خرافات شیئر کرنے سے روکنے والا شیطان



انٹرنیٹ پر موجود مختلف ویڈیو ایپلیکیشنز اور پلیٹ فارمز کا مقصد لوگوں تک مفید معلومات اور خبریں باہم پہنچانا ہے۔ کچھ لوگ انہی پلیٹ فارمز پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں جو کہ اک خوش آئندہ اور مثبت بات ہے۔ سائنسی مضامین پر متعلقہ اساتذہ ویڈیوز بنا کر اپلوڈ کرتے رہتے ہیں۔ جس سے طالب علموں کو آسانی رہتی ہے۔ جنرل سائنس اور ڈیلی سائنس پر بھی بہت اچھا اور معیاری مواد مل جاتا ہے۔

اس سارے عمل کو آسان بنانے کے لئے ان ایپلیکیشنز نے کڑی شرائط کے بغیر عوام کے لئے ایسا اسٹیج تیار کیا ہے جہاں لوگ اپنی صلاحیت کا لوہا منوا سکتے ہیں اور اپنی صلاحیت کو دوسروں تک پہنچا بھی سکتے ہیں۔ اس وجہ سے ان پلیٹ فارمز سے مختلف شعبہ زندگی کے لوگ مختلف طریقہ سے رہنمائی حاصل کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر ان ایپلیکیشن پر مستند اور سچی معلومات کے متعلق کوئی خاص قانون موجود نہیں جس کا جو جی چاہے اپلوڈ کر سکتا ہے ماسوائے ایسی ویڈیوز جو غیر اخلاقی مواد، خون خرابہ یا ان جیسے کسی دوسرے مواد پر مشتمل ہوں۔

شو مئی قسمت کہ ان ایپلیکیشنز پر ویڈیوز دیکھنے والوں کی تعداد ایک خاص حد سے زیادہ ہو تو ویڈیو بنانے والے کو پیسے بھی ملتے ہیں، جتنے زیادہ لوگ آپ کی ویڈیو کو دیکھیں گے اتنے زیادہ پیسے آپ کی جیب میں۔ اس طرح بہت سے لوگ لالچ میں آ گئے اور ویڈیوز بنا کر اپلوڈ کرنے لگے۔

اسی لالچ کی بنیاد پر یہاں موجود ویڈیوز کی تعداد تو لاکھوں میں پہنچ گئی مگر معیاری اور معلوماتی ویڈیوز والا معاملہ کہیں دب کر رہ گیا۔ پیسے کے لالچ میں ان پلیٹ فارمز پر ویڈیوز اپلوڈ کرتے لوگوں کا مقصد صرف اور صرف ناظرین کی تعداد کو بڑھانا ہوتا ہے۔

ناظرین کا مقررہ ہدف حاصل کرنے کے لئے سچائی اور معیار کی طرف دھیان دیے بغیر یہ حضرات کوئی چٹ پٹا عنوان پکڑ لیتے ہیں اور دے دھنا دھن جھوٹ، سازشیں، من گھڑت باتیں، نامور فلاسفروں سے جڑے فرضی قول اور سائنس کے نام پر ایسی باتیں بولنا شروع کریں گے جن کا دور تک سائنس کے کسی مضمون سے واسطہ نہیں۔

انہی پلیٹ فارمز پر ایسی ایسی نابغہ روزگار شخصیات موجود ہیں جن کا کبھی کسی اچھی کتاب یا لائبریری سے واسطہ تک نا رہا مگر اپنے نام کے ساتھ لمبے لمبے خطاب جوڑتے ہیں۔ کوئی خود کو رواں دور کا عظیم فلاسفر سمجھتا ہے کوئی تاریخ دان بن بیٹھتا ہے۔ انہی سستے دانشوروں میں آپ کو ایسے لاتعداد لوگ ملیں گے جنہیں یہ تک معلوم ہوتا کہ کون سا ملک کب اور کس ملک پر حملہ کرنے والا ہے۔ مطلب اتنی اہم معلومات جو شاید حملہ کرنے والے ملک کی سینیئر لیڈر شپ کے علاوہ کسی کو بھی پتہ نہ ہوں وہ بھی ایسے سستے دانشور حضرات کو پتا ہوتی ہیں۔ بلکہ یہاں تک کہ اکثر ویڈیوز کا عنوان کچھ ایسا ہوتا ہے۔

”آج کی رات فوج کے لئے بہت اہم ہے۔“
”دشمن نے بنایا چھپ کر پیٹھ پر وار کرنے کا پلان۔“
”فوج کو ہائی الرٹ پر رہنے کے احکامات کیوں دیے گئے؟“
”آنے والے تین دن میں جنگ کے امکانات۔“
”فوج نے ایل او سی پر دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیے“
”عالمی جنگ کی صورت میں کون ہوگا کس کے ساتھ؟“

آپ یقین کیجئے یہ چند مخصوص نعرے اور خوفزدہ کر دینے والی باتیں ہمارے بزرگوں کے اذہان میں بھی ایسے ہی گھسائی گئی تھیں، انہوں نے بھی اپنی ساری زندگی دوسرے ممالک کو دشمن سمجھتے ہی گزار دی اور اب نئی نسل کی برین واشنگ بھی اسی مقصد کے تحت ہو رہی ہے۔ نغموں، فلموں اور ڈراموں سے جو کسر رہ جاتی ہے وہ ان ویڈیو ایپلیکیشنز پر موجود گھٹیا چینلز پوری کر رہے ہیں۔ مزید افسوسناک بات ان ویڈیوز کو دیکھنے والے لوگوں کی تعداد ہے جو کروڑوں میں ہے۔

یہاں ایسے ویڈیو چینلز بھی موجود ہیں جنہیں دنیا میں ہونے والی ہر سازش کا علم ہوتا ہے۔ مزیدار بات یہ کہ آپ نے گھر میں گھس کر مارنے کے والا ڈائیلاگ سنا ہوگا۔ یہ لوگ اسی ڈائیلاگ پر عمل کرتے ہوئے انہی سازشیوں کے بنائے ہوئے پلیٹ فارمز پر انہی سازشیوں کو ننگا کرنے سے ذرہ برابر بھی نہیں کتراتے۔ ہمیشہ وقت پر سازشوں کا بھانڈا پھوڑ کر سرخ رو ہوتے ہیں اور اپنی قوم پر احسان فرماتے ہیں۔ کبھی یہ کرونا ویکسین میں سازشیں ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں کبھی پولیو میں اس کے علاوہ شیطانی تنظیموں کے راز عیاں کرنے میں ان لوگوں نے سند حاصل کی ہے۔ دوسری طرف سازشی بھی اس قدر ڈھیٹ ہیں کہ ان کی ہر سازش کی خبر ہو جانے کے باوجود وہ سازشیں کرنے سے باز نہیں آرہے۔

ان کے بعد آتے ہیں نایاب نسل کے تماشا کرنے والے جو جادو، ٹونہ، دم درود، جن پریوں اور تعویزات کی مداری کرتے ہیں۔ اس بند ذہن معاشرے میں سب سے کامیاب یہی لوگ ہیں۔ یہ لوگ بھی اپنے کاروبار کی تشہیر اور آمدنی میں اضافہ کے لئے آج کل ویڈیو پلیٹ فارمز کو استعمال کر رہے ہیں۔

کوئی فضا میں ہاتھ بلند کرنے کے بعد اس ہاتھ پر پھونک مار کر اور انگوٹھا مسل کر کہتا ہے۔ ”فلاں ملک دو سال بعد ختم ہو جائے گا“ ۔ اس پر سامنے موجود لوگ ان کی مستقبل کے بارے پیش گوئی سن کر عش عش کر اٹھتے ہیں۔

ایک صاحب ویڈیو میں آتے ہیں اور کہتے ہیں۔ ”آج میں آپ کو آنلائن دم کروں گا، تمام مریض بیماری والی جگہ پر ہاتھ رکھ لیں“

منافقت ملاحظہ کیجئے کہ جن حضرات کو یہ لوگ آنے والے جہاں میں موجود جہنم کے نچلے گڑھے میں سمجھتے ہیں اگر انٹرنیٹ ایجاد نا کرتے تو ان کا آنلائن دم درود مریضوں کو شفا یاب کیسے کرتا؟ اور دم درود والوں کا کاروبار کورونا کے دور میں تباہ ہو جاتا۔ مگر شکر ہے ان جہنمیوں کا جنہوں نے ہمارے لئے یہ کام بھی آسان کر دیا۔

افسوس اس قوم کی حالت زار دیکھ کر ہوتا ہے۔ جو اس طرح کی بے مقصد اور فضول ویڈیوز کو عین ثواب سمجھتے ہوئے دھڑا دھڑ شیئر کرتے اور سبحان اللہ ماشااللہ کی صدائیں بلند کرتے جاتے ہیں۔ اور ساتھ میں تحریر کرتے ہیں ”شیطان آپ کو شیئر کرنے سے روکے گا“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments