خواتین کا جنسی استحصال


مملکت پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا جانے والا وطن ہے جس میں خواتین کو مردوں کے ساتھ تمام حقوق فراہم کیے گئے ہیں۔ ان کے لئے تعلیمی مدارس، دنیاوی تعلیم کی درسگاہیں موجود ہیں جن میں ان کو باوقار طریقے سے تعلیم دی جاتی ہے۔ کیوں کہ خواتین معاشرے کا اہم جزو ہیں۔ یہ کبھی ماں کے روپ میں کبھی بہن اور بیٹی کے روپ میں موجود نظر آتی ہے۔ فی زمانہ خواتین ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔ جس کی بناء پر کبھی ان کے جسمانی خد و خال کی وجہ سے ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور کبھی ان کو راہ چلتے آڑی ترچھی گھورتی نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

صنف نازک کو اکیلا پا کر راہ گزرتے چھیڑنا اور مختلف جملے بولنا رواج بنتا جا رہا ہے۔ جس کی بناء پر وہ کبھی بھی خود کو محفوظ تصور نہیں کر پاتیں۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس نے ماں کے قدموں تلے جنت کا درس دیا جس کی بناء پر زمانہ جاہلیت کے بعد خواتین کا مقام اجاگر ہوا اور ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ مگر آج کے ماڈرن دور میں پھر سے دور جاہلیت والے جراثیم کا عنصر پایا جاتا ہے۔ حال ہی میں کراچی میں مین شاہراہوں پر ہلڑ بازی اور خواتین کو ہراساں کرنے والے موٹرسائیکل سوار لڑکوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

یہ لڑکے ان شرمناک حرکات کے مرتکب کیوں ہوئے اس کے کئی اسباب ہیں۔ جن میں سے ایک بڑی وجہ فحش مواد کے خلاف قانون سازی ہونے کے باوجود اس کی روک تھام نہ ہونا ہے۔ پاکستانی ڈراموں میں سسر کا بہو کے ساتھ، بھابھی کا دیور کے ساتھ اور بھی اس قسم کے کئی رشتوں کا آپس میں ناجائز تعلق دکھایا جاتا ہے۔ انڈین و پاکستانی فلمیں اور ان کی فحش کہانیاں نوجوان نسل کو تباہ کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ جس کی بناء پر معاشرے میں جنسی جرائم میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے ملک میں جہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بات کے داعی ہیں کہ قانون کی مکمل بالادستی ہے مگر پھر بھی قانون امیروں کی باندی نظر آتا ہے۔ آئے دن دل دہلا دینے والے واقعات سننے کو ملتے ہیں جن کے مجرموں کو کبھی میڈیا پریشر اور کبھی سوشل میڈیا کمپین کی وجہ سے پکڑ تو لیا جاتا ہے لیکن بعد ازاں مجرمان رہا ہو جاتے ہیں۔ موٹروے زیادتی کیس نے سوشل میڈیا پر کافی مقبولیت حاصل کی۔ قصور میں زینب قتل کیس اور دوران پریس کانفرنس اس وقت کے وزیر اعلی محترم شہباز شریف صاحب کا مقتولہ زینب کے والد کا مائک بند کرنے کا واقع کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

قصور میں سینکڑوں بچوں کے ساتھ زیادتی کی گئی اور ان چائلڈ پورنوگرافی کی وڈیوز سے لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے کا کاروبار کیا گیا۔ ڈارک ویب پر اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث افراد کو کیوں نہیں گرفتار کیا جاتا؟ کن با اثر افراد کی ان مجرمان کو پشت پناہی حاصل ہے؟ یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی طالبات کی آئے روز وڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہیں جن میں پروفیسر حضرات کی جانب سے ان کے ساتھ جنسی درندگی اور ہراساں کی جانے کا بتایا جاتا ہے۔ یہ حیوان صفت مجرمان اپنے ہوس پوری کرنے کی خاطر کسی بھی حوا کی بیٹی کی عزت تار تار کرنے کو تیار نظر آتے ہیں۔

چند روز قبل کراچی میں ایک 6 سالہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا اور اس کی لاش کچرا کنڈی سے ملی۔ قاتل پہلے اسے رکشہ میں گھماتا پھراتا رہا پھر مردہ بچی کو کپڑا ڈال کر کچرا کنڈی پھینک گیا۔ ایسے ہی ایک خاتون شاپنگ کرنے گئی تو ڈاکوؤں نے راستے ہیں مال لوٹنے کے علاوہ عزت سے بھی کھیلا۔ اگر موٹروے زیادتی کیس کے مجرم کو سرعام پھانسی دی جاتی تو یہ راہ گزرتے دوسرا واقع رونما نہ ہوتا۔ کہاں ہیں حقوق نسواں کے علمبردار لبرل؟

کیوں پاکستان میں زنا اور اس طرح کے جرائم کے مرتکب افراد کو شرعی سزائیں نہیں جاتیں؟ وزیراعظم صاحب نے فقط ان افراد کو نامرد بنانے کی تجویز پیش کی جس کے بعد کئی حلقوں نے اس تجویز کو بہت سراہا۔ مگر ان افراد کو نامرد بنانے کی بجائے سرعام پھانسی پر لٹکایا جائے تو دیکھنے والے تمام افراد اس سے عبرت حاصل کریں گے۔ جو افراد اس راستے پر مستقبل میں چلنا چاہتے ہیں وہ بھی متنبہ ہو جائیں گے۔ مگر افسوس صد افسوس ملک پاکستان میں ستر سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ہم شرعی نظام حکومت اور شرعی سزاؤں کے مستقل نفاذ میں ناکام رہے ہیں۔

عورت مارچ میں آدھے کپڑے زیب تن کر کے جانی والی خواتین جب بازاروں میں جسم کی نمائش کریں گی تو جنسی جرائم میں اضافہ ہی ہوگا لہذا اسلام کی حدود و قیود ایک صحت مند معاشرے کے لئے لازم ہیں جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کمسن بچیوں اور بچوں سے زیادتی کرنے والے افراد کی سزائے موت کے بل کی قومی اسمبلی میں فواد چوہدری سمیت پیپلز پارٹی کے کئی نام نہاد لبرل وزرا نے مخالفت کی۔ یہی وہ عناصر ہیں جن کو اپنے مغربی آقاؤں کو خوش کرنا ہے۔

خواتین کو ہراساں کرنے والے افراد کو اگر قرار واقع سزا دی جائے تو یہ جراثیم پھیلنے سے روکے جا سکتے ہیں۔ مزید براں جسم کی نمائش کرنے والی خواتین خود کو ماڈرن اور پڑھا لکھا تصور کرتی ہیں۔ حالانکہ عورت کی زینت حجاب میں ہی ہے۔ یہ ان چند بے نسل بھیڑیوں کی ہی چال ہے کہ خواتین خود کی نمائش کریں۔ خاندانی نظام تباہ ہو اور خواتین گھروں سے نکلیں، خود کو آزاد تصور کریں اور پھر وہ بھیڑیے ان خواتین کے ساتھ تعلقات استوار کریں۔ بے حیائی کی روک تھام کے لئے حجاب کو لازمی قرار دیا جائے اور فحش لباس پہننے پر پابندی عائد کی جائے۔ تا کہ جنسی جذبات کو ہوا نہ ملے اور معاشرے میں رجحان کی صورت حال ختم ہو سکے۔ اسلامی اصولوں پر عمل درآمد کروا کر ہی خواتین کے جنسی استحصال اور جنسی جرائم کو ختم کیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments