خود کشی اور لفظوں کی مسیحائی


میں نے 1977 میں جب کینیڈا کی میموریل یونیورسٹیMEMORIAL UNIVERSITY میں اپنی نفسیات کی تعلیم شروع کی تو مجھے بہت سے ممتاز اساتذہ کرام کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ کچھ پروفیسر دوائوں سے علاج کرتے تھے اور کچھ سائیکوتھراپی PSYCHOTHERAPY کے ماہر تھے۔ یوں تو میں نے سب طریقہِ علاج سیکھے لیکن میں انگلستان سے آئے ڈاکٹر یوجین وولف DR EUGENE WOLF سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ میں نے ڈاکٹر وولف سے درخواست کی تو انہوں نے مجھے اپنے شاگرد کے طور پر قبول کر لیا۔ یہ بات میرے لیے بہت خوشی اور فخر کا باعث تھی۔

ایک دن جب ڈاکٹر وولف پہلی دفعہ ہم طالب علم ڈاکٹروں سے ملے تو انہوں نے بتایا کہ ان سے انٹنسیو کیرINTENSIVE CARE کے وارڈ کے انچارج ڈاکٹر نے ایک مریض کے سلسلے میں رجوع کیا ہے۔ اس مریض نے خود کشی کرنے کی کوشش کی تھی۔ ڈاکٹر وولف نے مشورہ دیا کہ وہ اس مریض کا انٹرویو سب طالب علموں کے سامنے کرنا چاہتے ہیں۔ ہم سب نے اس بات سے انفاق کیا کیونکہ وہ ہم سب کے لیے لفظوں کی مسیحائی سیکھنے کا بہترین موقع تھا۔

انٹرویو کے وقت ایک نرس ایک دراز قد‘ سرخ بالوں اور داڑھی والے مرد بل BILL کو لے آئی۔ ڈاکٹر وولف کھڑے ہوئے، خود کو اس سے متعارف کروایا، ہاتھ ملایا اور بل کو اپنی ساتھ والی کرسی پر بیٹھنے کو کہا۔ وہ مریض خاصا محتاط لگ رہا تھا۔ ڈاکٹر وولف نے اسے اپنی کہانی سنانے اور ہسپتال آنے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ وہ پیشے کے لحاظ سے ایک فارمسسٹ PHARMACIST  تھا اور اس نے خود کشی کے لیے بڑی احتیاط سے دوا کی مقدار کا تعین کیا تھا۔ سو جب ایک دن اس کی بیوی شیلا SHELLA اپنی بہن سے ملنے دو دن کے لیے گھر سے جانے والی تھی تو اس نے دوا کی بڑی مقدار کھانے اور خود کشی کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ شیلا شام پانچ بجے گھر سے نکلی اور اس نے ساڑھے پانچ بجے دوا کھا لی۔ اتفاق سے شیلا اپنا پرس گھر بھول گئی تھی۔ جب وہ پرس لینے کے لیے لوٹی تو اس نے بل کو بستر پر بے ہوش پایا۔ اس نے فوراٌ ایمبولنس کو بلایا اور اسے جلد از جلد ہسپتال کے ایمرجنسی دیپارٹمنٹ میں پہنچا دیا گیا جہاں اس کے معدے کو صاف کیا گیا اسے انٹنسیو کیر میں داخل کیا گیا اور اسے ایک ماہرِ نفسیات ڈاکٹر وولف سے ملنے کا مشورہ دیا گیا۔

جب ڈاکٹر وولف نے بل سے پوچھا کہ وہ خود کشی کیوں کرنا چاہتا تھا تو اس نے جواب دیا کہ اس کی زندگی کلی طور پر ناکام زندگی ہے۔ اس نے کہا کہ اس کی زندگی اتنی ناکام ہے کہ اس کی مرنے کی کوشش بھی ناکام ہو گئی۔ بل نے بتایا کہ اس نے خود کشی کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا تھا کیونکہ وہ قائل ہو گیا تھا کہ اس کے جینے کو کوئی جواز باقی نہیں رہا تھا۔

ڈاکٹر وولف نے بل سے اس کی بیوی کے بارے میں پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ وہ بیس سال سے شادی شدہ تھا اور اسے پورا یقین ہو گیا تھا کہ اس کی بیوی اس سے محبت نہیں کرتی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ اس کی بیوی اس پر رحم کھاتی تھی اس لیے اس کے ساتھ رہتی تھی۔

اس انٹرویو کے آخر میں ڈاکٹر وولف نے بل سے کہا کہ وعدہ کرے کہ وہ چھ ماہ تک خودکشی کرنے کی کوشش نہیں کرے گا اور ہر ہفتے ان سے انفرادی‘ ازدواجی اور گروپ تھراپی کے لیے ملتا رہے گا۔ پہلے تو بل کافی دیر تک سوچتا رہا پھر یہ کہہ کر اس نے حامی بھر لی کہ مرنا تو اس نے ہے ہی اب نہ سہی چھ مہینے ٹھہر کے سہی۔

میں ڈاکٹر وولف کے انٹریو سے بہت متاثر ہوا کیونکہ انہوں نے بل کو نہ صرف خود کشی سے روک لیا تھا بلکہ چھ مہینے کی تھراپی کے لیے آمادہ بھی کر لیا تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر ڈاکٹر وولف اس کی جان بچانے میں کامیاب ہو گئے تو وہ لفظوں کی مسیحائی کا معجزہ ہوگا۔ اس انٹرویو کے بعد ایک دن میں ڈاکٹر وولف سے اکیلے میں ملا۔ تب انہوں نے مجھے اپنا تھراپی کا فلسفہ بتایا۔ اس دن مجھے پتا چلا کہ وہ ایک امریکی ماہرِ نفسیات ہیری سٹاک سالیوانHARRY STACK SULLIVAN کے شاگرد تھے۔ سالیوان نفسیاتی علاج کی ایک خاص روایتINTERPERSONAL SCHOOL کا بانی تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ انسانی تعلقات کی کشیدگی ذہنی پریشانی کا باعث بنتی ہے اور محبت بھرے اور ہمدرد رشتے انسانوں کو نفسیاتی طور پر صحتمند رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر وولف کا خیال تھا کہ لوگ خود کشی اس وقت کرتے ہیں جب ان کا جذباتی تعلق دوسرے انسانوں سے ٹوٹ جاتا ہے۔ ان کو یقین تھا کہ خود کشی سے بچانے کے لیے ایک محبت بھرا رشتہ ہی کافی ہے۔

تھراپی کے دوران ڈاکٹر وولف کی یہ خواہش تھی کہ بل اپنی بیوی سے اپنا محبت بھرا تعلق دوبارہ استوار کرے۔ جب بل اور شیلا تھراپی میں آنے لگے تو ہمیں ان دونوں کی زندگی کو بہتر طور پر جاننے کا موقع ملا۔ بل نے ہمیں اپنے بچپن کے بارے میں یہ بتایا کہ جب وہ دو سال کا تھا تو اس کی ماں دوسرے بچے کی پیدائش کے وقت فوت ہو گئی تھی اور جب وہ تین سال کا تھا تو اس کے باپ نے دوسری شادی کر لی تھی۔ سوتیلی ماں کا رویہ بل کے ساتھ انتہائی تحقیر آمیز رہا کیونکہ وہ باپ بیٹے کے رشتے سے حسد کرتی تھی۔ بالآخر بل جب پانچ سال کا تھا تو اسے اس کی دادی کے ساتھ رہنے کو بھیج دیا گیا۔ پانچ سال کے بعد بل کی دادی کا بھی انتقال ہو گیا اور وہ واپس اپنے باپ اور سوتیلی ماں کا ساتھ رہنے آ گیا۔ بل جب کالج کی عمر کو پہنچا تو اس نے ہوسٹل میں رہنا شروع کر دیا اور کبھی لوٹ کر گھر واپس نہ گیا۔

ڈاکٹر وولف کا کہنا تھا کہ بل کو اسکی ماں کا پیار نہیں ملا جس کی وجہ سے وہ جذباتی طور پر کسی کے قریب نہیں ہو پاتا اور ہر کام کو جذبات سے عاری عقل کی کسوٹی پر پرکھتا ہے۔ اس کی ملاقات اپنی بیوی سے یونیورسٹی میں ہوئی تھی اور ان کا فلسفے اور سائنس کے موضوعات پر بحث کرتے بہت اچھا وقت گزرتا تھا۔ ان دونوں کی محبت جذبات کی بجائے نظریاتی ہم آہنگی کی وجہ سے تھی۔

بل کے مقابلے میں شیلا ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئی تھی جہاں اس کی پیدائش سے دو سال پہلے اس کے ایک بھائی کا انتقال ہو گیا تھا۔ شیلا کے والد کو لڑکے کی خواہش تھی۔ اسی لیے شیلا کی پیدائش کے بعد اس کے والد نے شیلا کو بیٹا سمجھ کر اس کی پرورش کی۔ چنانچہ وہ لڑکوں ہی کی طرح پلی ہوئی لڑکی تھی۔ یہاں تک کہ شیلا کو کپڑے بھی لڑکوں والے پہنائے جاتے۔ شیلا بہت ذہین بچی تھی۔ اس کے والد اس کو ہر جگہ اپنے ساتھ ساتھ رکھتے بلکہ کاروباری ملاقاتوں میں بھی شیلا ان کے ساتھ جاتی۔ شیلا نے یونیورسٹی سے سائنس کی ڈگری حاصل کی اور سائنس کی استانی بن گئی۔ شیلا ایک حقیقت پسند عورت تھی۔ وہ بالکل جذباتی نہ تھی۔ جب شیلا کی بل سے ملاقات ہوئی تو وہ اس بات سے بہت خوش ہوئی کہ اسے ایک اپنے جیسا سوچنے والا انسان مل گیا ہے۔

جب ڈاکٹر وولف کا شیلا سے انٹرویو ہوا تو شیلا کو یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ بل سمجھتا ہے کہ شیلا اس سے محبت نہیں کرتی۔ انٹرویو کے آخر میں شیلا نے ڈاکٹر وولف سے پوچھا کہ اب اسے کیا کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر وولف نے مشورہ دیا کہ وہ چند ماہ کے لیے اپنے جملوں کا آغاز I THINK کی بجائےI FEEL  سے کرے تاکہ وہ بل کے خیالات کی بجائے اس کے جذبات سے رشتہ قائم کرسکے۔ انہوں نے شیلا کو بتایا کہ بل کی ذہنی صحت یابی کے لیے ضروری ہے کہ بل کا شیلا سے مضبوط جذباتی تعلق قائم ہو۔ ڈاکٹر وولف کی خواہش تھی کہ شیلا بل کا جذباتی لحاظ سے خیال رکھے۔ شیلا اس انٹرویو سے بہت خوش ہوئی۔

اگلے چند ماہ ڈاکٹر وولف نے جوڑے کو یہ مشورہ دیا کہ وہ ہر ہفتے کی شام ڈیٹنگ DATING کے لیے جایا کریں۔ گھومیں پھریں‘کھنا کھانے ہاہر جائیں اور اکٹھے پیار محبت کے لمحات گزاریں۔

ڈاکٹر وولف کے مشوروں پر عمل کرنے سے بل کی ذات اور زندگی میں حیرت انگیز تبدیلی آئی۔ وہ ہنسنے اور مسکرانے لگا اور شیلا سے اس کے تعلق میں محبت کے رنگ بھرنے لگے۔

چھ ماہ بعد ڈاکٹر وولف نے ہم سب طالب علموں کے سامنے بل کا دوبارہ انٹرویو لیا تو اس نے ڈاکٹر وولف کا اسے ایک نئی زندگی دینے کا شکریہ ادا کیا جبکہ ڈاکتر وولف نے کسرِ نفسی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ یہ ان کا نہیں سائیکوتھراپی کا معجزہ ہے۔ ڈاکٹر وولف اور بل کے اس واقعے کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ کیا ایسا وقت بھی آئے گا کہ میں ڈاکٹر وولف کی طرح ایک ماہرِ نفسیات بن جائوں گا اور بل کی طرح ایسے مریضوں کی جانیں بچائوں گا جو زندگی سے مایوس ہو چکے ہوں گے۔

(جب ایک انسان کو کسی دوسرے انسان کی خوشی اور غم اپنی خوشی اور غم کی طرح عزیز ہو جائے تب ہم اسے محبت کہہ سکتے ہیں۔ ۔ ۔ ہیری سٹیک سالیوان)

ترجمہ: عظمیٰ محمود

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments