دہشت گردی کے دور میں سمارٹ ٹیب دادا کا نعم البدل نہیں ہے


ترلوچن۔ وہ ایک دیومالائی کردار ہوا کرتا تھا، مگر اب ایسا نہیں رہا، اب وہ واقعی میں ہے، اپنی تیسری آنکھ کھول کر دیکھتا ہوا، ہر بلند و پست پر اس کی نگاہ ہے، اس کی تیسری آنکھ کی بینائی سے کوئی چھُپ نہیں سکتا، وہ آنکھ کھولتا ہے اور ہر شے کو راکھ کردیتا ہے۔

رات کے 2 بجے کا عمل تھا، میں نے سر کو کوئی پانچویں مرتبہ دیوار کے ساتھ پٹخا کہ شاید اس طریقے سے وہ بوجھل پن اور صدمہ ذہن کے اندر سے نکل جائے جو شام کو ایک ویڈیو دیکھنے کے بعد لاحق ہوا تھا۔ جیسے ہی آنکھ نیند کے لیے بند ہوتی پردہِ بصارت پر بڑی بڑی داڑھیوں والے قصاب تیز دھار چھُرے لیے سرخ لباس میں ملبوس نوخیز جوانوں کے گلے کاٹنے لگتے۔ حلقوں سے چھوٹتے لہو کے فوارے اور قربان گاہ کی چھت کے ساتھ لٹکی حلق تراشیدہ الٹی لاشیں۔۔۔۔۔۔۔آخر تشویش اتنی بڑھی کہ اُلٹیاں آنے لگیں، معدہ خالی ہو گیا مگر دماغ پھر بھی خالی نہ ہوسکا۔۔۔۔اس رات کوئی جائے اماں نہ تھی۔ معدے کی طرح دماغ کو بھی اُلٹ کر خالی کرنے کا کوئی طریقہ نہ تھا۔۔۔اُس رات پاؤں کے نیچے زمیں نہ تھی اور چھت سے سارے آسماں بھک کر کے اُڑ گئے تھے۔۔اس رات میں ایک خلا کے اندر تھی۔ کیا یہ ہے اکیسویں صدی۔ کیا ہم اپنی نئی نسلوں کو یہ تحفہ دے رہے ہیں۔ ملکی وے سے بھی اگلی کہکشاں تک مار کرنے والی سیٹلائٹ اور میزائل کے ساتھ ساتھ دہشت اور صدمے کا تحفہ؟

کیا یہ بلندی ہے یا پستی ہے؟

میرے چھوٹے بہن بھائی یہ دیکھیں گے تو ان کا کیا بنے گا؟ میں جو کہ ان کی بہادر بڑی بہن اس منظر کو نہیں سہار پا رہی، ان کا کیا بنے گا؟

اس رات صدمے اور سوالوں نے مجھے سونے نہیں دیا، اور اس رات سے اگلی کئی راتیں بھی۔ جس طرح کوبرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے والا دہشت سے ہیپناٹائز ہو جاتا ہے، ایسی ہی کسی کیفیت کے زیر اثر میں جس امکاں کو سوچ سوچ کے ہلکان ہورہی تھی، وہی میں نے کردیا۔ میں نے اگلے دن شام کی چائے پیتے ہوئے پاس بیٹھے چھوٹے بھائی سے اس داعش کی ویڈیو کا ذکر کر دیا۔ اوہ! اچھا وہ والی جس میں وہ نوجوانوں کو ذبح کر کر کے لٹکاتے جاتے ہیں؟ ۔۔اس نے بہت نارمل انداز میں جب یہ انکشاف کیا تو میرے ہاتھ کی چائے چھوٹ کر میرے قدموں میں گر گئی۔ اس نے اسی نارمل انداز میں چائے کا خالی کپ اٹھا کے اوپر رکھا۔

صفی! تم نے وہ ویڈیو کب دیکھی؟

ایک سال پہلے دیکھی تھی۔ اتنا کہہ کے وہ پھر نارمل ہو گیا۔ مذید کریدنا میں نے مناسب نہیں سمجھا۔ ممکن ہے تب اس کے ننھے ذہن کا بھی یہی حال ہوا ہو جو میرا ہوا ہے، ممکن ہے اب اس کے لیے یہ بات اس لیے نارمل ہو کہ وقت کافی بیت چکا ہے۔ کئی گماں تھے، اور ہر گماں کا ایک ممکن ہوتا ہے۔ ہم لاکھ خود کو تسلی دیں کہ مار دھاڑ والی ویڈیو گیمز کا ننھے بچوں کے دماغ پہ کوئی منفی اثر نہیں ہوتا۔ ہم ہیں نا فارغ وقت میں ان کی تربیت کرنے والے۔ ہم بچوں کے ہاتھ میں ٹیب اور سمارٹ فون دے کے آزاد ہوگئے ہیں، بچہ اپنی آن لائن ویڈیو گیمز کی دنیا میں لگا رہتا ہے ہمیں تنگ نہیں کرتا۔ یہ ویڈیو گیمز بچے کی اخلاقی اور ذہنی تربیت نہیں کرتیں بلکہ طاقتور اور قاتل کی برتری اور کمزور اور مقتول کی کمتری سکھاتی ہیں۔ ان سے ہمدردی، رواداری اور ترحم کے جذبات نہیں ابھرتے، بلکہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا احساس اجاگر ہوتا ہے۔ لڑکیاں شادی سے پہلے ہی اپنی آزادی کے لیے الگ گھر کا مطالبہ کر دیتی ہیں۔ اس الگ گھر میں انہیں سب کچھ اپنی مرضی کا مل جاتا ہے، اگر نہیں ملتی تو ان کے بچوں کو دادا اور دادی کی شفیق گود نہیں ملتی، ان کے کہنہ بدن کی مخصوص خوشبو سے ان کی شامہ محروم رہتی ہے، ان کی نرم آواز کی کہانیوں سے بچوں کی سماعتیں بے بہرہ رہتی ہیں۔ پاپا کبھی دادا ابو کا نعم البدل نہیں ہو سکتے، اور ماما کبھی دادی امی کی جگہ نہیں لے سکتیں۔

کارپوریٹ کلچر، شخصی آزادی کے نعرے ہمیں ہر گذرتے دن کے ساتھ کھوکھلا کررہے ہیں۔ میرا تین سال کا بھتیجا جب اپنے دادا کے ساتھ کھیل رہا ہوتا ہے تو دادا اور پوتے کے پورے بدن سے ایک جیسی سر خوشی کی لہریں نکل رہی ہوتی ہیں، جو پاس موجود ناظرین کو بھی نہال کردیتی ہیں۔ اگر اسی بچے کا بازو کھینچ کر اسے دادا سے الگ کر کے اس کے ہاتھ میں ایک ٹیب پکڑا دیا جائے تو کیا و ہ ٹیب دادا کا نعم البدل ہوگا؟ میں جب بھی اپنی مرضی سے علیحدہ گھر میں رہ رہی اور اپنے بچوں کی بدتمیزیوں سے عاجز آئی ہوئی کسی بہن کی شکایت پر اسے یہ بات سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں تو الٹا لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ آگے سے سسرال کی ہزار برائیاں بیان کی جاتی ہیں۔ ساس اور سُسر کے نازیبا رویوں کی شکایت کی جاتی ہے۔ اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت کوئی بھی نہیں کرتی، میری یہ بہنیں اپنی اولاد کو اپنے ہاتھوں سے جہنم میں جھونک کر اس ناز میں مبتلا ہیں کہ وہ پڑھی لکھی اور ماڈرن مائیں ہیں اور ان کے بچوں کو ہر سہولت میسر ہے۔ ان کے پاس سمارٹ فون ہیں، ٹیب ہیں، اور وہ آن لائن نئی سے نئی ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں۔ وہ اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ کل کو ان کے بچے دہشت طاری کرنے والی حقیقی ویڈیوز بھی دیکھیں گے، اس کے بعد وہ پورن ویڈیوز بھی دیکھیں گے، جو معصوم اذہان کو جانے کہاں سے کہاں لے کے جائیں گی۔ جن بچوں کو ہم بہت سے خواب دیکھ کے پیدا کرتے ہیں ان کی جوانی ایک بھیانک سپنے کی صورت نکلے تو اس سے بڑی اور بدنصیبی کوئی نہیں ہے۔

مجھے نہیں معلوم کہ چھوٹے بھائی سے بات کرنے کے بعد میں مطمئن ہوں کہ میرا گمان ممکن ہو گیا۔ یا میری تشویش مذید ہو گئی ہے۔ کچھ سوال میرے ہیں، کچھ آپ سوچیں۔

نوٹ!۔۔۔کچھ عرصہ سے مجھے بہت ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ انسان کا ربط فطرت سے کٹ رہا ہے لہذا یہ بحال ہونا چاہیے۔ اور عالمی فضا کے اندر دہشت بڑھ رہی ہے، سو میں محبت کی تلاش میں ہوں اور جب تک زندہ ہوں تلاش کرتی رہوں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).