گھریلو عورت اور ویمن ایمپاورمنٹ


دسترخوان انواع و اقسام کے کھانون سے سجایا جا رہا ہے افطاری کے لئے پورا گھر تیار بیٹھا ہے۔ افطاری کا وقت ہوتا ہے سب افطاری کرتے ہیں اور پھر فارغ ہو کر نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں۔ کوئی اس بات پر غور ہی نہیں کرتا کہ دسترخوان کو مختلف قسم کے کھانوں سے سجانے والی عورت ہی دسترخوان پر موجود نہیں ہے۔ اس عورت کی افطاری تو کچن میں ہی ہوگی۔ سارا دن روزہ کی حالت میں محنت کرنے والی خاتون کے لیے اسی گھر کے دسترخوان میں اس کی جگہ موجود نہیں۔ اور محنت کرنے والی خاتون کی کمی محسوس کرنے والا کوئی نہیں۔

اس وجہ سے کہ یہ ہماری زندگی میں کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ ایسا تو ہم دیکھتے رہتے ہیں۔ اکثر لوگ جو اس تحریر کو پڑھیں گے تو وہ میری بات سے اتفاق نہیں کریں گے کیونکہ ان کے گھروں میں ان کی والدہ ان کے ساتھ دسترخوان پر موجود ہوتی ہیں مگر یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ان کا گھر معاشرہ نہیں ہے بلکہ معاشرے کا ایک حصہ ہے اور آج کل کے اس معاشرے میں ایسے کئی گھرانے موجود ہیں اور یہاں عورت/ ماں کی غیر موجودگی صرف دسترخوان تک محدود نہیں ہے اگر ہم اپنی زندگی کے اہم معاملات بھی دیکھیں تو ان میں بھی ہماری ماں اکثر غیر اہم اور غیر موثر ہی ہوتی ہے میں یہ ہرگز نہیں کہتی کہ ہر فیصلہ عورت کی رائے کے مطابق ہوں مگر ہر فیصلہ کرنے میں اس کی رائے کی اہمیت تو ضرور ہو جن بچوں کو پیدا کرنے کے لیے وہ قبر کے منہ تک جا پہنچی ہے ان بچوں کی تعلیم اور زندگی کے فیصلوں میں کم از کم اس کے مشورے کو بھی اہمیت دی جائے کیا ویمن ایمپاورمنٹ صرف یہی ہے کہ عورتیں نوکریاں کریں گھروں سے باہر نکلے نہایت چست اور نازیبا لباس پہنے اور اگر ویمن ایمپاورمنٹ ہماری سوچ میں یہ ہے تو ہماری نہایت غلط سوچ ہے۔

یہ ویمن ایمپاورمنٹ کا جو تصور آج ہمارے ذہنوں میں پیدا کیا جا رہا ہے نہایت تباہ کن ہے عورت گھر کی چار دیواری میں بھی ایمپاور ہو سکتی ہے اگر گھر کے دسترخوان میں اس کی نشست ہو گھر کے اہم فیصلوں میں اس کے مشورے کی اہمیت ہو گھر میں اس کی عزت و وقار ہو اگر آج ہم اپنے گھر کا ماحول درست کریں گے اور عورتوں کو عزت و اہمیت دیں گے تو یقیناً معاشرہ درست ہو جائے گا ہمارے معاشرے کو بڑی گہری نگاہ سے دیکھنے والا افسانہ نگار سعدت حسن منٹو جسے پاگل اور نفسیاتی مریض تصور کرتے ہیں، وہ کبھی سچا نہ بن پائے گا اگر گھروں میں عورت کی عزت ہو گی مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ آج تک اس کی معاشرہ پہ لکھی ایک بھی تحریر کو ہم اسے پاگل سمجھنے کے باوجود بھی جھٹلا نہیں پائے۔ معاشرے کی بہت ساری خوفناک بیماریاں عورتوں کو بنیادی حقوق فراہم کرنے کے ساتھ ہی ختم ہو سکتی ہیں اگر ہم اپنے ذہنی مفلوج پن کو دور کرکے بنیادی حقوق کی فراہمی شروع کر دیں تو یقینا منٹو کی تحریروں پر تنقید کرنے کے بھی قابل ہو سکیں گے۔ آج ہمارے معاشرے کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم معاشرتی مسائل کو بخوبی جانتے ہیں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں مگر ہم صرف ان پر بحث کرتے ہیں۔

ان مسائل پر تبصرہ کرتے ہیں حالانکہ ضرورت انہیں حل کرنے کی ہے اللہ تعالی ہم سب کو معاشرتی مسائل پر بحث کرنے کی بجائے ان کا حل نکالنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).