جسے میں اتنی دیر سے رافع سمجھ رہی تھی وہ باسط تھا۔ میرے منہ سے چیخ نکلنے ہی والی تھی کہ اس نے سختی سے میرے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا۔
”خبردار کسی کو کچھ بتایا تو۔ تیرا شوہر تو کچھ کر نہیں سکتا مجھ پہ الزام لگایا تو میں صاف مکر جاؤں گا۔ لچھن تیرے ایسے ہیں کہ سب ہی میری بات پہ یقین کریں گے تجھ پہ کوئی یقین نہیں کرے گا“ اس کی آنکھوں میں مجھے درندے کی سی سفاکیت جھلکتی ہوئی لگ رہی تھی۔
وہ تو چلا گیا میں چپکے چپکے سسکتی رہی۔ رافع تقریباً آدھا گھنٹے بعد آئے۔ آتے ہی والٹ وغیرہ نکال کے رکھنے لگے ساتھ تفصیل بتانے لگے کہ دیر کیوں لگ گئی۔ میری طرف ان کی توجہ تب گئی جب کافی دیر تک میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