بہروپیے کھلاڑی


برصغیر میں اسلام کی ترویج و اشاعت میں اولیائے کرام اور صوفیائے عظام کا کردار انتہائی اہم رہا ہے اس لیے زمانہ قدیم سے ہی عوام حصول علم، عقائد کی درستگی اور مذہبی و معاشرتی مسائل کے حل کے لیے درگاہوں، خانقاہوں اور آستانوں کا رخ کر کے فیض یاب ہوتے چلے آ رہے ہیں متعدد پیچیدہ روحانی امراض کے علاج کی خاطر بھی بڑی تعداد میں لوگ کشف اور معرفت الٰہی سے آشنا شخصیات کی تلاش میں رہتے ہیں۔

نیک اور اہل علم ہستیوں کی جگہ رفتہ رفتہ ایسے لوگ منظر عام پر نمودار ہونے لگے جن کی وضع قطع تو دیندار لوگوں جیسی ہی ہے لیکن علم و عمل خاصا مختلف ہے موجودہ زمانے میں حالات اس قدر گمبھیر ہوچکے ہیں کہ اتنے مرید نہیں جتنے پیر و مرشد مشہور ہو چکے ہیں بنگلہ دیش میں اتنے بابے نہیں ہوں گے جتنے پاکستان میں بنگالی بابے جنات کو قید کر کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ جدید سائنسی و مذہبی علوم کے اس تحقیقی دور میں ایسے سادہ لوح عوام بھی ہیں جو کسی بھی جگہ درختوں سے رنگ برنگی جھنڈیاں لٹکتی دیکھ کر سلام عقیدت پیش کرنے کو سعادت سمجھتے ہوئے ٹھگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو قبروں کو کیش کروا رہے ہوتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں کسی پیچیدہ مرض میں مبتلا جو مریض شفاخانہ یا طبیب کے علاج سے سنبھل نہ رہا ہو تو مذہبی و سائنسی تعلیمات سے عاری سیانے لوگ اسے کسی پہنچے ہوئے عامل بابے کے پاس لے جانے کا مشورہ دیتے ہیں مریض اور لواحقین تمام تر کوششوں کے باوجود افاقہ نہ ہونے کی صورت میں ہر در پر دستک دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں مجبوراً عاملوں کے پاس بھی چلے جاتے ہیں جہاں سے حقیقی معنوں میں ان کی ناکامی کا آغاز ہوتا ہے پھر دین و ایمان سلامت رہتا ہے نہ ہی صحت بلکہ ساری زندگی کی جمع پونجی بھی ضعیف الاعتقادی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔

سادہ لوح عوام کو لوٹنے کی خاطر پیری کا لبادہ اوڑھے ان نام نہاد عاملوں کا طریقہ واردات ہی ایسا ہوتا ہے کہ پھر ان سے جان چھڑانا خاصا مشکل ہو جاتا ہے دم درود نذر نذرانے مختلف تعویزات و عملیات سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ بہت دور تک جاتا ہے مریدوں کی نفسیات اور فہم و فراست پر اس قدر قابو پا لیا جاتا ہے کہ باغی ہونے والے مرید کو بھی جائز و ناجائز کام کے لیے دوبارہ اپنے دربار پر آنے کے لیے مجبور کر لیا جاتا ہے دن بدن مرید بیچارے ایک دلدل میں دھنسے ہی چلے جاتے ہیں اور روپے پیسے سے محروم ہوتے رہتے ہیں۔

ایسا ہی ایک واقعہ چند سال قبل ہری پور میں پیش آیا ایک افغان مہاجر عامل بھی انسانوں کو جنات کی مکاریوں سے نجات دلانے میں مشہور تھا گاڑیوں کے ایک مکینک کی بیوی کو علاج کے لیے اس کے پاس لے جایا گیا اس نے کسی طرح خاتون کو ورغلا لیا اور بات بہت دور تک گئی تاہم تنگ آمد بجنگ آمد خاتون کے خاوند نے ایک دن موصوف کو گاڑی پر سوار کیا اور ایک ویرانے میں لے جاکر قتل کر دیا اندھے قتل کا سوشل میڈیا پر چرچا ہوا تو پولیس حرکت میں آئی اور سفید پوش قاتل کو گرفتار کرنے کے بعد میڈیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے پریس کانفرنس کی تو دوران تفتیش ملزم کی جانب سے بتائی گئی ساری تفصیلات میڈیا نمائندگان کے سامنے بیان کیں داستان اس قدر دکھ بھری تھی کہ وہاں موجود تمام میڈیا نمائندگان نے مقتول کے لیے اظہار افسوس کے بجائے قاتل کے باریش چہرے پر ہمدردانہ نگاہیں ڈالیں اور پولیس افسران و اہلکاروں کے لہجے میں بھی پہلی بار مجبور قاتل کے لیے نرمی دیکھنے کو ملی۔ ایک ایس ایچ او نے میڈیا نمائندگان سے آف دی ریکارڈ یہ گزارش بھی کر دی کہ شہر میں موجود ایسے شیطان صفت عناصر کی نشاندہی کریں کارروائی کی جائے گی۔

میڈیا نے ملک بھر میں پیری کا لبادہ اوڑھے ایسے سینکڑوں بہروپیے بے نقاب کیے ہیں جو قرآن و حدیث کا علم تو دور کی بات مسلمان ہونے کی بنیادی شرائط سے بھی نابلد تھے اور سادہ لوح و ضعیف الاعتقاد لوگوں کے جذبات و احساسات سے کھلواڑ کر رہے تھے لیکن کسی حکومت نے بھی ان کی بیخ کنی کے لیے قانون سازی کرنے یا ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اس طرح ایسے نوسر بازوں اور بہروپیے کھلاڑیوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو مجبوراً اگر ایسے لوگوں کی خدمات حاصل کرنی پڑھیں تو کئی بار چھان بین و تحقیق اور علمائے حق سے معلومات حاصل کرنے کے بعد ہی کسی حد تک اعتماد کریں۔ علمائے کرام اور صوفیائے کرام ان جعلی پیروں اور عاملوں کے خلاف جمعہ کے خطبات اور فکری مجالس کے ذریعے عوام میں شعور بیدار کرنے کی کوشش کریں۔ تعلیم یافتہ لوگ اور میڈیا ایسے عناصر کی نشاندہی کرنے میں متحرک کردار ادا کریں اور حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ عوام کو ان ظالموں اور شرک کی فیکٹریاں چلانے والوں کے چنگل سے آزاد کرانے کے لیے جامع قانون سازی کرنے کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں قائم خانقاہوں، درگاہوں، مزارات اور آستانوں کی رجسٹریشن کر کے انھیں قانون کے تابع لائے۔

اسلامی نظریاتی کونسل یا تنظیم اور وفاق المدارس جیسے مذہبی اداروں اور علمائے حق و صوفیائے کرام کی زیر سرپرستی ایسے لوگوں کی تحقیقات کر کے جعلی پیروں اور عاملوں کو قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ ان کی غلطیوں کی وجہ سے اہل علم و عمل کی بدنامی کا سلسلہ رک سکے اور عوام ایسے بھیڑیوں کے ہتھے چڑھ کر اپنی دنیا و آخرت برباد کرنے سے محفوظ رہ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments