اکراہ نہیں اقرا


کہتے ہیں کہ کسی گاؤں میں ایک غریب آدمی تھا جس کوایک دفعہ رقم کی اشد ضرورت تھی۔ اس کا واحد اثاثہ ایک پرائز بانڈ تھا۔ پرائز بانڈ لے کروہ اپنے مرشد کے مزار پر چلا گیا۔ صاحب مزار اللہ سے ڈرنے والے عالم باعمل تھے مگر اب عقاب کا نشیمن زاغوں کے تصرف میں تھا۔ مزار پر ہر وقت بھنگ اور چرس پی کر نشے میں دھت رہنے والے مجرم ذہنیت کے حامل افراد نے ڈیرے لگا رکھے تھے۔ وہ بڑے خلوص نیت سے دعا مانگتا رہا کہ اس کا پرائز بانڈ نکل آئے۔

مزار سے واپسی پر اپنی جیب کی تلاشی لی تو پرائز بانڈ واقعی ہی نکل چکا تھا۔ اس کی جیب پرائز بانڈ سے خالی ہو چکی تھی۔ آدمی نے بصد احترام اپنے مرشد سے استدعا کی کہ اس کی بات سنی تو پوری گئی ہے مگر سمجھی بالکل بھی نہیں گئی۔ امت مسلمہ نے بھی اپنی الہامی کتاب کے ساتھ شاید یہی رویہ اپنا رکھا ہے۔ کتاب کا پہلا حکم تھا ”اقرا“ اور اسی کتاب میں بارہا کہا گیا ”لا ا کراہ“ ۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ”قرون اولی“ کے کچھ عرصہ بعد سے ہی ہمارا وتیرہ بن گیا ”اکراہ“ اور ”لا اقرا“ ۔ ہمیں سکھایا گیا تھا کہ ہم ہمیشہ اپنے علم میں زیادتی کی دعا مانگیں۔ مگر ہوا یوں کہ ہمارے ہی لوگوں نے ہماری زیادتی کے خلاف دعا مانگنا شروع کر دیں مگر ہمیں کبھی اس کا احساس تک نہ ہوا۔

ہمارے ہاں جمہوری نظام کچھ اس لیے بھی شاید زیادہ کامیاب نہیں ہوسکا کہ ہم اپنے گھروں میں ابھی جمہوری روایات کونہ ہی قائم کرسکے ہیں اور نہ ہی اپنے بچوں کی تربیت جمہوری خطوط پرکر رہے ہیں۔ ہمارا دین مشاورت کا دین ہے جبکہ ہمارا گھریلو نظام ایک عرصہ سے اس نعرے کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ :

نہ کوئی مشورہ نہ کوئی صلاح
بس اکراہ بس اکراہ

اس امت کے حالات میں اصل تبدیلی اس وقت آئے گی جب ہمارے خیالات تبدیل ہوجائیں گے اور ہم اپنے گھروں میں زور ”اکراہ“ پر نہیں ”اقرا“ پر دینا شروع کردیں گے۔

ہمارے بعض حکمرانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے دور میں شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے تھے مگر یہ بتانے سے گریز کیا جاتا ہے کہ اس دور میں عوام کو بھی پانی میسر تھا یا نہیں۔ شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی کیوں پیے رہے تھے۔ کیا پوری مملکت خداداد میں گھاٹ ایک ہی تھا۔ شیر میں بکری پر حملہ کرنے کی سکت ختم ہو چکی تھی اور بکری بھی اتنی نقاہت کا شکار تھی کہ بھاگ کر کہیں اور جا بھی نہ سکتی تھی۔ لوگ قلندر کی بات کے بغیر بھی پانی، پانی ہو رہے تھے اور کوساں میل دور سے پینے کا پانی ڈھو رہے تھے۔

جب باقی دنیا میں تاریخ بنائی جا رہی تھی تو ہمارے ہاں تاریخ لکھوائی جا رہی تھی۔ اگرچہ مورخ کو یاسیت کا دورہ پڑ رہا تھا مگر وہ لکھ رہا تھا کہ ”ظلم سبحانی کے دور میں انصاف کا دور دورہ تھا۔ اگرچہ درحقیقت ہر شخص“ بٹوارہ ”تھا۔ میرے خیال میں جو معاشرہ“ اقرا ”پر زور دیتا ہے وہاں تاریخ بنائی جا رہی ہوتی ہے اور جو معاشرہ“ اکراہ ”کا پروردہ ہوتا ہے وہاں تاریخ لکھوائی جا رہی ہوتی ہے۔ ظل الہٰی اور ظل سبحانی کا فریضہ تو یہ تھا کہ وہ قوم سے کہتے“ پڑھو ”مگر انہوں نے مورخ کو بھی یہ کہنا شروع کر دیا کہ“ لکھو ”۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ایسے مورخین کا لکھا ہوا آج تک کسی نے نہیں پڑھا۔ انہوں نے خود بھی نہیں پڑھا۔ آنے والی تمام نسلوں نے نوشتہ دیوار سے اندازہ لگایا کہ ظل الٰہی اور ظل سبحانی احساس کمتری کے مریض تھے اور ان کی واحد جگہ تاریخ کا کوڑے دان ہے۔

ایک شاعر نے کاتب تقدیر سے گلہ کیا تھا کہ اس کی چاہت کا مختصر موسم حصول رزق کی جدوجہد میں بیت گیا۔ امت مسلمہ کو بھی اپنے حکمرانوں سے یہی گلہ ہے کہ امت کے ”اقرا“ کا موسم حکمرانوں کے ”اکراہ“ کی نظر ہو گیا اور یوں امت ید بیضا کے نصیب سیاہی کی نذر ہو گئے اور پھر تاریکی چھٹ نہ سکی۔ امت کلام الہٰی کو بھولتی رہی اور ظل الہٰی کے احکامات پر جھولتی رہی۔

تاریخ صرف انہی لوگوں کو یاد رکھتی ہے جن کا اوڑھنا بچھونا ”اقرا“ ہے۔ خالق کائنات نے کہا میری کتاب کو پڑھو کیونکہ یہ سمجھنے اور غور و فکر کرنے کے لئے آسان ہے۔ کتاب الہٰی میں دین کے معاملے میں جبر کو شدت سے منع کیا گیا ہے تو دنیا کے معاملات میں جبر کیسے گوارا جا سکتا ہے۔ ہم نے کتاب خدا کا پہلا سبق بھلا دیا اور ”اکراہ“ سے پہلے لگا ہوا ”لا“ اڑا دیا اور ”اقرا“ کو بھلا دیا۔ بہت سے مسلم معاشروں سے ”لا“ اڑ کر کہیں اور جا چکا ہے اور مسلم دنیا کو آج بھی اس بطل جلیل کی تلاش ہے جو کھوئے ہوئے ”لا“ کو لاکر اس کا درست مقام دلا سکے۔

(کالم نگار نشتر میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کا حصہ ہیں اور آج کل منیجنگ ڈائریکٹر، چولستان ترقیاتی ادارہ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments