یوول نوح حراری: اکیسویں صدی کے 21 سبق (قسط نمبر 1)۔

باب نمبر 1: فریب نگاہ تاریخ کے اختتام کو موخر کردیا گیا ہے انسان حقائق، اعداد یا حسابی مساوات کی بجائے کہانیوں میں سوچتا ہے۔ ہر شخص، گروہ اور قوم کی اپنی کہانی اور دیو مالا ہوتی ہے۔ لیکن بیسویں صدی کے دوران نیویارک، لندن، برلن اور ماسکو جیسی عالمی اشرافیہ نے تین بڑی کہانیوں…

یوول نوح حراری: مچھر مارنے سے خیالات کے قتل تک (قسط نمبر 2 )۔

مچھر مارنے سے خیالات کے قتل تک نظام زندگی میں ٹیکنالوجی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی دراندازی کی وجہ سے بدحواسی اور سر پر منڈلاتی موت کا خوف بڑھ گیا۔ لبرل سیاسی نظام صنعتی دور میں بھاپ سے چلنے والے انجن، تیل صاف کرنے کے کارخانے اور ٹیلی ویژن کے انتظام و انصرام سنبھالنے کے…

اکیسویں صدی کے اکیس سبق – آزاد پرندہ (قسط 3)۔

ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا ہے کہ لبرل سٹوری کو اعتماد کے فقدان کا سامنا ہے۔ انیسویں صدی کے آخری حصے میں جب سے اس کہانی کو عالمی اثرورسوخ حاصل ہوا ہے، اس کہانی کو بحران کا سامنا ہے۔ گلوبلائزیشن اور لبرل ازم کے پہلے دور کا خاتمہ (جب شاہی طاقت کی سیاست نے عالمی ترقی کے عمل میں رکاوٹ پیدا کی) پہلی جنگ عظیم کی خون ریزی کے ساتھ ہوا۔ آنے والے دنوں میں ’آرچ ڈیوک فرانز فرڈیننڈ‘ کے قتل نے یہ حقیقت عیاں کردی کہ بڑی طاقتیں لبرل ازم کی بجائے امپیریل ازم پر یقین رکھتی ہیں۔

اس لیے انہوں نے آزاد او ر پرامن تجارت کے ذریعے پوری دنیا کو متحد کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ بلکہ وہ دنیا کے ایک بڑے حصے کو ظالمانہ طریقے سے طاقت کا استعمال کر کے فتح کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ تاہم لبرل ازم نے فرانز فرڈیننڈ تحریک کو زندگی بخشی اور اس ظالمانہ بھنور کے اندر سے پہلے کی نسبت طاقتور ہو کر باہر نکلی اور دنیا کو نوید سنائی کہ یہ جنگ تمام جنگوں کا خاتمہ کردے گی۔ مبینہ طور پر اس بے مثال قتل و غارت نے انسان کو سامراجیت کی خوفناک قیمت کا سبق سکھایا اور اب دنیا مکمل طور پر آزادی اور امن کی بنیاد پر ایک نئی دنیا تخلیق کرنے کے لیے تیار کیا۔

جب آپ جوان ہوں گے تو آپ کے پاس کوئی روزگار نہیں ہوگا

ہمیں اس امر کا بالکل بھی اندازہ نہیں ہے کہ 2050 میں جاب مارکیٹ کی صورتحال کیا ہوگی۔ عام طور پر اس بات سے اتفاق ممکن ہے کہ مشین لرننگ اور روبوٹ دہی بنانے سے لے کر یوگا کی تعلیم دینے تک تقریباً ہر کام کی صورتحال کو بدل کر رکھ دیں گے۔ تاہم اس تبدیلی کی نوعیت اور اس کے وقوع پذیر ہونے کے بارے میں متضاد نظریات موجود ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ صرف ایک یا دو دہائی کے اندر ہی اربوں افراد معاشی طور پر بے کار ہوجائیں گے، جب کہ دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ طویل عرصے تک خود کار طریقے سے سب کے لیے ملازمتیں اور خوشحالی کے اسباب پیدا ہوتے رہیں گے۔

لہذا کیا ہم ایک خوفناک تبدیلی کے دہانے پر کھڑے ہیں یا پھر ایسی پیشین گوئیاں ’لڈائیٹ ہسٹیریا‘ کی ایک اور مثال ہے۔ فی الحال یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ یہ خدشہ کہ آٹومیشن سے بڑے پیمانے پر پھیلنے والی تباہی ہمیں واپس انیسویں صدی میں لے جائے گی۔ صنعتی انقلاب کے آغاز کے بعد کم از کم ہر اس شخص کے لیے نوکری پیدا کی گئی جو مشین آنے سے بیکار ہوگیا تھا۔ اس کی بدولت اوسط معیار زندگی میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا۔ لیکن یہ بات غور و فکر کرنے سے تعلق رکھتی ہے کہ اب کی بار کہانی مختلف ہے کیونکہ مشین لرننگ حقیقت میں گیم چینجر ثابت ہوگی۔

اکیسویں صدی کے اکیس سبق: موزارت بمقابلہ مشین

کم ازکم فی الحال مصنوعی ذہانت اور روبوٹ ٹیکنالوجی سے ساری صنعتوں کے مکمل طور پر ختم کرنے کا امکان نہیں ہے۔ صرف چند ایک نوکریاں جنہیں چلانے کے لیے خاص مہارت کی ضرورت ہوتی ہے بس انہیں ہی خود کار کیا جا ئے گا۔ لیکن انسانوں کو معمول کی ایسی نوکریوں میں مشینوں سے…

یوول نوح حراری: اکیسویں صدی کے اکیس سبق (قسط نمبر6)۔

آرٹ سے لے کر ہیلتھ کیئر تک ہر فیلڈ میں روایتی ملازمتوں کو جزوی طور پر نئی انسانی ملازمتوں کی تخلیق سے پورا کیا جائے گا۔ آج جو میڈیکل ڈاکٹر بیماریوں کی تشخیص اور ان کے علاج پر توجہ دیتے ہیں، شاید ان کی جگہ مصنوعی ذہین ڈاکٹر لے لیں۔ خاص اسی امر کی بدولت انسانی ڈاکٹروں اور لیب معاونین کو اہم تحقیقات کرنے، نئی ادویات کی تیاری اور جراحی کے جدید طریقہ کار وضع کرنے کے لیے زیادہ رقم دستیاب ہوگی۔

مصنوعی ذہانت مختلف انداز میں نئی انسانی ملازمتیں پیدا کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔ اس لیے ہمیں مصنوعی ذہانت سے مقابلہ کرنے کی بجائے، اس سے خدمات لینے اور فائدہ اٹھانے پر توجہ دینی چاہیے۔ مثال کے طور پر ڈرون کی وجہ سے بہت سے انسانی پائلٹوں کی ملازمت ختم ہو گئی ہے، لیکن ڈرونوں کی مرمت کرنا، انہیں ریموٹ کنٹرول سے قابو کرنا، ان کے مہیا کیے گئے ڈیٹا کا تجزیہ کرنا اور سائبر سکیورٹی سمیت دیگر شعبوں میں ملازمت کے بہت سے مواقع پیدا ہوچکے ہیں۔

امریکی مسلح افواج کو شام میں اڑنے والے ہر بغیر پائلٹ ’پرڈیٹر‘ یا ’ریپر ڈرون‘ کو چلانے کے لیے تیس افراد کی ضرورت ہے، جبکہ دستیاب

روبوٹکس ٹیکنالوجی اور روز گار کا بحران

مسئلہ کے حل کی تین ممکنہ صورتیں ہو سکتی ہیں۔ پہلی، یہ فیصلہ کرنا کہ نوکریاں کھونے سے بچنے کے لیے کیا کرنا ہے؟ دوسری، مزید نئی ملازمتوں کو پیدا کرنے کے لیے کیا کرنا ہے؟ اور تیسری، اگر ہماری بہترین کوششوں کے باوجود ملازمتیں ختم ہونے کی رفتار نوکریوں کو پیدا کرنے کی رفتارسے…

آٹومیشن کا انقلاب غریب ممالک کو تباہ کر دے گا؟

جب لوگ عالم گیر مدد کی بات کرتے ہیں (چاہے وہ آمدنی یا خدمات کی شکل میں ہوں ) تو ان کی بات کا مطلب قومی بنیادی تعاون ہوتا ہے۔ اسی لیے ابھی تک یو بی آئی کے تمام تر اقدامات قومی یا میونسپلٹی رہے ہیں۔ جنوری 2017 میں فن لینڈ نے ایک دوسالہ تجربہ…

یوول نوح حراری: اکیسویں صدی کے اکیس سبق (قسط نمبر 9)۔

عالمی بنیادی مدد کیا ہے؟

عالمی بنیادی مدد کا مطلب انسانوں کی بنیادی ضروریات کی دیکھ بھال کرنا ہے، تاہم اس امر کے لیے کوئی قابل قبول تعریف نہیں ہے۔ خالصتاً بیالوجی کے نقطہ نظر سے ایک سیپئن کو زندہ رہنے کے لیے پندرہ سو سے دو ہزار کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ کی طلب عیاشی ہے۔ تاہم تاریخ میں ہر ثقافت نے اس بنیادی حیاتیاتی ضرورت سے زائد خواہشات کو بھی بنیادی ضرورت کے زمرے میں شامل رکھا ہے۔ قرون وسطیٰ کے یورپ میں چرچ کی خدمات کو کھانے پینے سے زیادہ اہم سمجھا جاتا تھا۔

اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس نے آپ کے جسم کی بجائے آپ کی ابدی روح کا خیال رکھا تھا۔ آج کے یورپ میں تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کو بنیادی ضرورت سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ کچھ لوگوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ اب انٹرنیٹ تک ہر مرد، عورت اور بچے کی رسائی ضروری ہے۔ اس کرہ ارض پر موجود ہر شخص کو (ڈھاکہ کی طرح ڈیٹرائٹ میں بھی) بنیادی مدد فراہم کرنے کے لیے اگر 2050 میں متحدہ عالمی حکومت گوگل، ایمیزون، بیدو اور ٹین سینٹ کو ٹیکس دینے پر راضی کرلیتے ہیں تو وہ دو الفاظ ’بنیادی‘ اور ’ضروریات‘ کے فلسفہ کو کس طرح سے سلجھا پائیں گے؟

مثال کے طور پر بنیادی تعلیم میں کیا کیا شامل ہے؟ کیا بنیادی تعلیم میں محض لکھنا اور پڑھنا سیکھنا کافی ہے یا پھر اس میں کمپیوٹر

بریگزٹ ریفرینڈم میں یہ کیوں پوچھا گیا کہ آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟

لبرل کہانی انسانی آزادی کو سب سے اہم قدر کے طور پر پسند کرتی ہے۔ اس کہانی کی دلیل یہ ہے کہ تمام تر اختیارات بالآخر فرد واحد کی آزادانہ مرضی سے حاصل ہوتے ہیں، جن کا اظہار جذبات، خواہشات اور انتخابات میں ہوتا ہے۔ لہذا یہ جمہوری انتخابات کی حمایت کرتا ہے۔ معیشت کے دائرہ کار میں لبرل ازم کا ماننا ہے کہ گاہک ہمیشہ درست ہوتا ہے، اسی بنا پر یہ آزادانہ تجارت کو خوش آمدید کہتا ہے۔ ذاتی معاملات میں لبرل ازم لوگوں کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ (جب تک دوسروں کی آزادی کی خلاف ورزی نہیں کرتاہے ) اپنی بات سنیں، اپنی ذات کے ساتھ سچے رہیں اور اپنے دل کی پیروی کریں۔ کیونکہ اس کے مطابق دوسروں کی ذاتی آزادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔

جدید دنیا میں ہمارے لئے سیگرٹ نوشی جاری رکھنا ناممکن ہو جائے گا

افراد کے احساسات اور آزادانہ انتخاب پر لبرل بیانیے کا یقین قدرتی عمل ہے اور نہ ہی بہت قدیم بات ہے۔ ہزاروں سال سے لوگ یہ مانتے آئے ہیں کہ خود پہ اختیار انسانی دل سے نہیں بلکہ خدائی قوانین سے حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں انسانی آزادی کی بجائے خدا کے کلام کو…

کیا گوگل، بائیو میٹرک، جی پی ایس اور الگورتھم کی دنیا میں ہماری انفرادی شناخت گم ہو جائے گی؟  

جو عمل ادویات کے شعبہ میں پہلے ہی شروع ہوچکا ہے اب وہی عمل زیادہ سے زیادہ شعبوں میں شروع ہونے والا ہے۔ سب سے اہم ایجاد بائیو میٹرک سینسر ہے جسے لوگ اپنے جسم کے اوپر یا اندر لگا سکتے ہیں اور جو بیالوجیکل عمل کو الیکٹرانک معلومات میں تبدیل کرتا ہے۔ جس کو…

خودکار فلسفی گاڑی اپنے مالک کو قربان کرے گی یا راہگیر کو؟

لوگوں کو اس بات پر اعتراض ہو سکتا ہے کہ الگورتھم ہمارے لیے کبھی بھی اہم فیصلہ نہیں کر سکتا ہے۔ کیونکہ عام طور پر اہم فیصلوں میں اخلاقی پہلو شامل ہوتے ہیں اور الگورتھم اخلاقیات کو نہیں سمجھتے۔ اس کے باوجود یہ فرض کر لینے کی بھی بالکل کوئی وجہ نہیں ہے کہ الگورتھم اخلاقیات کے میدان میں ایک عام انسان کو مات نہیں دے سکے گا۔ پہلے ہی اسمارٹ فون اور خودمختار گاڑیوں جیسے آلات ایسے فیصلے کرتے ہیں، جو کبھی انسان کی اجارہ داری تھے۔ انہوں نے ان تمام اخلاقی مسائل کا سامنا کرنا شروع کر دیا ہے جن سے انسان کئی صدیوں سے نبرد آزما ہیں۔

مثال کے طور پر فرض کریں دو بچے گیند کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور اچانک سے وہ خود کار گاڑی کے سامنے جمپ لگا دیتے ہیں۔ اپنے حساب کتاب کی بنیاد پر گاڑی چلانے ولا الگورتھم یہ طے کرے گا کہ دونوں بچوں کو بچانے کا واحد راستہ مخالف سمت میں موجود گلی میں گھسنا ہے اور جبکہ دوسری طرف سے آنے والے ٹرک سے ٹکرانے کا خطرہ ہے۔ الگورتھم حساب کتاب لگاتا ہے کہ ایسی صورت حال میں کار کا مالک جو پچھلی نشست پر سو رہا ہے، اس کے مارے جانے کے ستر فیصد امکان ہیں۔ اب الگورتھم کو کیا کرنا چاہیے؟

ڈیجیٹل آمریت: اکیسویں صدی کے اکیس سبق (قسط نمبر 14)۔

جب تک روبوٹ شفیق آقاؤں کی خدمات میں لگے رہتے ہیں، یقیناً تب تک ان کی اندھی فرمانبرداری میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہاں تک کہ جنگ کے دوران قاتل روبوٹوں پر انحصار کرنا اس بات کو یقینی بنا سکتا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار میدان جنگ میں جنگی قوانین پر عمل کیا جائے گا۔ انسانی فوجی کبھی کبھار اپنے جذبات سے مغلوب ہو کر قتل، لوٹ کھسوٹ اور عصمت دری جیسے اعمال کی بدولت جنگی قوانین کی خلاف ورزی کر بیٹھتے ہیں۔ عمومی طور پر ہم جذبات کو ہمدردی، محبت اور رحم دلی سے جوڑتے ہیں، لیکن اکثر جنگ کے وقت خوف، نفرت اور ظلم جیسے جذبات ہمارے اوپر حاوی ہو جاتے ہیں۔ چونکہ روبوٹ میں جذبات نہیں ہوتے ہیں، اس لیے ان پر اعتماد کیا جاسکتا ہے کہ وہ ہمیشہ سخت نوعیت کے فوجی ضابطہ اخلاق کی پابندی کریں گے اور کبھی ذاتی خوف اور نفرتوں کے زیر اثر بہہ نہیں جائیں گے۔

مصنوعی ذہانت اور قدرتی حماقت

خوشخبری کا ایک حصہ تو یہ ہے کہ کم از کم اگلی چند دہائیوں میں ہمیں مصنوعی ذہانت کے شعور حاصل کرنے اور انسانیت کو غلام بنانے یا مٹانے کا فیصلہ کرنے والی سائنس فکشن کے ڈراؤنے خوابوں سے نمٹنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم تیزی سے الگورتھم پر انحصار کریں گے، لیکن اس بات…

فیس بک اپنی ذمہ داری کا ثبوت دے

ترجمہ: زبیر لودھی کیلیفورنیا زلزلوں کا عادی ہے، لیکن دو ہزار سولہ کے امریکی انتخابات کا سیاسی زلزلہ ابھی بھی سلی کون ویلی کے لیے ایک بہت بڑا صدمہ ہے۔ کمپیوٹر ماہرین نے یہ اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے کہ وہ مسئلہ کا بہتر حل تلاش کر سکتے ہیں، انہوں نے بہترین کام کیا…

آن لائن اور آف لائن کا تقابل

حالیہ برسوں میں فیس بک کو حیرت انگیز کامیابی ملی ہے۔ اس وقت، اس میں دو ارب سے زیادہ متحرک آن لائن صارفین ہیں۔ پھر بھی اس کے نئے وژن کو نافذ کرنے کے لیے آن لائن اور آف لائن کے مابین کشمکش کو ختم کرنا پڑے گا۔ ایک کمیونٹی بطور آن لائن اجتماع کے شروع ہو سکتی ہے، لیکن حقیقت میں اسے نشو و نما پانے کے لیے آف لائن دنیا میں بھی جڑیں پانا ہوں گی۔ اگر ایک دن کچھ ڈکٹیٹر اپنے ملک سے فیس بک پر پابندی لگاتے ہیں، یا اسے مکمل طور پر انٹرنیٹ سے ہٹا دیتے ہیں، تو کیا یہ آن لائن کمیونیٹی ختم ہو جائیں گی، یا پھر دوبارہ جمع ہو کر لڑیں گی؟ کیا وہ آن لائن مواصلات کے بغیر کسی مظاہرے کا اہتمام کر سکیں گی؟

مارک زکر برگ نے فروری 2017ء کے اپنے منشور میں وضاحت کی تھی کہ آن لائن کمیونٹیاں، آف لائن تعلقات کو فروغ دینے میں مدد کرتی ہیں۔ یہ کبھی کبھی سچ ہوتا ہے۔ پھر بھی بہت سے معاملات میں آن لائن تعلق، آف لائن کی قیمت ادا کرنے پر آتا ہے۔ لیکن پھر بھی ان دونوں میں بنیادی فرق ہے۔ جسمانی برادریوں میں گہرائی ہے، جس کا مقابلہ ورچوئل کمیونٹیاں نہیں کر سکتیں۔ کم از کم مستقبل قریب میں ایسا ممکن نہیں۔ اگر میں اسرائیل میں اپنے گھر کے اندر بیمار پڑا ہوں، تو کیلیفورنیا سے میرے آن لائن دوست مجھ سے بات کر سکتے ہیں، لیکن وہ مجھے سوپ یا ایک کپ چائے لا کر نہیں دے سکتے۔

جرمن اور گوریلے

جانوروں کی پرجاتیوں سے انسانی گروہوں کو ممتاز کرنا ایک دقیق عمل ہے۔ پرجاتیاں اکثر تقسیم ہوجاتی ہیں، لیکن وہ کبھی بھی ضم نہیں ہوتیں۔ لگ بھگ سات لاکھ سال پہلے چمپینزی اور گوریلوں کے مشترکہ اجداد تھے۔ یہ واحد نسلی نوع دو آبادیوں میں تقسیم ہو گئی جو آخر کار ان کے الگ الگ ارتقائی راستوں پر چل پڑی۔ ایک بار جب یہ ہو گیا تو پھر واپس جانے کی کوئی بات نہیں تھی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ مختلف پرجاتیوں سے تعلق رکھنے والے افراد آپسی میلاپ سے زرخیز اولاد پیدا نہیں کر سکتے ہیں، لہذا انواع کبھی بھی ضم نہیں ہو سکتی۔ گوریلے چمپینزیوں کے ساتھ ضم نہیں ہوسکتے ہیں، زیبرے ہاتھیوں کے ساتھ نہیں مل سکتے ہیں اور کتے بلیوں کے ساتھ نہیں مل سکتے ہیں۔

عالمی مسائل کے عالمی جواب درکار ہیں

(یوول نوح حراری - مترجم: زبیر لودھی) یہ حقیقت عیاں ہے کہ پوری انسانیت اب ایک ہی تہذیب کی تشکیل کر رہی ہے، تمام لوگوں کو یکساں چیلنجز کا سامنا ہے اور مواقع مشترک ہیں۔ لیکن پھر بھی برطانوی، امریکی، روسی اور متعدد دوسرے گروہ قوم پرست تنہائی کی طرف کیوں رجوع کرتے ہیں؟ کیا…

جوہری چیلنج اور قوم پرستی

آئیے ہم انسانیت کے روگ یعنی جوہری جنگ سے اپنی بات کا آغاز کرتے ہیں۔ جب گل داؤدی والا اشتہار 1964 میں نشر ہوا (کیوبن میزائل بحران سے دو سال بعد ) جوہری طور پر فنا ہو جانے کا واضح خطرہ تھا۔ عام لوگوں اور پنڈتوں کا بھی یہی خیال تھا کہ انسان اتنے عقل…

یوول نوح حراری اور ماحولیاتی چیلنج

انسانیت کو آنے والی دہائی میں ایٹمی جنگ سے زیادہ ایک نئے خطرے کا سامنا ہے، جو شاید 1964ء تک سیاسی راڈار پر درج نہیں تھا اور اس خطرے کا نام ہے ماحولیاتی تباہی۔ انسان متعدد انداز میں عالمی حیاتیات کو غیر مستحکم کر رہا ہے۔ ہم ماحول سے زیادہ سے زیادہ وسائل لے رہے…

اکیسویں صدی میں تکنیکی تباہی کے امکانات

یہ مسئلہ کسی بھی قوم پرست تریاق کو خراب کر سکتا ہے۔ اکیسویں صدی کے اس تیسرے خطرے کا نام تکنیکی تباہی ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے ابواب میں دیکھا ہے کہ انفوٹیک اور بائیوٹیک کے ملاپ سے قیامت کے منظرنامے کا دروازہ کھلتا ہے۔ جس میں ڈیجیٹل آمریت سے لے کر عالمی سطح…

تکنیکی تباہی: اکیسویں صدی کے اکیس سبق

یہی مسئلہ کسی بھی قوم پرست تریاق کو خراب کر سکتا ہے۔ اکیسویں صدی کے اس تیسرے خطرے کا نام تکنیکی تباہی ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے ابواب میں دیکھا ہے کہ انفوٹیک اور بائیوٹیک کے ملاپ سے قیامت کے منظرنامے کا دروازہ کھلتا ہے۔ جس میں ڈیجیٹل آمریت سے لے کر عالمی سطح کے بیکار طبقے کی تشکیل تک شامل ہیں۔

اس لعنت کا قوم پرست اقوام کے پاس کیا جواب ہے؟

کسی بھی قوم پرست کے پاس اس کا جواب نہیں ہے۔ جیسا کہ آب و ہوا کی تبدیلی کی صورت میں (اسی طرح تکنیکی خلل کے ساتھ) قومی ریاست خطرے سے

سیارہ زمین: اکیسویں صدی کے اکیس سبق

جوہری جنگ، ماحولیاتی خاتمے اور تکنیکی خرابی ان تینوں مسائل میں سے ہر ایک انسانی تہذیب کے مستقبل کے لیے خطرہ ہے۔ لیکن ان سب نے مل کر غیر معمولی وجودی بحران کو مزید بڑھا دیا ہے، کیونکہ یہ ایک دوسرے کو تقویت دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ماحولیاتی بحران انسانی تہذیب کی بقا…

کیا مذہب اب انسانیت کے کام آ سکے گا؟ 

تحریر: یوول نوح حراری - ترجمہ: زبیر لودھی اب تک جدید نظریات، سائنسی ماہرین اور قومی حکومتیں انسانیت کے مستقبل کے لیے ایک قابل عمل وژن بنانے میں ناکام ہیں۔ کیا اس طرح کا نظریہ انسانی مذہبی روایات کے کنواں سے نکالا جاسکتا ہے؟ ہو سکتا ہے اس کا جواب بائبل، قرآن یا وید کے…

مسیحی ماحولیات اور مسلم معاشیات

تحریر: یوول نوح حراری - ترجمہ: زبیر لودھی  اگرچہ سائنس ہمیں تکنیکی سوالات جیسے خسرہ کے علاج کے طریقہ کار کے واضح جوابات مہیا کرتی ہے، لیکن پالیسی کے سوالات کے بارے میں سائنس دانوں میں کافی اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ تقریباً تمام سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ گلوبل وارمنگ ایک…

شناخت کے مسائل: ریت میں لکیریں

بلاشبہ مارکس نے اس وقت مبالغہ آرائی کی جب اس نے مذہب کو محض ایک سٹرکچر کے طور پر مسترد کر دیا اور کہا کہ یہ طاقتور اور معاشی قوتوں کو چھپا رہا ہے۔ یہاں تک کہ اگر اسلام، ہندوازم یا عیسائیت کی مثال ایک جدید معاشی ڈھانچے پہ محض ایک رنگین سجاوٹ جیسی ہے،…

قوم پرستی کی نوکرانی

اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ٹیکنالوجی کس قدر ترقی کر لے گی، ہم ہر حال میں توقع کر سکتے ہیں کہ مذہبی شناختوں اور رسومات کے بارے میں دلائل نئی ٹیکنالوجیز کے استعمال پر اثرانداز ہوتے رہیں گے اور دنیا کو شدید متاثر کرنے کی اپنی قوت کو برقرار رکھ سکیں گے۔…