عجیب و غریب شادیاں اور انسان کے دیگر کارنامے



کچھ عرصہ قبل ہالی وڈ کی ایک اداکارہ کے سر میں جانے کیا سودا سمایا کہ اس نے اعلان کر دیا کہ وہ خود سے شادی کرے گی کیونکہ اسے اپنے آپ سے بے پناہ محبت ہے اور وہ اپنے جسمانی خدوخال، کشش، پیچ و خم اور لوچ سے عشق کرتی ہے اور پھر اس نے یہ کر کے بھی دکھایا تھا اور پھر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ ایک غیرملکی جوڑے نے اعلان کیا کہ وہ برہنہ ہو کر شادی کریں گے اور ان کے باراتی، پادری، منتظمین اور دیگر لوگ بھی تن پر دھجی بھی نہ پہنے ہوئے ہوں گے اور پھر یہ بھی ہوا کہ ہمسایہ ملک ہندوستان کی معروف اداکارہ اور سابق مس ورلڈ ایشوریا رائے کی ابھیشک بچن سے شادی سے قبل ایک بندر سے شادی کی باقاعدہ رسومات ادا کی گئیں اور پھر یہ بھی سنا گیا کہ ان کی شادی ایک درخت سے بھی ہوئی تھی کہ یہ سب برے اثرات، نحوست اور بری نظروں کو رفع دفع کرنے کے لیے کیا گیا تھا اور پھر جاکر کہیں بچن خاندان کے ممبر کی وہ اہلیہ بنیں، یہ سب کچھ اس لیے یاد آیا کہ ابھی سندھ میں جب ایک ہندؤ نوجوان کی بندر سے شادی کی خبر سنی تو اچنبھا نہ ہوا کہ جب مشہور ترین شخصیات سے ایسے معاملات جڑے ہیں تو یہ تو پھر ایک عام سا نوجوان ہے اور ممکن ہے کہ اس نے ایشوریا رائے سے متاثر ہو کر یہ رسم سی دہرائی ہو؟ ویسے ہندؤ مذہب میں یہ چیز زیادہ معیوب نہ سمجھی جاتی ہے کیونکہ وہاں حد سے زیادہ توہم پرستی ہے اور اگر اس کا شکار عالمی شہرت یافتہ بچن فیملی اور سابق مس ورلڈ ہو سکتی ہیں تو دوسروں سے تو پھر کچھ بھی بعید نہیں ہونا چاہیے۔

جہاں تک انسان کے جناور  بننے کی بات ہے تو ہم اکثر و بیشتر میڈیا کے ذریعے ایسے ویسے واقعات سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں، ابھی اوکاڑہ میں 5 نوجوانوں کا ایک معصوم بکری سے گینگ ریپ کیا کوئی پہلی خبر ہے؟ ہمارے دیہاتوں میں تقریباً یہ عام بات سمجھی جاتی ہے اور بعض اوقات بڑے فخر، مزے، ٹہکے اور دھڑلے سے ایسی ”وارداتوں“ کا ذکر کیا جاتا ہے اور کہنے والے کہتے ہیں کہ گدھی بھی بہت سے شوقین مزاجوں کی ”پہلی محبت“ کے طور پر ہمیشہ ان کی یادوں میں رہتی ہے،

اور کسے بی بی سی کی وہ رپورٹ یاد نہ ہوگی کہ ہمارے سندھ کے ساحلی علاقوں میں مادہ اندھی ڈولفن مچھلی کے ساتھ برسہا برس سے جنسی فعل کیا جا رہا ہے اور ”مرتکبین“ اس کا اظہار بھی بڑے فخر سے کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کئی بار اس جنسی فعل کے دوران اندھی ڈولفن ویسے ہی جان گنوا بیٹھتی ہے جیسے کہ اوکاڑہ کی بے چاری بکری گنوا بیٹھی تھی اور یہ بھی کیا حیرت کی بات نہیں ہے کہ مادہ ڈولفن سے ایسے سلوک کا سننے کے باوجود بھی نہ تو جانوروں کے حقوق کی تنظیمیں اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتی ہیں اور نہ ہی علاقے میں اس کے روک تھام کے لیے مکین کوئی کوشش کرتے ہیں، ان کے لیے شاید یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے اور اسی لیے یہ قبیح سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری و ساری ہے۔

یاد آ رہا کہ انڈونیشیا کے ایک گاؤں میں ماہ بن مانس کی شیو کر کے اور میک اپ کر کے اس سے بطور ”سیکس ورکر“ کے کام لیا جاتا ہے اور میڈیا میں یہ بات آ بھی چکی ہے، اب اس کے بعد باقی رہ کیا جاتا ہے؟ جو انسان اس قدر گر جائیں کہ اپنی جنسی ہوس کی تسکین کے لیے بے زبان جانوروں تک کو نہ بخشیں، ان سے کسی عورت، بچی، بچے، لڑکے، مرد یا ہیجڑے کو بچایا جاسکتا ہے؟ المیہ ہے کہ انسانوں سے زیادتی پر قانون تھوڑا بہت حرکت میں آ جاتا ہے لیکن جانوروں سے ایسے گھناؤنے کام کے بعد ایک نہ ٹوٹنے والی چپ چھائی رہتی ہے اور پھر یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس معاشرے میں جنسی بھیڑیوں کے مظالم کا شکار انسانوں کو انصاف نہ ملے وہاں بے زبان جانور کیسے انصاف حاصل کر سکتے ہیں؟

دکھ کی بات یہ ہے کہ نظام انصاف بھی اس بارے میں کوئی موثر قانون سازی کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا ہے، پھر ایسی حرکات کے مرتکبین اتنے با اثر ہوتے ہیں کہ وہ قانون کو موم کی ناک بنائے رکھتے ہیں اور جیسے دل چاہے وہ اسے موڑ لیتے ہیں تو ایسے میں پھر ایسے شرمناک واقعات کیسے رک سکتے ہیں کہ حکومتوں اور ان کے اداروں کی ترجیحات میں بھلا کوئی جانور کیسے اوپر آ سکتا ہے کہ انہیں تو اپنے زیر نگین انسانوں کی فکر تک نہ ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments