مہنگے اسکول ایک اسٹیٹس سمبل۔ پھر رونا کس با ت کا؟


ایک بار پھر اسکول کی مہنگی فیس کا رونا رویا جا رہا ہے، امیر عورتوں نے میاں کی آمدنی کے زعم میں اور سفید پوش والے گھروں کی خواتین نے اپنے زیورات بیچ کر اپنے تشنہ خوابوں کی تکمیل کے لیے بچوں کو ان مہنگے اسکول میں داخل تو کرا دیا مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات، گھر یا ٹیوشن میں پڑھائے بغیر گزارا نہیں اور ہر سال فیس بڑھوتی کے نوٹسز الگ۔

اتفاق سے میرا، تدریسی سفر سستی فیس والے اسکول سے مہنگی فیس والے اسکول پر ختم ہوا، مہنگی فیس والے اسکول اساتذہ کو بہتر تنخواہ کے عیوض ذہنی ازیت اور اسٹریس بونس میں دیتے ہیں، ان مہنگے اسکولز میں بچہ محض ایک کلائنٹ کی حیثیت رکھتا ہے جسے کسی طور ناراض نہیں ہو نا چا ہیے اس کی خوشنودی کے لیے ٹیچرز کو اپنے اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی گرومنگ پر لازمی توجہ دینی ہے، اپنے چہرے پر مسکان رکھنی ہے بچہ اگر ٹیچر کے ساتھ بد تمیزی کرے تو یہ ٹیچر کا قصور ہے اور اسے اپنے تدریسی عمل میں تبدیلی لانی ہوگی۔ ان اسکولز میں پاپولر ٹیچرز کو سرٹیفیکیٹ ملتا ہے، اور یہ وہ سارے اساتذہ ہو تے ہیں جن کی کلاسوں میں سب کچھ ہوتا ہے سوا ئے پڑھائی کے، امتحانی پرچوں کے سالانہ نتا ئج سے پہلے سبجیکٹ ٹیچرز کے لیے لازمی ہے کہ ہیڈ مسٹریس کو مارکس شیٹ دکھائے، ہیڈ مسٹریس پانچ چھ بچوں کے مارکس بڑھانے کے لیے کہتی ہے، اور مارکس کسی طرح نہ بڑھ سکیں تو زبانی، پروجیکٹ ورک، کلاس پریزینٹیشن یا ہوم ورک کے مارکس میں ردو بدل کر دیا جائے، صاف کہا جا تا ہے کہ والدین نے سارا سال فیس بھری ہے تو کیا اس دن کے لیے؟

یہ بات بھی ٹھیک ہے، لیکن ان مہنگے اسکولز میں سارا سال ایڈمیشن اوپن رہتے ہیں، (آپ چاہیں تو تجربہ کر سکتے ہیں ) بس سیشن کے آغاز سے آپ انہیں داخلہ فیس کے ساتھ ماہانہ فیس دے دیں، بچے کا ٹیسٹ لازمی ہے، اگر بچہ کسی بھی ٹیسٹ میں پاس نا بھی ہو تو بھی والدین کی یقین دہانی پر کہ وہ اس پر محنت کریں گے، بچے کا ایڈمیشن ہو جا تا ہے، اب ایسا بچہ ٹیچرز کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہوتا ہے، کہا جاتا ہے کہ اچھے بچوں کو تو ہر کوئی پڑھا لیتا ہے آپ کو اس بچے میں بہتری لانی ہے، بہتری لانا ایسا مشکل بھی نہیں، مارکس شیٹ پر بہتر رزلٹ والدین کے ہاتھ میں تھما دیا جاتا ہے، اچھا ان اسکولز کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہاں پر پڑھا ئی سالانہ امتحان سے دو ماہ پہلے ہی ہو تی ہے ورنہ سارا سال مختلف ایونٹس میں کلاس سے بچوں کی آدھی تعداد پریکٹس کرنے گئی ہو تی ہے۔ سال کے آٹھ مہینے ایکٹیوٹی بیس لرننگ ہوتی ہے اور آخری دو مہینے ٹیچرز کو سلیبس مکمل کرانے کی پریشانی شروع ہو جا تی ہے نتیجتاً بچوں کو بھی اسٹریس میں مبتلا کیا جا تا ہے اور بچے دے دھڑا دھڑ کاپیاں کالی کرتے ہیں۔ اب اتنا ڈھیروں کام ٹیچرز سے کہاں ٹھیک طرح چیک ہو سکتا ہے جب کہ وہ کاپیز کا ڈھیروں بوجھ گھر بھی لے جا تی ہیں، بچوں کو سوالات کے جوابات رٹوائے جا تے ہیں، یوں نازوں کے پالے بچے امتحان کے وقت عام گورمنٹ اسکول کے بچے کی طرح رٹا لگا کر پڑھ رہے ہو تے ہیں۔

سال میں دو مرتبہ والدین کے ساتھ اساتذ ہ کی میٹنگ ہو تی ہے جس میں امیر ترین گھرا نے کی بیگمات، بے چاری ٹیچرز کو مرعوب کرنے کی کوشش میں ماڈلز کو بھی پیچھے چھوڑ دیتی ہیں، شاید اپنے اسٹیٹس سے مرعوب کر کے وہ اپنے بچے کے لیے خاص رعائت لینا چا ہتی ہوں۔ میٹنگ ختم ہو نے کے بعد، ہیڈ سٹریس ٹیچرس کو بلا کر والدین کی عام شکایات بتا کر اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے انہیں ٹھیک ٹھاک ذلیل کرتی ہیں، اور اجتماعی انسلٹ کے بعد بند کمرے میں ان ٹیچرز کو بلا یا جا تا ہے جن کے خلا ف زیادہ شکایا ت آئی ہوتی ہیں۔

ان نازوں پلے بچوں کی بے چارگی اس وقت دیدنی ہو تی ہے جب اتنے مہنگے اسکول کے یہ بچے اسمبلی میں گرمیوں کی کڑی دھوپ میں گرم فرش پر اور سردیوں میں ٹھنڈے فرش پر بیٹھے اسکول کے چند بچوں کی presentation دیکھتے ہیں ہر قطار میں ایک ایک ٹیچر ملک الموت کے فرشتے کی طرح ان کے سروں پر ہو تی ہے، پھر بھی چند زہین بچے کوئی نہ کو ئی بہانہ کر کے سائے میں آ بیٹھتے ہیں۔

سیشن کے آغاز میں انتظامیہ والدین کو اسکول کا وزٹ بھی کرواتی ہے۔ بڑا سکول، بڑی کلاسز دیکھ کر والدین مطمعین لوٹتے ہیں، لیکن اکثر کلا سز میں بچے بتائی گئی تعداد سے بیس فی صد زیادہ بیٹھتے ہیں۔ ٹاپ فلور کی کلاسز انتہائی گرم ہوتی ہیں۔ اور یہ اے سی کے پلے بچے یونی فارم میں کسے پسینے میں شرابور ماں باپ کے مہنگے اسکول کی طمانیت کا عذاب اکیلے نہیں بھگتتے ایک طوفانِ بد تمیزی کر کے ٹیچر کو بھی اس بھگتان میں شریک کر لیتے ہیں۔ ان مہنگے اسکولوں میں داخل کروانے کی ایک وجہ انگریزی ہے، تو جناب انگریزی تو آپ کے بچے کو انگریزی ٹی وی پروگرام دیکھنے سے بھی آجا ئے گی لیکن کم از کم خراب تو نہ ہو گی۔ آپ کسی اسکول میں ہاف ٹائم میں وزٹ کر لیں آپ بچوں کی آپس میں بات چیت سن کر سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے۔ انگریزی تو کیا درست ہو گی اردو بھی بگڑ گئی۔

بعض والدین کسی بھی صورت میں اپنے بچے کی چھٹی نہیں کرواتے، لیکن اس کی سزا بچوں کو اس طرح ملتی ہے کہ کلاسز مدغم ہو جا تی ہیں اور معمول کی طرح پڑھائی نہیں ہوتی، یوں آپ کے بچے کا وہ دن مکمل طور پر ضائع ہو گیا۔

جن بچوں کا کلاس ورک، ہوم ورک نامکمل ہو تا ہے ان کے والدین کو نوٹس جاری کرنے کے بعد انہیں چھٹی کے بعد پڑھا ئی کے لئے روک لیا جاتا ہے، ٹیچرز اور بچہ دونوں تھکے ہو ئے، پڑھا ئی خاک نہیں ہوتی لیکن والدین کو یہ تاثر دیا جا تا ہے کہ کمزور بچوں پر ایکسڑا توجہ دی جا تی ہے۔ خدارا ان مہنگے اسکولوں کے جھا نسے میں نہ آئیں۔ زندگی میں کامیابی کا پیمانہ مہنگا اسکول نہیں، آپ کی توجہ اور تربیت ہے۔ انہیں کسی بھی اسکول میں ڈال دیں، آپ کو خود ان کی پڑھائی پر توجہ دینی ہو گی۔ آپ ٹیچرز سے اس کی توقع مت رکھیں کیوں کہ ان مہنگے اسکولز میں ٹیچرز غیر نصابی سرگرمیوں میں زیادہ مصروف رہتے ہیں اور جو وقت ملتا ہے اس میں وہ سوفٹ بورڈ ڈیکوریشن، ماہانہ ٹیسٹ کی اسکورنگ اسمبلی پریزینٹیشن وغیرہ وغیرہ میں اپنی صلاحیت اورانرجی ضائع کر رہے ہو تے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).