پسندوں نے اپنے اثاثے بنانے شروع کر دیے۔

اگر ہمت کر کے قیام پاکستان کے بعد جتنی بھی حکومتیں آئیں۔ ان سب کا آڈٹ کرنے کے لئے ایک Truth کمیشن بنا دیا جائے اور یہ دیکھا جائے کسی بھی حکومتی عہدیدار کے حکومت میں آنے سے پہلے اثاثے کتنے تھے اور اب کتنے ہیں۔ سب کچھ پتہ چل جائے گا لیکن میرے پیارے وطن میں ایسا ہوگا نہیں۔ اس وطن میں ہر معاملے پر مٹی ڈالو والی پالیسی اپنائی جاتی ہے۔ اس وطن میں اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے اگر کوئی ایک روٹی چوری کرتا ہے تو اس کو پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے۔

لیکن جو نام نہاد قومی رہنما اربوں روپے لوٹ کر چلے گئے ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ بلکہ قومی خزانے پر ان کی سکیورٹی پر کروڑوں روپے خرچ کر کے بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ اس وطن میں غریب آدمی کی کوئی ضمانت دینے والا نہیں۔ لیکن بڑے بڑے ڈاکوؤں کی ضمانت منظور کر لی جاتی ہے۔ اس وطن میں غریب آدمی کو اپنا چھوٹا سا کاروبار کرنے کے لیے کوئی بھی بینک بلا سود قرضہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اتنی اتنی کڑی شرائط لگا دی جاتی ہیں۔

جو کسی بھی غریب آدمی کے لئے پوری کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن جو بڑے بڑے ڈاکو پہلے سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا چکے ہیں۔ ان کو ہمارے بینک ان کے گھر میں جاکر قرضہ دیتے ہیں۔ ہمارے حالات کب بدلیں گے۔ کب ہوگا اس ملک میں عوام کا راج۔ آخر میں صرف اتنا عرض کروں گا۔ جس ملک میں 73 سال کے بعد بھی یوم آزادی پر ایک شہری اپنے چھوٹے سے گھر پر تین سو روپے کا جھنڈا نہ لگا سکے۔ اس ملک پر حکمرانی کرنے والوں کو اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔

خدارا بس کر دیں اس کو لوٹنا بہت لوٹ چکے۔ اس کو اور کتنا لوٹو گے۔ اب اس کو معاف کر دو۔ اب اس وطن میں بسنے والے 22 کروڑ لوگوں کو اور کتنی سزا دو گے۔ کچھ تو اپنی آخرت کا خیال کرو۔ جب مر جاؤ گے خالی ہاتھ اٹھائے جاؤ گے۔ خدارا اس پر رحم کرو سب مل کر میرے اس حسین سپنے کو حقیقت کر دو۔ سب اس ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے اکٹھے ہو جاؤ۔ سب لسانیت اور صوبائیت سے باہر نکلو۔ صرف پاکستان زندہ باد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments