ایجادات جن کی ایجاد اتفاقیہ ہوئی


کہتے ہیں ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے مگر اس مضمون کو پڑھنے سے قارئین کو اندازہ ہو گا کہ دراصل ایجاد ضرورت کی ماں ہوتی ہے۔ یعنی ایک دفعہ ایجاد ہو گئی اور پھر اس کی ضرورت کا احساس انسان کو ہوا۔ اس کی تازہ مثال موبائل فون ہے۔ اس وقت دنیا کی آبادی سات بلین ہے اور شاید اس وقت پانچ بلین فون استعمال ہو رہے ہیں۔ جس کو دیکھو اس کے ہاتھ میں موبائل فون ہے۔ یعنی فون ایجاد ہونے کے بعد ایسا لگتا ہے اس کے بغیر زندگی ادھوری تھی۔ سائنس اور جدید ایجادات ہماری روزمرہ زندگی میں یوں رچ بس گئے ہیں کہ ان کے بغیر زندہ رہنا مشکل ہوتا جاتا ہے۔ جدید ایجادات، علاج کے لئے جدید ترین طریقہ کار نے ہماری زندگیوں میں انقلاب پیدا کر دیا ہے۔

لوگ یہ بھی سوچتے ہیں کہ کسی چیز کی ایجاد میں کافی وقت صرف ہوا ہوگا جبکہ اس بارے میں امریکی موجد ایڈیسن کا کہنا ہے کہ ایجاد کے لئے نناوے فی صد خون پسینہ اور صرف ایک فی صد وجدان درکار ہوتا ہے۔ اس مضمون میں ہم چند ایسی ایجادات کا ذکر کریں گے جن کی ایجاد اتفاقیہ تھی۔

ہیضہ کے حفاظتی انجکشن کی ایجاد

فرانس کا مشہور سائنسدان لوئیس پا سچرLouis Pasteur انیسویں صدی کا معروف ترین انسان تسلیم کیا جاتا ہے۔ 1880 میں اس نے فرانس کی چکن انڈسٹری کو چکن کالر ان (مرغیوں کا ہیضہ ) سے محض اپنے علم سے محفوظ رکھا۔ اس بیماری میں مرغیاں جلد ہی موت کی آغوش میں جا کر ابدی نیند سو جاتی ہیں۔ پاسچر نے اس آرگنزم کو لیبارٹری میں خود پیدا کیا جس سے ہیضہ کی بیماری ہوتی ہے۔ اس نے یہ جراثیم ایک بوتل میں محفوظ کر لئے۔ ایک روز اس کو آئیڈیا ملا اور اس نے یہ جراثیم چند مرغیوں کو کھلا دیے۔ اس کا خیال تھا مرغیاں ان کو ہضم کر نے سے بیمار ہو کر لقمہ اجل بن جائیں گی مگر ہوا یہ کہ مرغیاں بیمار اور لاغر ہو گئیں۔ مگر کچھ عرصہ بعد وہ صحت یاب ہو گئیں۔

پاسچر نے یہی جراثیم مرغیوں کے دوسرے گلے کو کھلائے تو تمام کی تمام ابد آباد کو سدھار گئیں۔ پاسچر نے محض اتفاقی طور پر یہ حقیقت دریافت کر لی تھی کہ پرانے جراثیم دراصل اپنی ہیئت اور ما ہیئت بدل چکے تھے۔ ان کی وجہ سے اب بیماری پیدا نہ ہوتی تھی بلکہ ان پرانے جراثیم کی وجہ سے مرغیاں آئندہ بستر مرض پر پڑنے سے بھی محفوظ رہیں۔

پاسچر نے جلد ہی اس بات کا اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ بیکٹیریا جو انسانوں کو متاثر کرتا ہے اس کا اثر بھی ویسا ہی ہوگا۔ چنانچہ 1881 میں اس نے anti۔ cholera vaccine تیار کر لیا جس سے لکھو کھا انسانوں کو فائدہ پہنچا۔ اس واقعہ کو امینالوجی کا آغاز تسلیم کیا جاتا ہے۔ پاسچر پہلا انسان تھا جس نے لیبارٹری میں ویکسین تیار کیا تھا۔ دنیا کی تاریخ میں چار بیماریوں Cholera، bubonic plague، smallpox، and influenzaاکثر اموات ہوئی ہیں۔

کونین کی دریافت

بیماریوں کے علاج میں کوئے نینQuinine یعنی سنکونا درخت کی چھال کے جوہر (کوئے نین پاؤڈر) نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ اس دوا سے ملیریا بخار کا علاج کیا جاتا جو مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔ کہتے ہیں کوئے نین کی دریافت 1600 کے لگ بھگ محض اتفاقی طور پر ہوئی تھی۔ جنوبی امریکہ کے ملک پیر و Peru میں ایک ہسپانوی سپاہی کو ملیریا کا سخت بخار ہو گیا اور اس پر کپکپی طاری ہو گئی۔ اس کے ملٹری یونٹ میں سپاہی اس کو پیچھے چھوڑ کر آگے روانہ ہو گئے۔

سپاہی کو سخت پیاس لگی تو وہ رینگتا ہوا ایک قریبی تالاب تک گیا اور پانی پی لیا۔ اس کے بعد وہ نیند کی آغوش میں چلا گیا تو اس کا بخار ختم ہو چکا تھا۔ وہ دوبارہ سفر پر چل پڑا اور اپنے یونٹ سے جلد ہی جا ملا۔ اس نے دیگر سپاہیوں کو اس تالاب سے شفا دینے والے پانی کے اثرات سے مطلع کیا۔ اس کے بعد جب تالاب کے پانی کا تجزیہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس میں کڑواہٹ کی وجہ درخت کی وہ چھال تھی جو تالاب کے کنارے پر تھا۔

اس سپاہی نے محض حادثاتی طور پر یہ بات دریافت کر لی کہ Cinchona درخت کی چھال سے ملیریا کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ درخت کی چھال سے پاؤڈر بنا کر اس کس گولیاں تیار کی جاتی ہیں جو ملیریا کا موثر علاج ہے۔ دنیا میں آج بھی کثرت سے اموات ملیریا بخار سے ہوتی ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں آج تک جتنی اموات واقع ہوئی ہیں ان میں نصف کی وجہ ملیریا بخار تھا۔ ہر سال ملیریا سے دو ملین افراد لقمہ اجل بن جاتے جن میں سے اکثر افریقہ اور ساؤتھ ایشیا کے مکین ہوتے ہیں۔ امریکہ میں ہر سال دو ہزار افراد ملیریا بخار سے بیمار ہوتے جن میں اکثر آنے والے مہاجر یا مسافر ہوتے ہیں۔

مائیکرو ویو اون کی ایجاد Microwave Oven

مائیکرو ویوز گرمی اور روشنی کی لہروں کی طرح شارٹ ریڈیو ویوز ہیں جو موشن کی ذریعہ کام کرتی ہیں۔ یہ غذا کے اندر مالیکیول میں موشن پیدا کرتی ہیں جن کی وجہ سے فرکشن پیدا ہوتی ہے۔ اس کی سادہ مثال سردی کے موسم میں انسان کا ہاتھ ملنا ہے تا ہاتھ گرم ہو جائیں۔ فرکشن کی وجہ سے فوڈ کے اندر گرمی پیدا ہوتی جس سے فوڈ گرم ہو جاتی ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد 1946 میں امریکہ میں رے تھیان Raytheonکمپنی کا ایک ملازم Percy Spencer لیبارٹری کے معائنہ کے دوران میگناٹران کے سامنے آ کر رکا جو مائیکرو ویوز پیدا کرتی ہیں۔ میگناٹرون وہ پاور ٹیوب ہے جس سے ریڈار سیٹ ڈرائیو ہوتا ہے۔ پرسی کی جیب میں چاکلیٹ تھی جب اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو وہ پگھل چکی تھی۔ اس کو فوراً اس امر کا احساس ہوا کہ چاکلیٹ در اصل مائیکرو ویوز کی وجہ سے پگھل چکی تھی۔ چنانچہ رے تھیان کمپنی نے اس کی سفارش پر 1947 میں سب سے پہلا اوون ریڈار رینج کے نام سے مینوفیکچر کیا جس کا وزن 750 پاؤنڈ اور پانچ فٹ چھ انچ لمبا تھا۔ 1953 میں اس کی قیمت تین ہزار ڈالر تھی اور یہ صرف ریستوران اور بحری جہازوں کے اندر استعمال ہوتا تھا۔ مگر اب یہ ہر گھر میں کچن کے اندر موجود ہے اور قیمت ایک سو ڈالر کے لگ بھگ۔ اب پل بھر میں گرم کھانا مل جاتا ہے۔

سٹین لیس سٹیل کی ایجاد

لوہے کو زنگ کیوں لگتا ہے؟ کیونکہ یہ آکسیجن سے مل کر رد عمل کرتا ہے جس سے آئرن آکسائیڈ پیدا ہوتا ہے۔ مگر سٹین لیس سٹیل کو زنگ نہیں لگتا، کیوں؟ 1931 کی بات ہے کہ ایک میٹالرجسٹ Harry Brealy کسی ایسی دھات کی تلاش میں تھا جس سے بندوقوں کی نالیاں Gun barrlesبنائی جا سکیں۔ اس نے مختلف دھاتوں آپس میں ملا کر تجربات کیے جن کو الائزalloys کہتے ہیں۔ تجربات کے بعد اس نے کچھ بچے کھچے ٹکڑوں کا باہر پھینک دیا۔ کچھ مہینوں کے بعد اس نے دیکھا کہ اگرچہ ان ٹکڑوں کی اکثریت کو زنگ لگ چکا ہے مگر ایک کونے کو زنگ نہ لگا۔ اس نے اس کا تجزیہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس کے اندر چودہ فی صد کرومیم تھا۔ یوں اس نے سٹین لیس سٹیل دریافت کر لیا۔ آج کچن کے اندر گھر گھر میں برتن سٹین لیس سٹیل سے بنے ہوتے ہیں۔ بلکہ سرجری کے اوزار بھی اسی سے بنتے ہیں۔

ٹائپ رائٹر کی ایجاد

ٹائپ رائٹر ملواکی (وسکانسن امریکہ) میں 1869 میں ایجاد ہوا تھا۔ دراصل ٹائپ رائٹر کی ایجاد کا سہرا امریکہ کے چار افراد کو دیا جاتا ہے ان میں سے ایکملواکی (وسکانسن) کا رہنے والا Christopher Latham Sholes d۔ 1890 اور دوسرا ملواکی (وسکانسن) کا موجد Samuel W۔ Soulé 1875 تھا جس نے پریکٹیکل ٹاپ رائٹر مشین شاپ میں بنا یا تھا۔ راقم السطور نے وہ تاریخی کتبہ دیکھا ہے جو وسکانسن یو نیورسٹی کے پاس لگا ہؤا ہے۔ کرسٹو فر شولز کے بنائے کی بورڈ پر انگلش کے حروف ابجد A۔ Z ترتیب دیے گئے تھے۔ مگر اس ترتیب میں پرابلم یہ تھی کہ ABCکی ترتیب سے اس کی کیز Keysآپس میں اٹک جاتی تھیں۔ اس کا نتیجہ یہ تھا ٹائپسٹ آہستہ آہستہ ٹائپ کرتا تھا۔

مسٹر شولز نے اپنے ایک عزیز کو کی بورڈ دوبارہ ترتیب دینے کے لئے کہا یوں کہ حروف تہجی ایک دوسرے سے زیادہ قریب نہ ہوں نیز یہ کہ type bars مختلف اطراف سے آئیں تا کہ آپس میں ٹکرائے نہیں۔ نئی ترتیب میں حروف ابجد یوں بنتے ہیں QWERTYیہی ترتیب اب کمپیوٹرز میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ رفتہ رفتہ لوگوں نے ٹائپ رائٹر کی مقبولیت کے پیش نظر ان حروف کی ترتیب ذہن نشین کر لی۔ کہا جاتا ہے کہ مشہور امریکی مصنف اور ادیب مارک ٹوئین نے 1874 میں ٹائپ رائٹر خریدا تھا۔ ایک امریکی خاتون Carol Bechen کی 1974 میں ٹائپنگ سپیڈ 176 الفاظ تھی۔ اسی طرح 1946 میں آئی بی ایم ٹائپ رائٹر پر Stella Pajunas نے ایک منٹ میں 216 الفاظ ٹائپ کیے تھے۔ پھر ایک اور خاتون Barbara Blackburn نے 2005 میں 212 wpm ٹائپ کیے تھے۔

آرک ویلڈنگ کی ایجاد

امریکی پر وفیسر تھامپسن فلاڈلفیا شہر کے شہرہ آفاق فرینکلن انسٹی ٹیوٹ میں بجلی پر لیکچر دے رہا تھا۔ لیکچر کے دوران ڈیمانسٹریشن کے دوران اس نے غلطی سے دو تاروں آپس میں ملایا تو وہ آپس میں جڑ گئیں۔ تھامپسن کے خیال میں ان تاروں کو جڑنا نہیں چاہیے تھا۔ اس نے ان کو الگ کرنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ ہوا یہ کہ بجلی کی وجہ سے حرارت پیدا ہوئی تھی اور یہ تاریں ویلڈ ہو گئیں تھیں۔ تھامپسن نے یوں اتفاقی طور پر آرک ویلڈنگ کا نیا طریقہ دریافت کر لیا تھا۔

کشش ثقل کی در یافت

اگر زمین پر ایک شخص کا وزن 150 پاؤنڈ ہے تو چاند پر وزن کتنا ہوگا؟ یا مشتری سیارہ پر وزن کتنا ہوگا؟ اس بات کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس سیارہ کی کشش ثقل کس قدر ہے۔ کشش ثقل کی دریافت محض حادثاتی ہے۔ 1666 میں سر آئزک نیوٹن اپنے فیملی کے باغ میں کسی گہری سوچ میں غرق تھا کہ قریب درخت سے سیب اس کے سر پر گرا۔ نیوٹن نے خود سے سوال کیا کہ یہ سیب نیچے کی طرف کیوں گرا ہے؟ مزید سوچ بچار پر اسے یہ بات سمجھ آئی کہ کوئی خاص قوت ہے جو چاند کو زمین کی طرف کھینچتی ہے اور اس کو اس کے مدار میں برقرار رکھتی ہے۔ نیز یہ کہ زمین پر موجود قوانین فطرت وہی ہیں اور اسی طرح عمل کرتے ہیں جس طرح دور کے سیاروں اور ستاروں قوانین عمل کرتے ہیں۔

اس معمولی مگر تاریخ ساز واقعہ سے قبل لوگ خیال کرتے تھے کہ زمین کے طبعی قوانین آسمانی قوانین سے الگ ہیں خاص طور پر جہاں تک موشن کے قوانین کا تعلق ہے۔ 1684 میں اس نے اپنی نئی کشش ثقل کی تھیوری کو حسابی طریق سے ثبوت کے ساتھ پیش کیا۔ اب یہ آفاقی قانون فزکس کے بنیادی قوانین میں سے ہے۔ اس کو جی فورس G forceبھی کہا جاتا ہے۔

ٹیلی فون کی ایجاد

اگرچہ ٹیلی فون کا موجد گراہم بیل Graham Bell d۔ 1922 کو مانا جاتا ہے لیکن اس مفید اور عالمی ایجاد پر کئی ایک دیگر نامور سائنسدانوں نے بھی کام کیا تھا۔ ان میں سے ایک کا نام مسٹر ایلشیا گرے Elisha Grayتھا۔ 1875 کے لگ بھگ کی بات ہے کہ ایک روز مسٹر گرے نے دو بچوں کو ٹن کینزTin Cans میں باتیں کرتے دیکھا جن کے درمیان رسی لگی ہوئی تھی۔ یہ گویا ان کا ہوم میڈ فون تھا۔ ) بچپن میں ہم ماچس کی دو ڈبیوں کو دھاگے سے ملا کر ایسا فون استعمال کیا کرتے تھے (۔

جب ایک بچہ ٹن کین میں بات کرتا تو اس سے ہونے والی وائبریشن رسی کے ذریعہ دوسرے ٹن کین تک چلی جاتی۔ مسٹر گرے کو اس سے یہ آئیڈیا ملا کہ اگر رسی کی بجائے تار لگا دی جائے تو انسان کی آواز ایک مقام دوسرے مقام تک سفر کر سکے گی۔ بشرطیکہ آواز الیکٹریکل سگنلز میں تبدیل کر دی جائے۔ چنانچہ ٹن کین کو سامنے رکھ کر اس نے ٹرانس میٹر کا سکیچ کاغذ پر بنایا۔ 14 فروری 1876 کو جب مسٹر گرے پیٹنٹ آفس میں اپنی نئی ایجاد کو پیٹنٹ کروانے گیا تو صرف دو گھنٹے قبل گراہم بیل ٹیلی فون کی ایجاد کا پیٹنٹ دائر کر چکا تھا۔

یوں اس انقلابی ایجاد کر سہرا مسٹر بیل کے سر باندھا جاتا ہے۔ آج امریکہ اور کینیڈا میں بیل کے لفظ اور ٹیلی فون میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کینیڈا کی سب سے بڑی ٹیلی فون کمپنی کا نامBell Canadaہے۔ گراہم بیل کا تعلق اونٹاریو کے شہر برانٹ فورڈ سے بھی رہا ہے۔ ایک دعویٰ کے مطابق ٹیلی فون اس نے برانٹ فورڈ شہر میں 26 جولائی 1876 کو ایجاد کیا تھا۔

دنیا کی پہلی لانگ ڈسٹنس فون کال گراہم بیل نے اگست 1876 میں برانٹ فورڈ اور پیرس (اونٹاریو) کے درمیان میں کی تھی۔ اس وجہ سے برانٹ فورڈ کو ”دی ٹیلی فون سٹی“ بھی کہا جاتا ہے۔ گراہم بیل جس گھر میں رہتا تھا اس کو کوئین ایلزبیتھ دوم نے 28 جون 1997 کو نیشنل ہسٹارک سائٹ قرار دیا تھا۔

اس ضمن میں یہ بیان کر نا بھی دلچسپی کا باعث ہوگا کہ 10 مارچ 1876 کو گراہم بیل بوسٹن میں 109 Court Street کی سب سے اونچی منزل پر موجود اپنی ورک شاپ میں ٹیلی فون ایجاد کرنے کے مختلف طریقوں پر تجربات کر رہا تھا۔ اس سے پہلے وہ ٹرانسمیٹر میں solid voice coil استعمال کر چکا تھا۔ اب جو تجربہ وہ کر رہا تھا اس میں

لیکوئیڈ ٹرانسمیٹر یعنی تیزاب کا وائس کائل استعمال کر رہا تھا۔ غلطی سے تیزاب اس کی پینٹ پر گیا تو اس نے اپنے معاون مسٹر واٹسن کو جو ملحقہ کمرے میں تھا آواز دی:

Mr۔ Watson come here I want to see you۔ مسٹر واٹسن کو یہ الفاظ صاف سنائی دیے اور وہ دوڑا آیا۔ دونوں کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ یوں ٹیلی فون پر بولے جانے والا یہ فقرہ تھا۔ آج ہم ٹیلی فون آنے پر ہیلو کہتے ہیں مگر مسٹر بیل AHOYکہا کرتا تھا۔ جو بگڑ کر ہیلو بن گیا۔

بجلی کی دریافت اور پتنگ

تاریخ عالم میں سب سے مشہور پتنگ امریکی موجد، پرنٹر اور ڈپلومیٹ کے بنجمن فرینکلن (وفات 1790 ) نے اڑائی تھی۔ جو اس نے جون 1756 میں فلاڈلفیا میں اڑائی اور یہ بات اس پر منکشف ہوئی کہ بادلوں میں پیدا ہونے والی روشنی اور بجلی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ فرینکلن نے پتنگ ریشم سے بنائی تھی اور اس کے زمین والے حصے کی طرف ایک رسی کے ساتھ چابی لگی ہوئی تھی۔ جس وقت پتنگ بادلوں میں تھی تو بادلوں کی کڑک میں بجلی موجود تھی۔

