جانور راج: تبدیلی کا خواب

جارج آرویل کا مشہور ناول اینیمل فارم دوسری عالمی جنگ کے دوران لکھا گیا تھا اور 1945 میں شائع ہوا۔ یہ ایک فارم ہاؤس پر لکھا گیا ہے جس کے جانور باشعور ہو جاتے ہیں اور انسانوں کی ظالمانہ حکومت کے خلاف تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ یہ ناول روسی بالشویک انقلاب کے واقعات اور کرداروں…

جانور راج: میجر کی انقلابی تقریر

قسط نمبر 2۔ ”مگر کیا یہ قدرت کے منصوبے کا حصہ ہے؟ کیا یہ سب اس لئے ہے کہ ہماری دھرتی ماں ایسی کنگلی ہے کہ اپنی کوکھ کے پلے بیٹوں کو، ایک باعزت زندگی بھی نہیں دے سکتی؟ نہیں کامریڈز! ایک ہزار بار نہیں۔ انگلستان کی زمین زرخیز ہے، اس کی آب و ہوا…

جانور راج ؛ وحوشِ انگلستان کا ترانہ

” اور اب کامریڈز! میں آپ کو اپنے شبِ گذشتہ کے خواب کے بارے میں بتاتا ہوں۔ میں اس خواب کو آپ کے سامنے بیان ہی نہیں کر سکتا۔ یہ ایک ایسی سر زمین کا خواب ہے، جہاں سے انسان، غائب ہو چکا ہو گا لیکن اس سے مجھے ایک بھولی بسری بات یاد آگئی۔…

جانور راج : انقلاب آ گیا

تیسری رات، میجر، سوتے سوتے، سکون سے فوت ہوگیا۔ اس کی نعش، پھلوں کے باغ کے پائینتی دفن کر دی گئی۔ یہ اوائلِ مارچ کے دن تھے۔ اگلے تین ماہ میں خوب خفیہ کارروائیاں جاری رہیں۔ میجر کی اس تقریر نے باڑے کے ذہین جانوروں پہ زندگی کی ایک بالکل نئی جہت وا کر دی…

جانور راج۔ تبدیلی کا سات نکاتی منشور

پہلے چند منٹ تو جانور اپنی خوش بختی پہ یقین ہی نہ کر پائے۔ سب سے پہلے تو وہ ایک جلوس کی شکل میں پورے باڑے کی حدوں کے ساتھ ساتھ دوڑتے پھرے اور یہ پتا لگایا کہ کہیں کوئی آدم زاد تو نہیں چھپا ہوا؟ پھر وہ دڑکی لگا کے باڑے کی عمارتوں میں…

جانور راج: ”اب سب جانور کامریڈز ہیں“۔

جئی کی کٹائی میں انہوں نے کیسے اپنا خون پسینہ ایک کیا، نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے۔ مگر ان کی کوششیں رنگ لائیں اور جھاڑ ان کی امیدوں سے کہیں بڑھ کر آیا۔ کبھی، کام پہاڑ بن جاتا تھا، اوزار تو انسانوں کے لئے بنے تھے، جانوروں کے لئے نہیں اور ایک بہت بڑی…

جانور راج- قیادت کے لئے کھانے پینے کی اہمیت

بہت سوچ بچار کے بعد، سنو بال نے اعلان کیا کہ سات نکات کو ایک واحد نعرے میں سمویا جاسکتا ہے، یعنی، ’چار لاتیں اچھی ہیں، دو لاتیں بری ہیں‘ ۔ یہ، اس نے کہا کہ حیوانیت کے حقیقی اصول کا حامل ہے۔ جو کوئی اسے مکمل طور پہ سمجھ لے گا، انسان کے شر سے محفوظ رہے گا۔ پرندوں نے پہلے تو احتجاج کیا کیونکہ انہیں لگا کہ ان کی بھی دو لاتیں ہیں مگر سنو بال نے ثابت کیا کہ ایسا نہیں ہے۔

پرندوں کو سنو بال کی طولانی تقریر تو سمجھ نہ آئی مگر انہوں نے اس کی وضاحت کو قبول کر لیا اور تمام بھولے جانور، نئے نعرے کو رٹنے میں جت گئے۔ ’چار لاتیں اچھی ہیں، دو لاتیں بری ہیں‘ ، گودام کی آخری دیوار پہ سات نکات سے اوپر مزید جلی حروف میں لکھ دیا گیا۔ جب ایک بار انہوں نے اسے رٹ لیا تو بھیڑوں کو یہ قول ایسا بھایا کہ اکثر جب وہ کھیتوں میں سستا رہی ہوتی تھیں تو سب کی سب اکٹھی ممیانا شروع کردیتی تھیں، ’چار لاتیں اچھی ہیں، دو لاتیں بری ہیں! چار لاتیں اچھی ہیں، دو لاتیں بری ہیں‘ اور گھنٹوں تک بنا اکتائے دہرائے چلی جاتی تھیں۔

جانور راج! تبدیلی کی ہوا چل پڑی

موسمِ گرما کے آخر تک آدھے ملک میں خبر پھیل چکی تھی کہ جانوروں کے باڑے پہ کیا ہوا۔ ہر روز، نپولین اور سنو بال کبوتروں کی ٹکڑیاں بھیجا کرتے تھے، جنہیں ہدایات دی جاتی تھیں کہ پڑوسی مزرعوں کے جانوروں میں گھل مل جائیں، انہیں انقلاب کی داستان سنائیں اور ’وحوشِ انگلستان‘ کے ترانے کی دھن سکھائیں۔

یہ وقت، جانی صاحب نے زیادہ تر، ڈھپئی میں چھجو کے چوبارے کے دارو والے کمرے میں جمے، ہر کس و ناکس سے اپنے ساتھ، کسی نہ جوگے جانوروں کے ہاتھوں اپنی جائیداد سے بے دخل ہونے والی عظیم نا انصافی پہ شکوہ کناں گزارا۔ دوسرے کسانوں نے اصولی طور پہ تو اس سے ہمدردی جتائی مگر ابتدأ میں اس کی کوئی خاص مدد نہ کی۔ درونِ دل، ان میں سے ہر کوئی یہ خواہش پال رہا تھا کہ وہ جانی کی بد قسمتی کو اپنے فائدے میں کیسے بدل سکتا ہے؟ یہ بھی خوش قسمتی تھی کہ جانوروں کے باڑے سے لگواں دونوں مزرعوں میں پکی دشمنی چلی آرہی تھی۔

جانور راج! انسانوں سے پہلی جنگ

اکتوبر کے اوائل میں، جب مکئی کی کٹائی ہو کے ڈھیریاں لگ چکی تھیں اور کچھ مکئی گاہ بھی لی گئی تھی، کبوتروں کی ایک ٹکڑی، ہوا میں ڈولتی، ہڑبڑائی ہوئی باڑے کے چوگان میں اتری۔ جانی صاحب اور اس کے گماشتے، ’بوہڑ والا‘ اور ’خالصہ کلاں‘ کے قریبا نصف درجن انسانوں کے ساتھ بڑے پھاٹک سے اندر داخل ہو کے بڑی وٹ کی طرف گامزن تھے جو سیدھی باڑے میں پہنچتی تھی۔ سبھوں نے ماسوأ جانی کے لاٹھیاں پکڑی ہوئی تھیں، جانی بندوق لئے سب سے آگے دندناتا آرہا تھا۔ ظاہر ہے وہ فارم پہ دوبارہ قبضہ کرنے کے چکر میں آئے تھے۔

اس واردات کا عرصے سے اندیشہ تھا اور سب تیاریاں کر لی گئی تھیں۔ سنو بال، جس نے جولیس سیزر کی مہمات پہ ایک پرانی کتاب پڑھی تھی، جو اسے رہائشی مکان سے ملی تھی، دفاعی مہم کا منتظم تھا۔ اس نے سرعت سے احکامات جاری کیے اور دو ہی منٹوں میں ہر جانور نے اپنی پوزیشن سنبھال لی۔

