چوتھی قسط ثقافتی انقلاب۔ شروع سے آخر تک غلط

جب ہم وہاں پہنچے تو میڈیا اور ادب میں چار کے ٹولے کے خلاف بہت کچھ لکھا جا رہا تھا۔ کیسے لوگوں کی زندگی کے قیمتی سال ضائع ہوئے، ان پر کیا کیا ظلم ہوئے۔ ایسی کامیڈی فلمیں بن رہی تھیں جن میں ثقافتی انقلاب کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ ”یہ پڑھے لکھے لوگ آخر اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہیں؟ کسان اور مزدور ان کی نظروں میں حقیر ہیں۔ اسپتال میں سرجن صاحب بہت اونچی چیز سمجھتے ہیں خود کو جب کہ ہم تو انسانی مساوات میں یقین رکھتے ہیں۔ ہم ایک کسان کو سرجن کی ملازمت دیں گے اور سرجن کو کھیتی باڑی کرنے کے لئے گاؤں بھیج دیں گے“ ۔

ایسا ہی کیا گیا اور پھر آپریشن تھیٹر میں مزاحیہ انداز میں کسان کو آپریشن کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ یہ اس چینی کامیڈی فلم کا ذکر ہے جو ہم نے چین میں ثقافتی انقلاب کے بارے میں اپنے 1985۔ ۔ ۔ 93 کے قیام کے دوران دیکھی تھی۔ کتابوں کی کتابیں اساتذہ اور دانشوروں کی کہانیوں سے بھری ہوئی تھیں جن میں بتایا گیا تھا کہ چار کے ٹولے اور ان کے زیر اثر ریڈ گارڈز نے ان کے ساتھ کیا کیا زیادتیاں کی تھیں، کیسے زمیندارانہ پس منظر رکھنے والوں اور انٹلکچوئلز کی تذلیل کی جاتی تھی۔

یونیورسٹیاں بند کر دی گئی تھیں اس لئے تعلیم کا بہت ہرج ہوا۔ ہمیں وہاں رہتے ہوئے ثقافتی انقلاب کے حوالے سے جو کچھ پڑھنے کا اتفاق

چین میں آٹھ سال (پہلی قسط)۔

وہ ستمبر 1985 کا کوئی دن تھاجب ہم بیجنگ ایئر پورٹ پر اترے۔ احفاظ کے دفتر کے کچھ لوگ ہمیں لینے آئے ہوئے تھے۔ ہمارا سامان کراچی ایئر پورٹ پر ہی رہ گیا تھا۔ اس زمانے میں چین کے حاجی پاکستان کے راستے حج کرنے جاتے تھے۔ وہ حاجیوں کی واپسی کے دن تھے۔ پہلے…

چین میں آٹھ سال (قسط 2 )۔

احفاظ نے تو کچھ دنوں بعد با قاعدگی سے دفتر جانا شروع کر دیا تھا، بچے بہت چھوٹے تھے اس لئے انہیں اسکول لے جانا اور واپس لانا ہماری ذمہ داری ٹھہری۔ اسکول بہت دور سفارتی علاقے میں تھا اور ہمارے پاس اپنی سواری بھی نہیں تھی۔ سردی کی شدت میں آہستہ آہستہ اضافہ ہو…

چین میں آٹھ سال – تیسری قسط

پیپلز ڈیلی سب سے مشہور اور کثیر الاشاعت اخبار تھا۔ ہم غیر ملکیوں کے لئے انگریزی میں شائع ہونے والا چائنا ڈیلی اخبار ایک نعمت سے کم نہیں تھا کیونکہ۔ ”زبان یار من چینی و من چینی نمی دانم“ والا معاملہ تھا۔ آٹھ سال تک ہم نے ”جنگ“ اور۔ ”اخبار جہاں“ میں جو ہفتہ وار مکتوب چین ’اور مکتوب بیجنگ‘ باقاعدگی سے لکھا جس پر چینی حکومت نے ہمیں ’تمغۂ دوستی‘ سے بھی نوازا، اس میں ہمیں اس اخبار سے بہت مدد ملتی تھی۔

چین کا ثقافتی انقلاب اور اس کے تہوار

بہر حال ہم نے ثقافتی انقلاب کے بارے میں صرف پڑھا ہے، اس لئے آپ کو آنکھوں دیکھا حال سنانے سے رہے۔ لیکن اتنا ضرور کہیں گے کہ ہمارے سفارتکاروں تک کو صورتحال کا صحیح ادراک نہیں ہوتا تھا۔ وہ بیجنگ آ کر اسی طرح ماؤ کے قصیدے پڑھنے لگتے تھے جیسے ثقافتی انقلاب تک پوری چینی قوم پڑھتی تھی۔ ان کو اندازہ نہیں تھا کہ چینی دانشور اور دیگر پڑھے لکھے لوگ ثقافتی انقلاب کے دوران کس تکلیف سے گزرے تھے۔ دانشوروں اور فنکاروں پر کتنے ظلم ڈھائے گئے، ریڈ گارڈز نے ثقافتی انقلاب کے دوران دینگ سیاؤ پنگ کے بیٹے کو اٹھا کر ایک اونچی عمارت سے نیچے سڑک پر پھینک دیا تھا اور وہ عمر بھر کے لئے معذور ہو گیا تھا۔

تھین آن من چوک پر چینی طلبا کا احتجاج

چین میں ہمارے قیام کے دوران جو اہم ترین واقعہ پیش آیا جس پر مغربی ذرائع ابلاغ نے بہت کچھ لکھا اور جس کے بارے میں مغربی محققین آج تک تحقیقی مقالے لکھ رہے ہیں، وہ تھا 1989 اپریل میں طلبا کا احتجاج۔ کمیونسٹ پارٹی کے سابق جنرل سیکریٹری ہو یاؤ بانگ کے انتقال پر…

چین 1985 میں

چینی مرد اور عورت مل جل کر گھریلو ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں۔ قارئین، گزشتہ بلاگز میں واقعات کی ترتیب آگے پیچھے ہو گئی تھی لیکن اب ہم ترتیب سے آگے بڑھیں گے۔ ستمبر 1985 میں چین جانے سے پہلے ہم نے چین کی عورتوں کے بارے میں بہت پڑھا تھالیکن آنکھوں دیکھی بات کا…

1985 کا چین: دانشور کی بحالی اور معیشت کی نمو

اسے حسن اتفاق ہی کہنا چاہیے کہ ادھر میں نے چین کے بارے میں اپنی یادداشتیں قلم بند کرنا شروع کیں، ادھر مجھے محمد کریم احمد کا سفر نامہ ”چین سے چین تک“ موصول ہوا۔ وہ 2015ء سے 2018ء تک چین میں رہے اور چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کی اردو سروس میں کام کیا۔ ہمارے باہمی…

چینی من بھاتا نہیں صحت بھاتا کھاتے ہیں

ہم پاکستانی صرف زبان کے چٹخارے میں یقین رکھتے ہیں لیکن چینی عوام جو کچھ کھاتے ہیں، اس کے طبی فوائد اور جسم پر اس کے اثرات سے پورے طور پر آگاہ ہوتے ہیں۔ اکثر دعوتوں میں جب چینی میزبان ہماری طرف کوئی ڈش بڑھاتے تھے تو اس کے طبی فوائد سے آگاہ کرنا نہیں بھولتے تھے۔ ویسے عام مزے مزے کے چینی کھانوں کے علاوہ طبی یا ادویاتی کھانوں کا ایک الگ مکتب ہے۔ بس یوں سمجھ لیں کہ یہ کھانے نہیں روایتی چینی ادویات ہوتی ہیں۔ ادویاتی کھانے پکانے کی ترکیبیں صدیوں سے نسل در نسل منتقل ہوتی چلی آ رہی ہیں۔ 206 قبل مسیح سے چین میں فوڈ تھیراپی یا غذا کے ذریعے علاج ہوتا رہا ہے۔

ہم نے تو یہ سب کچھ 1985 سے اگلے آٹھ سالوں تک دیکھا لیکن ابھی انٹرنیٹ پر اپریل 2020 ء میں لکھا ہواگیون وان ہنسبرگ کاسفری مضمون Travel article نظر سے گزرا تو معلوم ہوا کہ کہ آج بھی یہ کھانے چینیوں اور غیر ملکیوں میں اسی طرح مقبول ہیں۔ ہمارے قیام کے دوران لونگہوا میڈیکل ریستوراں بیجنگ میں اپنی نوعیت کا پہلا ریستوراں تھا جہاں لذیذکھانوں کے ساتھ ساتھ روایتی چینی ادویات کے ذریعے آپ کی بیماری کا علاج بھی کیا جاتا تھا۔

چینی ٹی وی پروگرام اور فلمیں

آج کل اگر آپ چینی بولنے کی مشق کر رہے ہیں، تو چینی دوست آپ کو پانچ ٹی وی پروگرامز دیکھنے کا مشورہ دیں گے جن کے چینی ناموں کا ترجمہ کچھ یوں ہے : اپارٹمنٹ، بھاگتے رہو، غیر رسمی گفتگو، موتی شہزادی اور ابدی محبت۔ اس وقت چین کی ٹیلی ویژن انڈسٹری میں ہائی…

چین میں شادیاں اور بڑھاپے میں طلاقیں

چین کے پرانے جاگیرداری معاشرہ میں والدین اپنے بچوں کی شادیاں طے کرتے تھے اور اگر کوئی لڑکی شادی کی عمر کو پہنچنے کے باوجود کنواری رہتی تھی تو والدین خاص طور پر ماں احساس جرم میں مبتلا ہو جاتی تھی اور جب تک اپنی لڑکی کے لئے بر نہیں ڈھونڈ لیتی تھی، اس کا کھانا پینا حرام ہو جاتا تھا۔ ویسے بھی اپنے بچوں کی شادیوں کا فیصلہ کرنا والدین کا نا قابل تنسیخ حق سمجھا جاتا تھا اور اکثر وہ اولاد کی مرضی معلوم کیے بغیر من مانے فیصلے بھی کیا کرتے تھے۔

اگر اولاد اپنی من مانی کرتی تھی تو اسے ناخلف قرار دیا جاتا تھا۔ بہر حال آزادی کے بعد صورتحال تبدیل ہو گئی اور نئے عائلی قوانین میں فریقین کواپنے شریک حیات کے براہ راست انتخاب کی آزادی حاصل ہے اور اب والدین کو اپنے بچوں کی شادی کے فیصلے کا مکمل اختیار نہیں رہا۔ والدین کی اکثریت مشاورتی کردار ادا کرتی ہے گو کہ کچھ دور افتادہ پسماندہ علاقوں میں ابھی بھی ایسا نہیں ہوتا۔

چین کی اقتصادی اصلاحات

ہم بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو ساٹھ اور ستر کی دہائی میں مزدوروں اور کسانوں کو کارخانے اور زمین دلوانے کی بات کرتے تھے، انقلاب کے خواب دیکھتے تھے۔ اب یاد نہیں 1973 یا 1974 ء کا ذکر ہے، میں روزنامہ مساوات میں کام کر رہی تھی۔ اس زمانے میں ٹیلی پرنٹر پر…

چین کے دیہی نوجوان اور شادیاں

پاکستان میں لڑکی والے جہیز کی بدولت پریشان رہتے ہیں لیکن چین کے دیہاتوں میں یہی پریشانی لڑکے والوں کو لاحق رہتی ہے۔ گو کہ چینی کسانوں کا معیار زندگی پہلے سے بہت بہتر ہو گیا ہے اور ان میں کچھ ”دو لت مند لوگ“ بھی پیدا ہو گئے ہیں لیکن ابھی بھی چین کے…

کرکٹ بیجنگ میں

شائقین کی تعداد کے اعتبارسے فٹ بال کے بعد کرکٹ دنیا کا دوسرا مقبول ترین کھیل ہے۔ پاکستان، ہندوستان اور برطانیہ سمیت اس کی دیگر سابقہ نو آبادیوں میں تو لوگ کرکٹ کے دیوانے ہیں ہی لیکن انٹرنیشنل کرکٹ کونسل ICCکے 104 رکن ممالک کے ساتھ ساتھ چین میں بھی کسی نہ کسی شکل میں کرکٹ موجود رہا ہے۔ تاریخی طور پر چینیوں کو کرکٹ سے اتنی دلچسپی نہیں رہی لیکن اب ICCکی نظریں چین پر ہیں اور وہ یہاں کرکٹ کو فروغ دینے کی کوشش میں ہے۔ ویسے بیجنگ میں 1980۔ ۔ 1990 کے عشروں میں کرکٹ کھیلا جاتا تھا۔ اس وقت بیجنگ میں موجود غیر ملکی سفارت خانے کرکٹ میچز کراتے تھے۔ ہر سال کرکٹ ٹورنامنٹس کا انعقاد ہوتا تھا لیکن 1996 کے بعدموزوں گراؤنڈز نہ ہونے اور لوگوں کی دلچسپی برقرار نہ رکھ پانے کے باعث یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔

چین کی عورتیں کتنی آزاد ہیں؟

چین کی عورتیں کس حد تک آزاد ہیں اکثر پاکستانی یہ جاننے کے خواہش مند ہوں گے ۔ 1949 میں عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد سے یقیناً عورتوں کوکچھ ایسے اقتصادی اور سیاسی حقوق ملے ہیں جو انہیں پہلے حاصل نہ تھے، خصوصاً ملازمت کرنے کا حق اور مردوں کے مساوی تنخواہ حاصل…

بیجنگ میں نامور سائنسدان ڈاکٹر عبدا لسلام سے ملاقات

سترہ ستمبر 1987 ء کا دن ہمارے لئے ایک یادگار دن تھا کیونکہ اس دن ہماری پاکستان کے نامور فرزند اور بین الاقوامی شہرت یافتہ سائنسدان جناب عبدالسلام سے ملاقات ہوئی۔ وہ بیجنگ میں تھرڈ ورلڈ اکیڈمی آف سائنسز کی دوسری جنرل کانفرنس کے موقع پر تشریف لائے تھے۔ کانفرنس کا آغاز چودہ ستمبر کو ہوا تھا اور اس وقت کے چینی وزیر اعظم چاؤزے یانگ سمیت دنیا بھر کے ممتاز سائنسدانوں نے اس کانفرنس میں شرکت کی۔ سترہ ستمبر کو جناب عبدالسلام کی جانب سے کانفرنس کے شرکا کے اعزاز میں ایک دعوت منعقد کی گئی جس میں انہوں نے پاکستانی برادری کو بھی مدعو کیا تھا، اسی دعوت میں ہمیں اس مشہور عالم ہستی سے گفتگو کا موقع ملا۔