داتا گنج بخش کی نگری

ڈاکٹر سید احسان کاظمی کی لاہور کے بارے میں ایک کتاب جو اب آؤٹ آف پرنٹ ہے۔ اس سے لاہور کے بارے میں ایسا بہت کچھ جاننے کو ملتا ہے جو اب وقت کی گرد میں کھو گیا ہے۔ یہ کتاب ہم سب پر قسط وار پیش کی جا رہی ہے۔ 

پیش لفظ

اس کتاب میں لاہور شہر کی تاریخ، جغرافیہ، درسگاہوں، عمارات، تنصیبات، شاہراہوں، دینی، ادبی، سیاسی، معاشرتی، سماجی وغیرہ وغیرہ سرگرمیوں کے متعلق پاکستان کے معرض وجود سے پہلے اور بعد زمانہ حال تک کچھ کچھ بیان کیا ہے۔ یہ ایک لاہور شہر کی pot pouri ہے۔

داتا گنج بخش کی نگری – ابتدائیہ

وقت کی ابتدا سے آج تک لاہور کے متعلق مختلف تاریخ اور جغرافیہ دان اور قلم کار حضرات نے بہت کچھ تحریر کیا۔ پہلے پہل یہ سنتے آئے کہ یہ شہر ہندو اوتار جناب رام چندر کے ایک بیٹے شہزادہ ”لادا“ کے نام پر 982 ء میں معرض وجود میں آیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ یہ شہر درگا دیوی کی شان میں آباد کیا گیا۔ جناب البیرونی کی کتاب ”تاریخ الہند“ میں اس شہر کا نام ”لاؤہور“ لکھا گیا۔ راجہ کنشک کے دور حکومت میں مشہور سیاح بطلیموس ہندوستان آیا اور اس نے شہر کا نام ”لابوکلا“ بیان کیا۔

لاہور کی مختصر تاریخ

صدیاں بیت گئیں اور قبل از مسیح کا زمانہ حال از مسیح میں تندیل ہو گیا۔ دسویں صدی کے آغاز میں ہندوستان کے شمالی علاقہ اور ملحقہ افغانستان میں کئی تاریخ ساز تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اس وقت لاہور اور اس کے شمال میں ہندو پال خاندان کی حکومت تھی جس کا پایہ تخت لاہور تھا۔…

داتا کی نگری: لاہور کی مختصر تاریخ

داتا کی نگری کا یہ جغرافیہ 1942 ء سے 1956 ء تک مزار داتا گنج بخش کے قرب کے متعلق ہے۔ 1942 ء میں ہمارا خاندان برلب داتا دربار روڈ عثمانیہ محلہ میں کرایہ کے مکان میں رہائش پذیر ہوئے۔ داتا کی یہ نگری مشرق میں لوئر مال اور راوی روڈ جنون میں آؤٹ فال روڈ، مغرب میں رتیگن روڈ اور کھیتوں اور شمال میں موہنی روڈ کے حصار میں ہے۔ مزار گنج بخش کو مرکز تصور کرتے ہوئے اس کی ذیلی مسجد کے ملحق مشرق میں اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ تھا شمال میں ایک ذیلی سڑک ذیلدار روڈ کے پار ہجویری محلہ اور اس محلہ کے نچلے حصہ کے سامنے سڑک کے پار شیش محل پارک محلہ ہے۔

لاہور کی مختصر تاریخ

اس محلہ کا نام مسجد نبوی میں سرور کائنات کے مقرر کردہ موذن حضرت بلال حبشی کی مناسبت سے ہے۔ اس محلہ میں دو عظیم شخصیات کا قیام رہا۔ ایک کا تعلق فلمی گلوکاری سے تھا جبکہ دوسری شخصیت کا تعلق علم و ادب اور تعلیم و تربیت سے رہا۔

ایک چھوٹے سے قد کے حاجی علی محمد نے 1901 کی دوسری دہائی میں امرتسر کے ایک گاؤں کوٹلہ سلطان سنگھ سے اہل و عیال سمیٹ محلہ بلال گنج میں رہائش اختیار کی۔ نہایت ملنسار اور مودب ان حاجی صاحب کا ہنر کھانا پکانے میں تھا۔ اور شادی بیاہ کے موقع پر آپ کے پکوان اپنی لذت کی وجہ سے بہت مشہور تھے۔ اور اگر دولہا ”سوہنی کے بینڈ“ کے ساتھ برات لے کر آئے تو یہ شادی بڑے ”ٹھاٹھ“ کی تصور کی جاتی تھی۔ ان حاجی صاحب کے چھ بیٹے تھے جن کا ”ہنر کدہ“ بھاٹی دروازہ کے محلہ چومالہ میں تھا۔