جانور راج۔ جنگ کے بعد

سب انسان دفعان ہوگئے ماسوائے ایک کے۔ پیچھے، صحن میں، باکسر اپنے کھر سے، لید اٹھانے والے لڑکے کو سیدھا کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو منہ کے بل، کیچڑ میں گرا پڑا تھا۔ لونڈا نہ ہلا۔
” یہ مر چکا ہے۔ “ باکسر نے تاسف سے کہا۔ ”میرا یہ مقصد نہیں تھا۔ میں بھول گیا تھا کہ میرے نعل ٹھکے ہوئے ہیں۔ کون مانے گا کہ میں نے یہ جان بوجھ کر نہیں کیا؟ “

” جذباتیت نہیں کامریڈ! “ سنو بال چلایا جس کے زخموں سے ابھی تک خون ٹپک رہا تھا۔ ”جنگ، جنگ ہوتی ہے، واحد اچھا انسان، ایک مردہ انسان ہے۔ “
” میں کسی کی جان نہیں لینا چاہتا، حد یہ کہ ایک انسان کی جان بھی۔ “ باکسر نے آنسو بھری آنکھوں سے دہرایا۔
” مولی کہاں ہے؟ “ کسی نے پوچھا۔

اینمل فارم! پون چکی کا منصوبہ

کلوور کے دماغ میں ایک خیال کا کوندا لپکا۔ دوسروں سے کچھ بھی کہے بغیر، وہ مولی کے تھان کو گئی اوراپنے کھر سے پیال الٹی۔ پیال کے نیچے، شکر کی بھیلیوں کی ایک ڈھیری اور گڈا کے گڈا، مختلف رنگ کے موباف چھپے ہوئے تھے۔

تین روز بعد مولی غائب ہوگئی۔ کچھ ہفتوں تک، کسی کو اس کا کوئی اتا پتا نہ ملا، تب کچھ کبوترو ں نے خبر دی کہ انہو ں نے اسے ڈھپئی کے دوسری طرف دیکھا ہے۔ وہ ایک سرخ اور سیاہ رنگی، ٹم ٹم نما منی سی گھوڑا گاڑی میں جتی ہوئی تھی جو ایک شراب خانے کے باہر کھڑی تھی۔ ایک موٹا، سر خ چہرے والاآدمی جو کلال لگ رہا تھا، ڈبیوں والی برجیس اور چمڑے کے لمبے بوٹ ڈانٹے، اس کی تھوتھنی سہلا رہاتھا اور اسے شکر کی بھیلیا ں کھلا رہا تھا۔ اس کی تازہ تازہ حجامت بنی ہوئی تھی اور ایال میں چہچہاتے سرخ رنگ کا موباف گوندھا ہوا تھا۔ وہ مزے میں تھی، ایسا کبوتروں نے کہا۔ کسی بھی جانور نے دوبارہ مولی کا تذکرہ نہیں کیا۔

جانور راج: سنو بال کا فرار

پورا باڑہ، پون چکی کے سوال پہ بری طرح منقسم ہو چکا تھا۔ سنو بال اس بات سے منکر نہیں تھا کہ پون چکی کی تعمیر بڑی مشقت طلب ہو گی۔ پتھر اٹھانے پڑیں گے، دیواروں میں چننے پڑیں گے، دھرے بنانے پڑیں گے اور پھر، ڈائنموز اور تاروں کی ضرورت پڑے گی۔ ( یہ سب کیسے ہوگا، سنو بال نے کچھ نہ کہا تھا) مگر وہ اس بات پہ قائم تھا کہ یہ سب ایک سال کی مار ہے۔ اور اس کے بعد اس نے اعلان کیا کہ اتنی مشقت بچ جائے گی کہ جانوروں کو فقط ہفتے کے تین دن کام کرنا پڑے گا۔

دوسری طرف نپولین کا کہنا تھا کہ خوراک کی پیداوار بڑھانا، لمحہء موجود کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور اگر جانوروں نے پون چکی پہ وقت ضائع کیا تو وہ سب فاقوں مریں گے۔ ’سنو بال کو ووٹ دو، ہفتے میں تین روز کام کرو‘ اور ’نپولین کو ووٹ دو، پورا ہفتہ خوراک اگاؤ ‘ کے نعروں کے تحت، جانوروں نے دو دھڑے بنا لئے۔ بنجامن گدھا، واحد جانور تھا، جو کسی دھڑے میں شامل نہیں ہوا۔ اس نے خوراک کی پیداوار اور پون چکی کے مشقت بچانے کی بات، دونوں ہی میں یقین کرنے سے انکار کردیا۔ پون چکی ہو یا نہ ہو، اس نے کہا، زندگی یوں ہی چلتی رہے گی جیسا کہ سدا چلتی آئی ہے، یعنی، بے ڈھنگی۔

جانور راج: پون چکی ناگزیر ہے!

تمام جانور، سہمے ہوئے اور خاموش، واپس باڑے میں کھسک آئے۔ ایک ساعت ہی میں کتے بھی لپکتے ہوئے آئے۔ ذرا دیر تو کوئی بھی نہ سمجھ سکا کہ یہ مخلوق آئی کہاں سے؟ مگر جلد ہی یہ عقدہ بھی حل ہو گیا: یہ وہی پلے تھے، جنہیں نپولین نے ان کی ماؤں سے لے لیا تھا اور علیحدگی میں پالا تھا۔ گو ابھی ان کی بڑھوار پوری نہ ہوئی تھی مگر وہ بڑے جثے کے کتے تھے اور دیکھنے میں بھیڑیوں جیسے خوفناک لگتے تھے۔ وہ نپولین کے قریب ہی کھڑے تھے۔ صاف نظر آرہا تھا کہ وہ اسی طرح دمیں ہلا رہے تھے جیسے دوسرے کتے، جانی صاحب کو دیکھ کے ہلاتے تھے۔

جانور راج! کرپٹ انسانوں سے نجات کے بعد

اس پورے برس، جانوروں نے غلاموں کی طرح بیگار کاٹی۔ مگر وہ اپنے کام میں خوش تھے ؛ انہیں اپنی کاوشوں اور قربانیوں کا کوئی ملال نہ تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ یا تو ان کے بھلے کے لئے ہے یا ان کے بعد آنے والے ان ہی جیسوں کے لئے، نا کہ نکمے، اچکے، کرپٹ انسان نامی گروہ کے لئے۔

جانور راج: انسانوں سے تجارت کی شروعات

ایک اتوار کی صبح، جب جانور اپنے احکامات وصول کرنے کے لئے جمع ہوئے تو نپولین نے اعلان کیا کہ اس نے ایک پالیسی وضع کی ہے۔ اب سے جانوروں کا باڑہ، پڑوس کے باڑوں کے ساتھ تجارت، کیا کرے گا:ظاہر ہے کمانے کے مقصد سے نہیں، بس کچھ ایسی اشیاء کے حصول کے لئے جو کہ ازحد ضروری تھیں۔ پون چکی کی اہمیت، ہر ایک شے سے سوأ ہونی چاہییے، اس نے کہا۔ چنانچہ، وہ، توڑی کی ایک دھڑ، اور اس سال کی گندم میں سے کچھ حصہ بیچنے کی بات چیت کر رہا ہے۔ اگر مزید رقم درکار ہوئی تو وہ انڈوں کی فروخت سے پوری کی جائے گی جن کی ڈھپئی میں ہمیشہ ہی بڑی مانگ رہی ہے۔ مرغیوں کو یہ قربانی، پون چکی کی تعمیر میں اپنا حصہ سمجھ کے قبول کرنی چاہیے، نپولین نے کہا۔

جانور راج: پون چکی کی تباہی

یہ ہی وہ وقت تھا جب سؤر، رہائشی عمارتوں میں جابسے۔ جانوروں کو ایک بار پھر ایسا لگا کہ شروع میں اس کے خلاف بھی ایک قرارداد منظور کی گئی تھی اور ایک بار پھر چیخم چاخ انہیں یہ سمجھانے میں کامیاب رہا کہ معاملہ یہ نہیں تھا۔ یہ بے حد ضروری تھا کہ سؤروں کو، اس نے کہا، جو کہ باڑے کا دماغ ہیں، کام کرنے کو ایک پر سکون جگہ ملے۔ یہ ’لیڈر‘ کی عظمت کو خاص تھا (کچھ عرصے سے اس نے نپولین کو ’لیڈر‘ کے خطاب سے پکارنا شروع کر دیا تھا) کہ وہ سؤروں کے باڑے کی بجائے مکان میں رہے۔

جانور راج: معاشی بحران اور مرغیوں کے انڈے

بڑی ہی سخت جاڑا تھا۔ طوفانی آندھیوں کے بعد، اولے اور برف پڑتی رہی اور پھر بڑا بھاری کہرہ، جو فروری تک چھایا رہا۔ جانور جس حد تک کر سکتے تھے، پون چکی کی تعمیر میں جتے رہے، جانتے تھے کہ باہر کی دنیا دیکھ رہی ہے اور حاسد انسان چکی کے وقت سر تعمیر نہ ہونے پہ خوش ہو ں گے۔

جانور راج: سنوبال کی سازشیں

جانی صاحب کے نکلنے کے بعد پہلی بار کچھ ایسا ہوا جو انقلاب جیسا ہی تھا۔ تین کالی اصیل مرغیوں کی سرکردگی میں مرغیوں نے نپولین کی خواہشوں کا تیا پانچہ کرنے کے لئے بہت جم کے کوشش کی۔ ان کا طریقۂ کاریہ تھا کہ وہ اڑ کر شہتیروں تک جاتیں اور وہاں بیٹھ کر انڈا دیتیں جو فرش پہ گر کے، ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا۔ نپولین نے سرعت اور سفاکی سے قدم اٹھایا۔ اس نے مرغیوں کا دانہ بند کردیا اور حکم دیا کہ اگر کوئی جانور انہیں مکئی کا ایک دانہ بھی دیتا ہوا پایا گیا تو اس کی گردن مار دی جائے گی۔

جانور راج: باکسر کا اختلاف اور چیخم چاخ کا کینہ

یہ بات ہضم کرنے میں مگرانہیں کچھ وقت لگا۔ ان سبھوں کو یاد تھا یا پھر انہیں لگا کہ انہیں یاد تھا کہ کیسے سنو بال ان سے آگے، بڑھ کے حملہ کر رہا تھا اور کیسے اس نے ہر موقعے پر انہیں مجتمع کیا اور بڑھاوا دیا اور کس طرح وہ ایک لحظے کو بھی نہ تھما حتیٰ کہ جانی صاحب کی بندوق کے چھروں نے اس کی پشت کو گھائل کر دیا تب بھی۔ شروع میں یہ سمجھنا مشکل تھا کہ یہ سب اس کے جانی صاحب کے ساتھ ہونے کے کھانچے میں کیسے بیٹھتا ہے۔ حد یہ کہ باکسر جو کہ شاذ ہی سوال کرتا تھا، گڑبڑا گیا۔ وہ اپنے کھر جسم تلے سمیٹ کے دراز ہوا، آنکھیں موندیں اور بڑی مشقت سے اپنی سوچوں کو مجتمع کیا۔

جانور راج: انقلاب دشمنوں کا قتل اور آزادی اظہار پر پابندی

نپولین نے سنجیدگی سے کھڑے ہو کے اپنے سامعین کا جائزہ کیا؛ پھر اس نے ایک کریہہ اور عنیف، عف عف بلند کی۔ اچانک ہی کتے آگے جھپٹے اور چار سؤروں کو کان سے پکڑ ا، درد اور دہشت سے چلاتے ان سؤروں کو گھسیٹتے ہوئے نپولین کے قدموں میں لا ڈھیر کیا۔ سؤروں کے کانوں سے خون بہہ رہا تھا اور کتوں کے منہ کو خون لگا چند ثانیوں کے لئے وہ ہلکا (پاگل) سے گئے۔ سب کو ششدر کرتے ہوئے ان میں سے تین، باکسر پہ جھپٹے۔ باکسر نے انہیں جھپٹتے ہوئے دیکھا اور اپنا جسیم کھر لہرایا، ایک کتے کو ہوا ہی میں جالیا اور زمین چٹائی۔

جانور راج: عظیم لیڈر نپولین

چند روز بعد، جب گردن زدنیوں سے پھیلی دہشت، ختم ہوئی، کچھ جانوروں کو یاد آیا، یا انہیں لگا کہ انہیں یاد آیا کہ چھٹا نکتہ یہ کہتا تھا، ”کوئی بھی جانور، کسی بھی جانور کو قتل نہ کرے“۔ اور گو کہ کسی نے یہ بات سؤروں اورکتوں کے کان میں ڈالنے کی ضرورت محسوس نہ کی، مگر یہ لگا کہ جو ہلاکتیں کی گئی ہیں وہ اس کے ساتھ لگا نہیں کھاتیں۔ کلوور نے بنجامن گدھے سے کہا کہ اسے چھٹا نکتہ پڑھ کر سنائے۔ اور جب بنجامن نے ہمیشہ کی طرح کہا کہ وہ ان معاملوں میں نہیں پڑنا چاہتا، وہ میوریل بکری کو لے آئی۔

جانور راج! ”مرگ بر انسان“ سے ”مرگ بر روفا جٹ“ تک

نپولین کو یہ نظم بھائی اور اس نے اسے بڑے گودام کی دیوار پہ سات نکات سے بالکل پرلے سرے پہ لکھنے کا کہا۔ اس سے اوپر چیخم چاخ نے نپولین کی رسمی لباس میں تصویر، سفید روغن سے بنائی۔

اسی دوران، جناب نویدِ مسرت کی وساطت سے، نپولین مسٹر اللہ دتہ اور روفے جٹ کے ساتھ پیچیدہ مذاکرات میں مصروف رہا۔ لکڑیوں کا ڈھیر ابھی تک نہ بکا تھا۔ دونوں میں سے روفا جٹ، اسے حاصل کرنے کا زیادہ خواہش مند تھا، مگر وہ اچھی قیمت نہیں دیتا تھا۔ اسی موقعے پہ یہ افواہ بھی اڑ رہی تھی کہ روفا جٹ اور اس کے گرگے، جانوروں کے باڑے پہ حملہ کرنا اور پون چکی کو ڈھانا چاہتے تھے کیونکہ اس کی تعمیر نے اسے جلا جلا کر خاک کر دیا تھا۔

جانور راج: روفے جٹ کی دغا بازی

موسم خزاں میں تھکا دینے والی، سخت مشقت کے بعد ( کیونکہ ساتھ کے ساتھ کٹائی بھی جاری تھی ) پون چکی مکمل ہو ہی گئی۔ مشین ابھی لگنے والی تھی اور جناب نوید مسرت اس کی خرید کے لئے بات چیت کر رہے تھے، مگر عمارت بن چکی تھی۔ ہر مشکل، ناتجربہ کاری، پہلا پہلا کار، بد نصیبی اور سنو بال کی حرمزدگی کے باوجود، کام عین مقررہ دن پہ مکمل ہوا! تھکن سے چور مگر سرخرو، جانور اپنے شاہکار کا طواف پہ طواف کرتے رہے جو کہ ان کی نظروں میں اس سے زیادہ خوبصورت تھا جو انہوں نے پہلے بنایا تھا۔ مزید برآں دیواریں پہلے سے دوگنی موٹی تھیں۔ بم سے ہلکی کوئی شے اس بار ان کی محنت کو مٹی میں نہیں ملا سکتی تھی۔

جانور راج: پون چکی کی تباہی

اسی دوران، روفا اور اس کے گرگے، پون چکی کے قریب پہنچے۔ جانوروں نے یہ دیکھا اور ان میں مایوسی کی سرگوشی سی پھیل گئی۔ ان میں سے دو مسٹنڈوں نے ہتھوڑا اور کسنی نکالی۔ وہ تو پون چکی کو ڈھانے کے داؤ میں تھے۔ ”ناممکن! “ نپولین بنکارا۔ ”ہم نے دیواریں اتنی موٹی بنائی…

جانور راج: کوئی بھی جانور زیادہ شراب نہیں پیئے گا!

(جارج آرویل؛مترجم آمنہ مفتی) لشتم پشتم وہ احاطے میں پہنچے۔ باکسر کی لات کی کھال میں گھسے چھروں سے دردناک ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ وہ اپنے سامنے، پون چکی کو بنیادوں سے تعمیر کرنے کی کڑی مشقت دیکھ رہا تھا اور خیالوں میں خود کو اس کام کے لئے تیار کر رہا تھا۔ مگر پہلی…

جانور راج: خوراک کی راشن بندی

(جارج آرویل، مترجم: آمنہ مفتی) باکسر کے زخمی کھر کو مندمل ہونے میں طویل عرصہ لگا۔ انہوں نے جشنِ فتح ختم ہونے کے اگلے ہی روزسے پون چکی کی تعمیرِ نو شروع کر دی تھی۔ باکسر نے ایک روز کی چھٹی لینے سے بھی انکار کر دیا اور اس بات کو انا کا مسئلہ بنا…

جانور راج: نئے ترانے اور اچانک مظاہرے

جانور راج: نئے ترانے اور اچانک مظاہرے
جارج آرویل

اخیر فروری کی ایک سہ پہر، جانی صاحب کے دور کے متروکہ، کشید خانے سے جو بارچی خانے سے پرے تھا، ایک کوسی کوسی، اشتہا انگیز، مخمور سی خوشبو کی لپٹیں احاطے کی طرف آئیں، یہ ایسی خوشبو تھی جو جانوروں نے پہلے کبھی نہ سونگھی تھی۔ کسی نے کہا کہ یہ ابلتے جو کی بھپکار ہے۔ جانوروں نے ہوا کو ندیدے پن سے سونگھا اور سوچا کہ ممکن ہے ان کے کھانے کے لئے گرما گرم دلیہ پک رہا ہو۔ مگر کوئی گرم دلیہ نمودار نہ ہوا، اور اگلی اتوار یہ اعلان ہوا کہ اب سے سارا جو، صرف سؤروں کے لئے مختص ہو گا۔ باغ سے پرے والے کھیت میں پہلے ہی جو بویا جا چکا تھا۔ اور جلد ہی خبر اڑی کہ نپولین کے ساتھ ساتھ، جس کے لئے آدھا گیلن شراب پہلے ہی مختص تھی، اور جو اسے ہمیشہ کراؤن ڈربی کے بادیے میں پیش کی جاتی تھی، اب ہر سؤر کوبھی شراب کا ایک پوا راشن میں ملا کرے گا۔

جانور راج: انقلابی ہیرو باکسر، قصاب کو بیچ دیا گیا

جب باکسر کا کھر، مندمل ہو گیا تو اس نے ہمیشہ سے زیادہ کام کیا۔ درحقیقت، اس برس، تمام جانوروں نے غلاموں کی طرح کام کیا۔ فارم کے روزمرہ کے کاموں، پون چکی کی تعمیرِ نو کے علاوہ، ننھے سؤروں کے لئے سکول کی عمارت بھی تھی جس ابتداء مارچ میں ہوئی۔ بعض اوقات، کم خوراک کھا کے کئی کئی گھنٹے کام کرنا، برداشت سے باہر بھی ہو جاتا تھا، لیکن، باکسر کبھی نہ لڑ کھڑایا۔ اپنے قول اور فعل سے وہ کبھی یہ ظاہر نہ کرتا کہ اس کی طاقت اب وہ نہیں جو کبھی ہوا کرتی تھی۔

جانور راج! باکسر کی یاد میں عشائیہ

تین روز بعد یہ اعلان کیا گیا کہ وہ ڈھپئی کے شفا خانے میں، ایک گھوڑے کو جیسی توجہ دی جا سکتی ہے، وہ سب ملنے کے باوجود، باکسر مر گیا۔ چیخم چاخ سب کو خبر دینے آیا۔ اس نے کہا کہ وہ باکسر کے آخری وقت میں اس کے پاس موجود تھا۔

”وہ دلگداز منظر تھا کہ عمر بھر ایسا منظر نہ دیکھا“ ۔ چیخم چاخ نے کھر سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ ”میں آخر تک اس کی پٹی پکڑے ہوئے تھا۔ اور آخر دموں پہ، بالکل ڈوبتی سانسوں میں اس نے بدقت میرے کان میں سرگوشی کی کہ اسے بس یہ ہی دکھ ہے کہ وہ پون چکی کی تعمیر مکمل ہونے سے پہلے مر رہا ہے۔ ’آگے بڑھو کامریڈز!‘ اس نے سرگوشی کی۔ ’قدم بڑھاؤ، انقلاب کے نام پہ، جانور راج زندہ باد، کامریڈ نپولین پائندہ باد! نپولین ہمیشہ درست کہتا ہے۔‘ یہ تھے اس کے آخری الفاظ کامریڈز!“ ۔

جانور راج! – فارم کیسا بن گیا؟

سال گزرے۔ موسم آتے اور جاتے رہے، جانور کی مختصر زندگیاں گزر گئیں۔ ایک وقت آیا کہ سوائے کلوور، بنجامن، منوا اور چند سؤروں کے سوا کوئی بھی ایسا نہ رہ گیا جسے انقلاب سے پہلے کا زمانہ یاد ہو۔

میورئیل مر چکی تھی؛ بلیو بیل، جیسی اور پنچر مر گئے تھے۔ جانی صاحب بھی مر گیا تھا۔ وہ کسی دور گاؤں میں ایک چانڈو خانے میں مرا تھا۔ سنو بال کو بھلا دیا گیا تھا۔ سوائے ان چند کے جو اسے جانتے تھے، باکسر کو بھی بھلا دیا گیا تھا۔ کلوور اب ایک بوڑھی، فربہ گھوڑی تھی، جس کی آنکھیں بہتی تھیں اور گھٹنوں کو گٹھیا مار گیا تھا۔ وہ ریٹائرمنٹ کی عمر سے بھی دو سال پھلانگ چکی تھی، مگر حقیقت میں کوئی بھی جانور کبھی بھی ریٹائرڈ نہیں ہوا تھا۔

جانور راج! مت کیجیو اعتبار ہستی، ہرچند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔ آخری قسط

گرمیوں کے اوائل میں ایک روز، چیخم چاخ نے بھیڑوں کو اپنے پیچھے آنے کا کہا اور انہیں، فارم کے آخری حصے میں ایک اجاڑ قطعۂ زمین کی طرف لے گیا، جہاں سفیدے کے خود رو پودے تھے۔ بھیڑوں نے پورا دن چیخم چاخ کی نگرانی میں ان کے پتوں کو چرتے گزارا۔ شام کو وہ خود تو فارم ہاؤس لوٹ آیا مگر چونکہ موسم گرم تھا، اس لئے بھیڑوں کو وہیں رکنے کو کہا۔ یہ قیام کہیں ایک ہفتے میں جا کے تمام ہوا، جس کے دوران کسی جانور نے ان کو نہ دیکھا۔ چیخم چاخ ہی دن کا بڑا حصہ ان کے ساتھ گزارتا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ ان کو ایک نیا ترانہ سکھا رہا تھا، جس کے لئے رازداری ضروری تھی۔

یہ، بھیڑوں کے واپس آنے کے فوراً بعد کی ایک خوشگوار شام تھی جب، جانور کام سے فارغ ہو کے باڑے کو لوٹ رہے تھے کہ احاطے کی طرف سے ایک گھوڑے کی خوفزدہ ہنہناہٹ سنائی دی۔ چوکنے جانور اپنے قدموں پہ ساکت ہو گئے۔ یہ کلوور کی آواز تھی۔ وہ دوبارہ ہنہنائی اور تمام جانور، دڑکی لگا کر احاطے میں گھسے۔ تب انہوں نے وہ دیکھا جو کلوور دیکھ چکی تھی۔
یہ ایک سؤر تھا جو اپنی پچھلی دو ٹانگوں پہ چل رہا تھا۔