سوتیلا آدمی – اردو کے شاہکار افسانے

جاڑوں کی رات تھی۔ سر شام ہی سناٹا پڑ گیا تھا۔ میری ہمیشہ کی عادت ہے کہ دیر سے سوتا ہوں۔ اول شب کبھی نیند نہیں آئی۔ اس روز بھی ایسا ہی ہوا۔ گھر کے اور لوگ تو کبھی کے اپنے اپنے بستروں پر جا چکے تھے۔ میں کچھ دیر تک ایک جاسوسی ناول پڑھتا رہا۔ اس کے بعد یوں ہی بیٹھے بیٹھے گنگنانے لگا۔ چھٹے اسیر، تو بدلا ہوا زمانہ تھانہ پھول نہ چمن تھا نہ آشیانہ تھا۔ غالباً محمد جوہر کی غزل کا شعر ہے۔ ان دنوں فلم ”دیوداس“ نئی نئی ریلیز ہوئی تھی۔سہگل کے گانوں سے گلی کوچے گونج رہے تھے۔ جسے دیکھیے الاپ رہا ہے۔ ”بالم آئے بسو مورے من میں۔ “ لیکن یہ غزل پہاڑی سا نیال نے گائی تھی۔ نہ جانے کیوں اس وقت میں اسے گنگنانے لگا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ میں کئی سال بعد لکھنو واپس آیا تھا۔ پرانا مکان چھٹ چکا تھا اور نئے مکان میں یہ میری پہلی شب تھی۔ گنگناتے گنگناتے مزے میں جو آیاتو اونچے سروں میں گانے لگا۔ میرا کمرہ سب سے الگ تھلگ سڑک کے رخ پر تھا۔

آدھے گھنٹے کا خدا – اردو کا شاہکار افسانہ

وہ آدمی اس کا پیچھا کر رہے تھے۔ اتنی بلندی سے وہ دونوں نیچے سپاٹ کھیتوں میں چلتے ہوئے دو چھوٹے سے کھلونوں کی طرح نظر آ رہے تھے۔ دونوں کے کندھوں پر تیلیوں کی طرح باریک رائفلیں رکھی نظر آ رہی تھیں۔ یقیناً ان کا ارادہ اسے جان سے مار دینے کا تھا۔ مگر…

خزاں سردی میں آتی ہے؟

کبھی آپ نے ٹنڈ مُنڈ درخت دیکھے؟ کبھی چِر چِر کرتے پتوں کی آواز سُنی؟ کبھی شاں شاں کرتی تیز ہواؤں سے پالا پڑا؟ کبھی کمرے سے باہر نکلنے پر ایسا لگا کہ جیسے باہر پھوار میں آ گئے ہوں آپ، جبکہ باہر موسم بالکل صاف ہو؟ کبھی آپ کے نصیب نہیں، بلکہ آپ کے…

وہ بڈھا – راجندر سنگھ بیدی کا شاہکار افسانہ

میں نہیں جانتی۔ میں تو مزے میں چلی جا رہی تھی۔ میرے ہاتھ میں کالے رنگ کا ایک پرس تھا، جس میں چاندی کے تار سے کچھ کڑھا ہوا تھا اور میں ہاتھ میں اسے گھما رہی تھی۔ کچھ دیر میں اچک کر فٹ پاتھ پر ہو گئی، کیو ں کہ مین روڈ پر سے…

نام دیو مالی: مولوی عبد الحق

نام دیو مقبرہ رابعہ درانی اورنگ آباد (دکن) کے باغ میں مالی تھا۔ ذات کا ڈھیڑ جوبہت نیچ قوم خیال کی جاتی ہے۔ قوموں کا امتیاز مصنوعی ہے اور رفتہ رفتہ نسلی ہوگیا ہے۔ سچائی، نیکی، حسن کسی کی میراث نہیں۔ یہ خوبیاں نیچی ذات والوں میں بھی ایسی ہی ہوتی ہیں جیسی اونچی ذات والوں میں۔

قیس ہو کوہکن ہو یا حالی
عاشقی کچھ کسی کی ذات نہیں

مقبرے کا باغ میری نگرانی میں تھا۔ میرے رہنے کا مکان بھی باغ کے احاطے ہی میں تھا۔ میں نے اپنے بنگلے کے سامنے چمن بنانے کا کام نام دیو کے سپرد کیا۔ میں اندر کمرے میں کام کرتا رہتا تھا۔ میری میز کے سامنے بڑی سی کھڑکی تھی۔ اس میں سے چمن صاف نظر آتا تھا۔ لکھتے لکھتے کبھی نظر اٹھا کر دیکھا تو نام دیو کو ہمہ تن اپنے کام میں مصروف پاتا۔ بعض دفعہ اس کی حرکتیں دیکھ کر بہت تعجب ہوتا۔ مثلاً کیا دیکھتا ہوں کہ نام دیو ایک پودے کے سامنے بیٹھا اس کا تھانولا صاف کر رہا ہے۔

پتلی بائی: غلام عباس

محبت کا جذبہ پہلے پہل انسان کے دل میں کب بیدار ہوتا ہے، اس کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں۔ بعض لوگ لڑکپن ہی سے عاشق مزاج ہوتے ہیں اور بعض بلوغت کو پہنچ کے بھی اس جذبے سے بے بہرہ ہی رہتے ہیں۔

میری عمر کوئی نو دس برس کی ہوگی کہ مجھے عشق ہو گیا۔ عہد طفلی کا وہ معصوم عشق نہیں جو کھلونوں سے بہل جاتا ہے۔ بلکہ سچ مچ کا ہجر و وصال والا عشق جس میں محبوب کی یاد آہیں بھرواتی ہے۔ دل میں ہوک اٹھتی ہے۔ چہرے کا رنگ زرد رہنے لگتا ہے۔ بھوک پیاس کی سدھ نہیں رہتی۔ جس نے مجھے اس مرض میں مبتلا کیا وہ میری کوئی ہم عمر لڑکی نہ تھی۔ بلکہ بیس بائیس برس کی ایک پوری جوان عورت تھی۔ ایک خوبصورت ایکٹرس!