جسم میرا اور خوش گمانیاں تمہاری

مارچ جہاں ہمارے علاقوں میں بہار کی آمد کی نوید لاتا ہے۔ وہیں اس مہینے ایک دن عورت کا بھی آتا ہے۔ جو گزر گیا۔ مگر کچھ منافقوں کے دلوں کی بھڑاس ابھی تک نہیں نکل رہی۔ عورت مارچ کچھ عرصہ سے جتنے جوش و خروش سے منایا جا رہا ہے اتنا ہی متنازع ہوتا جا رہا ہے۔

کچھ مرد عورت کے حق میں لکھنے پر ہمیں اتنے جبری فتوے دے رہے ہوتے ہیں جیسے ہمارے ”مامے“ لگتے ہیں۔ جناب ہم بالغ عورتیں ہیں، اگر ہم پسند کی شادی کا حق رکھتے ہیں تو اپنی سوچ رکھنے کا بھی ایک بالغ عورت کو پورا حق ہے۔ آپ کو مسلسل مداخلت و ہماری اصلاح کی کوئی ضرورت نہیں۔ کیونکہ آپ کا اس طرح کا رویہ ہمارے خاندان کی تربیت کو مشکوک کرتا ہے۔ ہر طبقے کے اپنے نارمز (معیارات) ہوتے ہیں۔ جس پہ پتھر اٹھانے کا آپ کو کوئی اخلاقی حق نہیں۔ اور اگر ہم غلط سوچتے ہیں تو اپنے محرم مردوں کو دوزخ میں لے کر جائیں گے۔ آپ ہمارے محرم نہیں لہٰذا ہم سے دور رہیں تو اچھا ہے۔

منافق مرد

میں آپ کی بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے اپنے ساتھ اس سیریز پر کام کرنے کی پیشکش دی۔ گولڈن گرلز ایک بہت منفرد سیریز ہے جس کے تحت ہم دونوں وہ سب لکھ سکتی ہیں جو پہلے اپنی تحاریر میں نہیں لکھ سکیں۔ یہ سیریز دو خواتین لکھاریوں کے اشتراک سے وجود پا رہی ہے۔ ہم ایسا اشتراک عموماً مردوں کے درمیان ہی دیکھتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ خواتین ایک دوسرے کے ساتھ کام نہیں کرتیں، کرتی ہیں پر عوام ان کے اشتراک سے زیادہ ان کے آپسی اختلاف میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔

اچھا اور گندا لمس

تم نے بات کی وی پی این کی تو بھئی وہ رال والا لال تم سے یہی تو سننا چاہتا تھا کہ ”آپ وہی دیکھتی ہیں ناں جو میں دیکھتا ہو؟ اور اگلا جواب ہوتا“ اب سے مل کر دیکھا کریں گے اور تم شرم سے سر جھکا دیتی تو وہ سارے زمانے میں نعرے لگاتا کہ تم بے حیاء ہو۔ اور جو بھی باقی کے لاحقے، سابقے عورت کے ساتھ لگائے جاتے ہیں، لگا کر دل کو قرار دیتا ہے کہ وہ عورت کو جیت کر ہرا چکا ہے کیونکہ وہ مرد ہے۔ ارے میرے منحوس ابن آ دم! یہ جو کورونا کی ویکسین بنی ہے۔ اس میں ایوارڈ حاصل کرنے والی ایک لڑکی بھی ہے۔ وہ بھی آپ کے ساتھ وی پی این پہ معلومات کا تبادلہ کرتی ہو گی۔ ہے ناں؟ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔

گولڈن گرلز- ایک بے گھر آدمی اور ہمدرد عورت

اس تجربے سے ہم نے بہت جلدی سیکھ لیا تھا کہ آدمیوں کو اصلی یا نقلی خدا نہ سمجھیں، بلکہ اپنی طرح کا انسان ہی سمجھیں تو بہتر ہے۔ ہم سب کی ویب سائٹ پر رائٹ ونگ تبصرے دیکھتی رہتی ہوں۔ یہ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبانے والے افراد ہیں۔ ان کے خیالات کو پڑھنا کہ خواتین کا کیا کردار ہونا چاہیے یا ان کو زندگی میں کیا کرنے کا اختیار ہونا چاہیے وہ بالکل غیر ضروری اور وقت کا زیاں ہیں۔ ان میں سے کئی وہ تمام کام خود کرچکے ہیں جن پر تنقید ہو رہی ہے اسی لیے وہ اس کے ذکر سے بھڑک اٹھتے ہیں۔ اس لیے میرا گولڈن گرلز کے لیے یہی مشورہ ہے کہ آپ ان سے انفرادی مباحثے پر وقت برباد کرنے کے بجائے اپنے راستے پر چلتی رہیں۔ ان کو چھوڑ کر آگے نکل جائیں۔

جب فارغ آدمی خواتین اور بچیوں کی زندگی مشکل بناتے ہیں تو ان تمام کاموں میں رکاوٹ کھڑی ہوتی ہے جو یہ خواتین نہیں کر پائیں گی۔ اس سے یہ خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مارتے ہیں۔ ایک دن ان کو ہارٹ اٹیک ہوتا ہے اور ان کے گرد کسی میں اتنی تعلیم نہیں ہوتی کہ مدد کرسکے۔ جہاں خواتین خوف و ہراس میں زندگی گزاریں تو وہ اپنی تعلیم میں اضافہ کرنے اور اپنی پروفیشنل زندگی میں ترقی کرنے کے بجائے واقعی ایک سبزی بن جاتی ہیں جس کو اپنی اور اپنے بچوں کی بقا کے لیے چڑیل کی طرح سوتیلی ماں بننا پڑتا ہے۔

گولڈن گرلز: ڈیجیٹل بہن چارہ

رابعہ، عورتوں کے اسی غصے کا اظہار وہ گروپ ہے جہاں آپ کی سہیلیاں اور آپ ’فرشتوں‘ کے نمونے شیئر کر کے انہیں اکٹھے بلاک کیا کرتے تھے۔ عورتیں اب مردوں کی ایسی حرکتیں برداشت نہیں کرتیں۔ انہوں نے انٹرنیٹ پر اپنے لیے سپورٹ گروپ بنا لیے ہیں جہاں وہ ایک دوسرے کو مردوں سے خبردار کرنے کا کام کرتی ہیں۔ میں اسے ڈیجیٹل بہن چارہ کہتی ہوں۔ ایک گروپ تو خاصا بڑا ہے۔ اس میں لڑکیاں ایسے مردوں کی پروفائلز شیئر کرتی ہیں جن کی طرف سے انہیں دوستی، محبت یا شادی کی دعوت آئی ہوتی ہے، وہ دوسری عورتوں سے پوچھتی ہیں کہ کیا وہ انہیں جانتی ہیں۔

جعلی ریاست مدینہ اور اس کی حقیقت

عمرانی ریاست مدینہ میں رہنے والی رابعہ الربا کو عوامی جمہوریہ چین میں عارضی طور پر مقیم تحریم عظیم کا سلام قبول ہو۔

رابعہ نے اپنے خط میں جعلی ریاست مدینے کے زبردستی کے خلیفہ اول کے اس بدنام زمانہ بیان کا ذکر کیا ہے جو دنیا کے ہر خبر شائع کرنے والے ادارے نے چھاپا۔ رابعہ، صرف خلیفہ وقت نہیں بلکہ پاکستان کے ہر شہر، گاؤں، قصے کے ہر چوک، ہر تھڑے پر بیٹھا آدمی یہی سوچ رکھتا ہے۔ وزیراعظم تو بس یہ ثابت کر رہے ہیں کہ تعلیم اور شعور بھی ایسی سوچ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

ایک عورت کی نظرمیں مردانگی کیا ہے؟

کیوٹی سی تحریم تمہیں جو اندھیرا اپنی طرف بلا رہا ہے مجھے اس میں چمکتے جگنو دکھائی دے رہے ہیں۔ مجھے اس کے پیچھے سے نکلتا سورج بھی سنائی دے رہا ہے کہ زندگی میں کچھ بھی مستقل نہیں ہو تا۔ رات لمبی ہی سہی سورج بھی اپنی حق تلفی برداشت نہیں کرتا۔ گولڈن گرلز…

میری نظر میں مردانگی کیا ہے؟

ڈیر رابعہ! میں ایک اینڈوکرنالوجسٹ ہوں۔ اینڈوکرنالوجسٹ میڈیکل سائنس کی وہ شاخ ہے جس میں ہم ہارمون سے متعلق بیماریوں کا علاج کرتے ہیں۔ میڈیکل سائنس، اینڈوکرنالوجی، دنیا کی تاریخ، اس کے مذاہب اور مختلف ممالک کی تہذیبوں کے مطالعے اور مشاہدے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ صنف بائنری (دو رخہ) نہیں ہے بلکہ ایک اسپیکٹرم (کثیر جہتی) ہے۔ جس طرح سفید روشنی منشور (پرزم) میں سے گزر کر قوس و قزح کے مختلف رنگوں میں بٹ جاتی ہے بالکل اسی طرح ڈی این اے ( ڈی این اے ) سے لے کر فینوٹائپ تک انسانوں کے خدوخال، جسمانی ساخت یا ان کی صلاحیت کو دو خانوں میں نہیں بانٹا جا سکتا ہے۔

گولڈن گرلز: مردانگی چند انچوں کا نام نہیں

آپ کو مردوں کی طرف سے سوال موصول ہو رہے ہیں، مجھے اعتراض موصول ہو رہے ہیں۔ ایک محترم ساتھی دو بار میرے گولڈن گرلز کا حصہ بننے پر اعتراض کر چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے پہلے اعتراض میں مجھے کہا کہ اپنے لیے بر ڈھونڈو، گولڈن گرل نہ بنو۔ دوسری بار میرے ایک بلاگ پر تبصرہ کیا کہ پہلی بار اچھی لکھاری لگی ہو ورنہ گولڈن گرلز جیسی تحاریر سے تو پراپیگنڈسٹ رائٹر لگتی ہو۔

میں ان کا احترام کرتی ہوں پر وہ میرا احترام نہیں کرتے۔ اگر وہ میرا احترام کرتے تو اتنے سخت جملے نہ کہتے۔ اچھا خاصا لکھتے ہیں۔ یقیناً اپنی بات کو بہتر طریقے سے کہنا اور لکھنا جانتے ہیں۔ آزادی اظہار رائے سب کا حق ہے۔ میں جو چاہے لکھوں۔ میں نے کبھی کسی کے اظہار کے حق پر اعتراض نہیں کیا تو کوئی میرے اظہار کے حق پر اعتراض کیوں کرے؟

میری نظر میں مردانگی کیا ہے؟ سوالات کے جواب

نسل در نسل سے خواتین کو مکمل انسان نہ سمجھنے اور ان کو ملکیت کی طرح استعمال کرنے کی وجہ سے وہ اس بات پر مجبور کر دی گئیں کہ اپنے باپ، بھائی، شوہر اور پھر بیٹے پر بوجھ بنی رہیں۔ جب خواتین اپنے پیروں پر کھڑی ہوں، ان کی اپنی جاگیر اور ملکیت ہو اور اپنا گھر چلانے کے لیے ان کو کسی سے پیسے مانگنے کی ضرورت نہ پڑے تو پھر وہ اپنی بہو کو ایک مخالف کے طور پر نہیں دیکھیں گی۔ میں نے تو نوید کی ہری آنکھوں والی گرل فرینڈ کے ساتھ کبھی کوئی بدتمیزی نہیں کی۔ہمیشہ اس کو مہنگے تحفے دیے۔ ہمیشہ اس کو اچھی طرح سے پڑھائی کرنے کا مشورہ دیا۔ ظاہر ہے کہ وہ اب میرے خاندان کا حصہ ہے۔ اگر وہ پڑھی لکھی ہو گی، دنیا کے حالات جانتی ہو گی تو اس میں ہمارا اپنا فائدہ نکلتا ہے۔ اپنے بچوں کو کمزور بنا کر ہم خود کو کمزور بناتے ہیں۔ نوید کی پرانی گاڑی بھی اس کو دے دی۔ حالانکہ اس کو بیچ کر چند ہزار ڈالر میں اپنی جیب میں بھی رکھ سکتی تھی۔ ایک دن اس نے مجھے اپنی گاڑی میں لفٹ دی تھی تو میں نے دیکھا کہ اس کی گاڑی کتنی بدحال ہے اور اس کی سائیڈ ٹھکی ہوئی ہے۔

لڑکے روتے نہیں ہیں، تم لڑکی ہو کیا؟ مرد بنو

میرا بیٹا دانیال جو اس وقت پندرہ سال کاہے اور پیدائش سے لے کر آج تلک ہر دن مجھے ایک چونکا دینے والی بات ضرور سکھاتا ہے۔ تقریباً دو سال پہلے جب وہ بچپن کو خدا حافظ کہ کر لڑکپن کی دہلیز پر قدم رکھ رہا تھا تو ایک دن اسکول سے کچھ افسردہ لوٹا۔ بچے عموماً بچے اس عمر میں اپنے ہارمونز کی تبدیلیوں کی وجہ سے تھوڑے موڈی اور تیزی سے جذباتی اتار چڑھاو کا شکار رہتے ہیں۔ اس لیے میں نے کچھ زیادہ توجہ نہیں دی۔ مگر جب رات کو ہوم ورک کرتے ہوتے اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو تشویش ہوئی اور اس سے میں نے پوچھنے کی کوششیں کی کہ معاملہ کیا ہے۔ مگر اس نے بجائے مجھ سے اپنے دل کی بات شیر کرنے کے بے رخی سے کہا کہ میں ٹھیک ہوں۔

بہرحال کمرے سے باہر جاتے ہوئے جب میں نے اس سے کہا کہ اگر تم بہتر سمجھو تو اپنی اداسی کی وجہ مجھے بتا دینا میں انتظار کروں گی۔ اور بچے نے تقریباً جھنجھلاتے ہوئے مجھے کہا کہ ”ہاں ہاں مجھے پتا ہے کہ لڑکے روتے نہیں ہیں اور مرد اپنا خیال خود رکھ سکتے ہیں“ ۔

دیسی مرد، ابھی تک دائیوں اور بائیوں کے خمار سے نہیں نکل سکا

دیسی مرد، ولائتی بھی ہو جائے، شہری ہو یا دیہاتی، جتنا مرضی پڑھ لے، کوئی بھی ڈگری حاصل کر لے، کسی بھی ادارے میں کام کر لے، پوری دنیا گھوم لے، نہ گھومے تب بھی رزلٹ ایک ہی ہے، اس میں سے دائیوں اور بائیوں کا خمار اور لطف نہیں نکلتا۔

اس کو منٹو بھی اس لئے پسند ہے کہ بائیوں کو شریف عورت سے بلند مقام دیتا ہے۔ ان کی مجبوری کا مرتبہ زیادہ ہے۔ (شاید شریف عورت کے پاس ایک خبیث مرد ہو تا ہے اس لئے۔ اب یہ شاید دل پہ لگانے والی بات تو ہے نہیں ) یہ عورتیں ان مردوں کو اس لئے عزیز ہیں کہ ان کی ذمہ داری ہوتی کوئی نہیں، چسکا مفت کا۔ جس نے سینکڑوں مرد بھگتائے ہوں، وہ مرد کی رگ رگ کو اچھے سے جانتی ہے۔ کیونکہ کاروبار کرنے کے لئے اس کے اصولوں سے واقفیت ضروری ہے۔ مگر یہ سب جانتے ہوئے بھی وہ بہت مظلوم عورت ہے یا بہت مشکوک عورت ہے یو نہی تاریخ کی چند حسین کتابوں میں لکھا رنجیت سنگھ کو قابو کرنے والی موراں بائی، جنرل رانی، مادام موسیقی، اور ان سب جیسی اور ہم عورتوں میں کوئی خاص فرق ان کو دکھائی نہیں دیتا۔ آہ

گولڈن گرلز: شریف عورت کون ہوتی ہے؟

گولڈن گرلز کی گاڑی چل نکلی ہے۔ پہلے ہم دو عورتیں اسے چلا رہی تھیں۔ اب ڈاکٹر لبنیٰ مرزا، ثمر اشتیاق، نادرہ مہر نواز اور دیگر بھی اسے ہمارے ساتھ چلا رہی ہیں۔ سب ساتھیوں کا شکریہ۔ سب کا ساتھ ہی اس سیریز کو کامیاب بنا رہا ہے۔ رابعہ، آپ کی تحریر میں کئی نکات…

مرد کو نفرت کی زبان سمجھ آتی ہے

پیاری تحریم تمہاری تحریر کے سوال بتا رہے ہیں تم اس وقت پروپیگینڈا مہم کاشکار ہو گئی ہو۔ جیسا کہ ابلاغ عامہ کے طالب علم جانتے ہیں کہ جو جنگ لفظوں اور اسلحہ سے نہ جیتی جا سکے، اس کے لئے پرو پیگنڈا بہترین ہتھیار ہوتا ہیں۔ جنگ عظیم دوم میں اس نے بہت کام…

گولڈن گرلز: دور کیوں جانا، چینی مردوں کو ہی دیکھ لو

آپ نے اپنے خط میں مجھ سے چین کے مردوں کے بارے میں پوچھا ہے۔ آج کے بلاگ میں ان ہی کا ذکر کرتے ہیں۔ میں نے چین میں اپنے چار سالہ قیام کے دوران چینی مردوں کو پاکستان کے مردوں سے بہت مختلف پایا ہے۔ مجھے چینی مرد پاکستانی مردوں کے مقابلے میں زیادہ احساس کرنے والے، محبت کرنے والے اور ساتھ دینے والے لگے۔ اگرچہ یہاں بھی مردوں کی طرف سے خواتین پر مختلف قسم کے تشدد کیے جاتے ہیں لیکن عمومی تصویر پھر بھی پاکستان سے بہتر ہے۔

عورت کے لئے مرد ناکافی کیوں ہو گیا ہے؟

تحریم بہت دنوں بعد آنے کی وجہ ہے کہ ہم ملالہ کے کیس کی کارروائی کا مشاہدہ فرما رہے تھے۔ یوں بھی چونکہ بنیاد فکشن ہے تو ذرا رومانی کیفیات کا غلبہ شاعری یا افسانے کے ساتھ محبت پہ اکسا رہا ہے۔ یہ موضوع جس سفاکی کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس کا ماحول نہیں بن رہا تھا۔ تاحال، حال دل نازک ہے۔

ہاں ملالہ کا مقدمہ دونوں فریقین نے خوب لڑا ہے۔ مگر اس میں ایک بات ثابت ہوئی کہ شادی کوئی بہت ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔ جو کبھی بہت حسین خواب تھا۔ اور حسین بھی ایک عام سی عورت سے تھا۔ آج وہی عورت ڈر رہی ہے۔ ایک دستخط سے ڈر رہی ہے۔ آج وہی مرد جو اس کے لئے شہزادہ و سائبان و آ سمان تھا۔ اس کے لئے جن اور بھوت سے بڑھ کر موت کے فرشتے کے مترادف ہو گیا ہے۔ سوال تو ہے اور بہت بڑا ہے۔

گولڈن گرلز: ہا ہائے، کتنی بولڈ ہے

پیاری رابعہ، آپ کا خط کئی دن پہلے پڑھ چکی تھی لیکن پڑھائی کی مصروفیات کچھ ایسی رہیں کہ جواب لکھنے کا وقت نہ مل سکا۔ اب کچھ فرصت نصیب ہوئی ہے تو جواب لکھنے بیٹھی ہوں۔ لیپ ٹاپ کی سکرین پر آپ کا خط کھلا ہوا ہے اور اسے دوبارہ پڑھتے ہوئے میں رے…

گولڈن گرلز: اے پردہ دارو، خود کو یوں بے پردہ تو نہ کرو۔

چار ماہ قبل جب رابعہ الربا نے مجھے اپنے ساتھ گولڈن گرلز سیریز لکھنے کی دعوت دی تو مجھے اندازہ تھا کہ یہ سیریز جہاں بہت سے لوگوں کو پسند آئے گی وہیں بہت سے لوگوں کے لیے حلق کا وہ نوالہ بن جائے گی جو نہ اگلا جاتا ہے اور نہ نگلا جاتا ہے۔…

گھریلو تشدد، معاشرتی پاور شو سے تشدد تک

پچھلے ہفتے عثمان مرزا کا تشدد کا واقعہ سامنے آیا۔ اور اسے قبل گھریلو تشدد کے حوالے سے آئین سازی پہ بات ہو رہی ہے۔ گھریلو جسمانی تشدد جس کو تشدد سمجھا ہی نہیں جاتا۔ بلکہ لطیفوں تک میں اس کو مرد کی محبت کا انداز کہا جاتا ہے۔ گھریلو ذہنی تشدد اس کے الگ کہانی ہے۔ ابھی صرف جسمانی تشدد کی بات کر رہے ہیں تو میری جان ہم اس کی آئین سازی کیوں نہیں چاہتے۔ بہت سے سو کالڈ مفکرین کی جاہلانہ رائے پڑھ کر ہمیں اندازہ ہوا کہ تم درست کہتی ہو عورت کے حقوق کی زبانی کلامی بات کرنا اور اس پہ عمل کرنا یکسر مختلف ہے۔

مردوں کی ایک بڑی تعداد نہیں چاہتی کہ جسمانی تشدد کا کوئی قانون بنے۔ عورت اور بچوں کو تحفظ ملے۔ جب بات عمل کرنے کی آتی ہے تو نعرے لگانے والے بھاگ جاتے ہیں۔ اور سب سے افسوس ناک دلیل جو کسی دانشور نے لکھی ہوئی تھی۔ کہ یہ قانون نہیں بننا چاہیے۔ کیونکہ گھر کی عورتوں اور بچوں کو مارنے سے مرد کا کیتھارسس ہو تا ہے۔ اگر یہ کیتھارسس نہیں ہو گا تو معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو گا۔

گولڈن گرلز: عورت مر جائے تو بتانا، ہم تب روئیں گے

آج کا خط کہاں سے شروع کروں۔ دل بوجھل ہے۔ دماغ سن ہے۔ دارا الحکومت میں ایک لڑکی کا بے رحمی سے قتل کیا گیا۔ پتا نہیں قاتل کے سر پر کیسا خون سوار تھا۔ اس نے لڑکی کا سر ہی جسم سے الگ کر ڈالا۔

لڑکی کے والد کا سوچتی ہوں۔ جانے کس حوصلے سے انہوں نے اپنی بیٹی کا سر کٹا جسم اور اس کے پاس رکھا اس کا سر دیکھا ہو گا۔ ان کا سوچتی ہوں جنہوں نے اسے غسل دیا ہو گا یا جنہوں نے اسے قبر میں اتارا ہو گا۔ سر الگ اور جسم الگ۔

نور سے کوہ نور تک، مگر ہیلو سیف اللہ صاحب

نور سے پہلے ہمارے بے شمار لڑکیوں کے قتل یونہی ہوئے کوئی ایک موم بتی نہیں جلی۔ اسے زیادہ ظلم ہوا سب طرف سناٹا تھا۔ ایک غیر ملکی سفیر کی بیٹی تھی ایک اپنے سفیر کی بیٹی تھی۔ مگر جنگ اب دولت اور طاقت کے میدان دو فی صد کی ہے۔ ایک کہاوت ہے وکیل کی ماں مر جائے تو سارا شہر جنازے میں موجود ہو تا ہے۔ وکیل مر جائے تو رشتے دار بھی نہیں آتے۔ تو جان من یہاں سب کا حاضر سائیں کہنا لازم تھا۔ ہم نے دو فی صد طبقہ اشرافیہ سے اپنے بغض کو بھی لاشعوری طور نکالنا تھا اور ساتھ میں ان کو ساتھ ہونے کا بھی احساس دلانا تھا۔

گولڈن گرلز: انہیں پسند نہیں ہے

رابعہ، بیجنگ میں اس وقت رات کے تین بج رہے ہیں۔ میں کچھ دیر پہلے صحافی نذرانہ یوسف زئی کی فیمینزم پر ٹویٹر سپیس سن رہی تھی۔ اس سپیس میں ایک صاحب نے کہا کہ شریعت نے عورت کو ہر وہ حق دیا ہے جو اسے ملنا چاہیے۔ عورتیں پھر بھی سڑکوں پر کیوں نکل رہی ہیں۔ آخر وہ کون سے حقوق چاہتی ہیں۔

میں نے ان صاحب کی ٹویٹر پروفائل دیکھی۔ ان کی بائیو میں کراچی کے ایک بڑے مدرسے کا نام لکھا ہوا تھا۔ میں نے نذرانہ سے جواب دینے کی اجازت حاصل کرنے کے بعد ان صاحب سے کہا کہ کل وہ اپنے مدرسے کے دارالافتاء جائیں اور وہاں آنے والے مسائل پڑھیں۔ پھر بتائیں کہ شریعت کے حقوق دینے کے باوجود اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عورتیں اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے سڑکوں پر کیوں نکلی ہوئی ہیں۔

آزادی، عزت اور ”حیا کر یار“ ۔

اب یہ پسند نہ ہونے کی نفسیات کس طرح ایک عورت کی زندگی خراب کرتی ہے۔ تربیت کرنے والوں کو خبر نہیں ہوتی۔ ہمیں بھابھی کے ساتھ رات کو ہسپتال رہنا پڑا۔ ہسپتال میں اوپر کی منزل پہ کمرے بنے ہوئے تھے۔ اور باہر کھلا لاؤنج تھا۔ بھابھی سو گئیں تو ہم باہر آ کر بیٹھ گئے کہ یہ زنانہ پورشن ہے۔ مرد آسانی سے اندر نہیں آ سکتے۔ ہم نے موبائل پہ کچھ پڑھنا شروع کر دیا۔

کونے میں دو خواتین بیٹھی اونچی آ واز میں باتیں کر رہیں تھیں۔ ایک تو بہت برہم تھی۔ ہم پڑھ نہ سکے گرچہ موبائل پہ ہی نگاہ تھی۔ ان کی گفتگو کا حاصل کچھ یوں کا تھا۔ بڑی والی خاتون کی پانچ بیٹیاں اور تین بیٹے تھے۔ اور حالات بھی سازگار سے کم تھے۔ اور رہن سہن اس سے بھی کم تھا۔ جبکہ چھوٹی والی ان کی چھوٹی بہن تھی اور کافی خوشحال تھیں۔ انہوں نے سوچا ہمارے لڑکے ہیں۔ باہر سے جو لڑکیاں لانی ہیں۔ کیوں ناں گھر کی بیٹیاں راج کریں۔ اور یوں وہ اپنے خاندان سے ہی سب بہوئیں لائیں۔

گولڈن گرلز: اوئے، ننگی کر دی اوئے…

مصنفہ تحریم عظیم ہیلو رابعہ، میں آپ کی خیریت پوچھنا چاہتی ہوں لیکن کیسے پوچھوں۔ میں خود عجیب حال میں ہوں۔ پاکستان کی ہر عورت غم زدہ ہے۔ غصے میں ہے۔ کیا کریں۔ ہم ہر واقعے کے بعد سوچتے ہیں کہ اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے پھر ایک نیا واقعہ منظر عام پر…

وہ سیکس ڈول تھی، وہ تو کال گرل تھی

Speech is silver, Silence is Gold: Thomas Carlyle تحریم تم سمجھ سکتی ہو کہ ان تمام واقعات کے دوران ہم نے تھامس کے اس قول پہ کتنی مشکل سے عمل کیا ہوگا۔ مگر اس جملے کو لکھنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ تھامس نے صدیوں پہلے کتنی خوبصورتی سے گولڈن کا متضاد سلور بتا…

گولڈن گرلز: آج ”کچھ“ مردوں کی بات کرتے ہیں

پھولوں سی خوبصورت رابعہ الرباء کو تحریم عظیم کا سلام قبول ہو۔ اس دفعہ جواب دینے میں کچھ دیر ہو گئی۔ آج کل صبح سے شام اور شام سے صبح کیسے ہوتی ہے، پتہ ہی نہیں چلتا۔ کرنے کو دسیوں کام ہیں۔ کیا کچھ بھی نہیں جاتا۔ ایک کام شروع کرو تو دوسرے کا گلٹ…

چند اچھے مردوں کی صفات، جو ان کو منفرد بناتی ہیں

تحریم ڈیئر دعا گو ہوں کہ مصروفیت سلامت رہے کہ یہی زندگی ہے۔ دیر سویر فطری سی بات ہے۔ تم نے اتنا مشکل سوال کر دیا ہے کہ جواب کا مطلب ہے۔ مزید لعنت۔ مگر ایمان داری ہے کہ جواب دیا جائے۔ اور دل کھول کے دیا جائے۔ میری عمر چونکہ تم سے زیادہ ہے۔…

خواتین کے لیے ہدایت نامہ

پیاری رابعہ، امید کرتی ہوں آپ خیریت سے ہوں گی۔ میں ایک بار پھر تاخیر سے جواب دے رہی ہوں۔ اس کے لیے معذرت۔ کچھ مصروفیت ایسی رہی کہ بس کچھ ہوش نہ رہا۔ خیر، اپنی سیریز پر واپس آتے ہیں۔ آپ نے اپنے پچھلے خط میں مردوں کے لیے کچھ نکات لکھے تھے۔ مجھے…

مردوں کے عالمی دن کے موقع پر خواتین کی طرف سے محبت کا پیغام

تحریم ڈئیر امید کرتی ہوں۔ تم مزے میں ہو نگی۔ بس ہم گمان اچھا کرتے ہیں۔ تاکہ ماحول بہار سا رہے۔ ہمارے گمان بھی تو فضا میں آسودگی اور آلودگی کا باعث ہوتے ہیں۔ یار بات کچھ یوں ہے کہ اپنا لکھتے کا موڈ نہیں بن رہا تھا۔ زندگی ہے ناں، اپنا حصہ مانگتی ہے…