”بھٹو نے قتل کا منصوبہ بنایا تھا“
آٹھ فروری 1986 ء
مس نرگس نے آج کلاس میں کہا ”لڑکیو! تم ڈائری لکھا کرو“ ، انھوں نے ڈائری لکھنے کے بہت سے فائدے بتائے، مجھے فائدوں سے کیا، مس نرگس نے کہہ دیا یہی کافی ہے۔ مجھے اپنے اسکول کی ساری ٹیچرز میں سب سے اچھی وہی لگتی ہیں، بلکہ لگتا ہے ان سے اچھا کوئی ہے ہی نہیں، ہاں بس امی کو چھوڑ کر، اور زہرہ باجی کو بھی۔ مس نرگس مجھے ایک تو اس لیے اچھی لگتی ہیں کہ وہ بہت پیاری سی ہیں۔ بڑی بڑی آنکھیں ریکھا جیسی، گورا رنگ، اور آواز اور لہجہ۔ ۔ ۔ لگتا ہے خالدہ ریاست بول رہی ہے۔
پھر وہ دوسری ٹیچرز کی طرح نہیں کہ بس کتاب میں جو ہے وہی پڑھا دینا، بات بات پر ڈانٹنا، ذرا سی غلطی پر اسکیل سے ہاتھ لال کر دینا۔ مس نرگس تو ہم سے جانے کہاں کہاں کی باتیں کرتی ہیں۔ ۔ ۔ مسکرا مسکرا کر۔ اسی پر تو ان کی شکایت ہو گئی تھی کہ لڑکیوں سے جمہوریت اور بھٹو کے بارے میں باتیں کرتی ہے، اور صدر ضیاء الحق کے خلاف بھی۔ خیر یہ پرانی بات ہے جب میں چھٹی کلاس میں تھی۔ مجھے شکایت والی بات کچھ دنوں پہلے ہی پتا چلی، نویں جماعت میں آنے کے کچھ عرصے بعد۔