اس نے بجلی کی سائنس کا مزید مطالعہ کیا اور کہا کہ بجلی میں منفی اور مثبت چارج ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ بجلی کی سائنس کے قریب 25 الفاظ اس نے ایجاد کیے تھے جیسے charged، armature، conductor، battery۔ بجلی کے تجربات کے دوران وہ خود دو بار بجلی لگنے سے ہوش ہو گیا۔ اس موضوع پر اس نے ایک کتابExperiments and Observations on Electricity بھی تصنیف کی۔ بجلی کے علاوہ اس کی مشہور ایجادات میں سے فرینکلن سٹوو اور بائی فوکل آئی گلاسز ہیں۔ سائنس اور ایجادات سے دلچسپی رکھنے والے افراد کے فلاڈلفیا کا فرینکلن انسٹی ٹیوٹ دیکھنے کے قابل ہے۔

کاغذ کی ایجاد

اگر کاغذ ایجاد نہ ہوا ہوتا تو دنیا میں علم اتنی سرعت سے نہ پھیلتا۔ یورپ میں 1450 سے قبل صرف چند ہزار کتابیں تھیں مگر اسلامی دنیا میں کاغذ کی وجہ سے کتابیں بے شمار تعداد میں لکھی جاتی اور تقسیم ہوتی تھیں۔ کاغذ کے بزنس سے منسلک لوگ اپنے نام کے ساتھ الورق لکھتے تھے۔ پھر یورپ میں کاغذ اور جرمن موجد گوٹن برگ کی پرینٹنگ پریس کے ایجاد کے بعد کتابیں ہزاروں میں شائع ہونے لگیں۔ ملک چین میں ایک شخص Tsai Lun تھا جو کورٹ آفیشل تھا۔

اس نے کاغذ 105 میں ایجاد کیا۔ اس کے بعد چینی قوم نے بہت ترقی کی۔ پھر عربوں نے کاغذ بنانا آٹھویں صدی میں سیکھا۔ عراق سے یہ فن سپین میں پہنچا جہاں اس وقت مسلمانوں کی حکومت تھی۔ یہ بات بارہویں صدی کی ہے۔ قرطبہ میں اس وقت کاغذ بنانے کے بڑے بڑے کارخانے تھے۔ چونکہ کاغذ پرانے کپڑوں سے بنا یا جاتا تھا جسے پارچمنٹ کہتے تھے اس لئے پرانے کپڑے اکٹھے کرنا بھی ایک پیشہ ہوتا تھا۔ مگر کاغذ کی مانگ بڑھتی گئی اس لئے اس کو بنانے کے لئے اور طریقے بھی دریافت ہونے لگے۔

ایک فرنچ سائنسدان Reaumeنے 1700 کے لگ بھگ کاغذ بنانے کا کیمیائی طریقہ دریافت کر لیا۔ ہوا یہ کہ وہ ایک روز پارک میں سیر کے لئے گیا۔ اس نے وہاں بھڑ کا چھتہ اٹھا یا اور اس کا بغور تجزیہ کیا۔ اسے پتہ چلا کہ یہ کاغذ سے بنا ہوا تھا۔ اس نے خود سے سوال کیا کہ بھلا بھڑ نے یہ گھر کیسے بنا یا تھا۔ یعنی بھڑ نے کسی کیمیکل ( آگ) یا دیگر اجزاء کے بغیر کاغذ کیسے تیا رکیا؟ اس سوال کا جواب اس کو یہ ملا کہ بھڑ نے چھوٹی چھوٹی لکٹریوں کو چبا کر اپنے تھوک اور معدہ میں موجود جوسز سے تیار کیا تھا۔ خوش قسمتی سے ری آم نے بھڑوں کے نظام ہضم کا مطالعہ پہلے سے کیا ہوا تھا۔ اب اس نے اس موضوع پر ایک مقالہ تیا رکیا اور اپنی ریسرچ فرنچ رائل اکیڈیمی کے سامنے 1719 میں پیش کی۔

ایک اور فرنچ میکیکل انجئنیر (d 1828 ) Robert Louis۔ Nicolas نے ایک ایسی مشین تیار کی جو کاغذ لگاتار بنا تی تھی۔ اس کا پیٹنٹ اس نے 1799 میں حاصل کیا تھا۔ کسی وجہ سے وہ اپنے پینٹ سے محروم کر دیا گیا تو مشین برطانیہ بھیج دی گئی جہاں اس پر مزید تحقیق ہوئی۔ کینیڈا میں چونکہ درخت بہت بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں ا سلئے اس ملک کی سب سے بڑی ایکسپورٹ انڈسٹری کاغذ ہے۔

انسولین کی ایجاد

انسولین کی دریافت آج سے ایک سو سال 1921 میں قبل ٹورنٹو میں ہوئی تھی۔ فریڈرک بینٹنگ Bantingاور جان میکلؤڈMacleod (یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے پروفیسر) کو 1923 میں ذیا بیطس کے علاج کے طور پر انسولین کی دریافت اور اس کے کلینکل استعمال پر نوبل انعام دیا گیا تھا۔ لبلبے (پین کیرسٹ ) اور انسولین میں تعلق انہوں نے یورپ کے سائنسدانوں کے تعاون سے دریافت کیا تھا۔

جرمن فزیشن جوزف میرنگ Joseph von Mering اورآسکر من کوسکیOscar Minkowski نے ایک صحت مند کتے کے جسم سے لبلبے کو الگ کیا تا کہ نظام ہضم میں اس کے کردار کا پتہ لگا یا جا سکے۔ لبلبہ الگ کرنے کے کئی روز بعد ان دونوں ڈاکٹروں نے دیکھا کہ کتے کے پیشاب کے اوپرمکھیوں کا جھنڈ اڑ رہا ہے۔ یہ معلوم کر نے کے لئے کہ مکھیاں پیشاب کے اوپر کیوں اڑ رہی ہیں انہوں نے کتے کے پیشاب کا ٹیسٹ کیا تو معلوم ہوا کہ اس کے پیشاب میں شو گر تھی جو کہ ذیا بیطس کی نشانی ہے۔

ڈاکٹروں کو معلوم تھا کہ لبلبے کے الگ کرنے سے قبل کتا صحت مند تھا اس لئے ان کو پین کرئیسٹ اور ذیا بیطس میں باہمی تعلق معلوم ہو گیا۔ انہوں نے مزید ٹیسٹ کیے تو پتہ چلا لبلبہ ایک چیز پیدا کرتا ہے جو انسانی جسم کے اندر شوگر کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس کے بعد کئی سائنسدانوں نے انسولین جو لبلبے سے پیدا ہوتی الگ کرنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ آخر کار کینیڈین پروفسرز بینٹنگ اور میکلؤڈ نے 1921 میں پتہ لگا لیا کہ لبلبے سے پیدا ہونے والا مادہ انسولین ہے نیز اس کو کتے کے لبلبے سے کیسے نکالا جائے۔ اس کے بعد سے اب تک انسولین ذیابیطس Diabetese Type 1 کو کنٹرول کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ اس کے بعد انسولین چوپاؤیوں سے حاصل کی جاتی رہی۔

بینٹنگ نے انسولین کا پیٹنٹ یونیورسٹی آف ٹورنٹو کی کوناٹConnaught لیبارٹری کو دے دیا تا مخلوق خدا کی مفت مدد کی جائے۔ مگر جلد ہی دنیا کی بڑی بڑی فارماسوٹیکل کمپنیز نے اس پر قبضہ جما لیا۔ اس وقت دنیا کی ساری انسولین تین کمپنیاں بناتی ہیں Eli Lilly، Novo Nordisk، and Sanofi۔ دنیا کی سب سے پہلی سینتھٹک ہیومن انسولین 1978 میں بنائی گئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments