”بھٹو نے قتل کا منصوبہ بنایا تھا“

آٹھ فروری 1986 ء

مس نرگس نے آج کلاس میں کہا ”لڑکیو! تم ڈائری لکھا کرو“ ، انھوں نے ڈائری لکھنے کے بہت سے فائدے بتائے، مجھے فائدوں سے کیا، مس نرگس نے کہہ دیا یہی کافی ہے۔ مجھے اپنے اسکول کی ساری ٹیچرز میں سب سے اچھی وہی لگتی ہیں، بلکہ لگتا ہے ان سے اچھا کوئی ہے ہی نہیں، ہاں بس امی کو چھوڑ کر، اور زہرہ باجی کو بھی۔ مس نرگس مجھے ایک تو اس لیے اچھی لگتی ہیں کہ وہ بہت پیاری سی ہیں۔ بڑی بڑی آنکھیں ریکھا جیسی، گورا رنگ، اور آواز اور لہجہ۔ ۔ ۔ لگتا ہے خالدہ ریاست بول رہی ہے۔

پھر وہ دوسری ٹیچرز کی طرح نہیں کہ بس کتاب میں جو ہے وہی پڑھا دینا، بات بات پر ڈانٹنا، ذرا سی غلطی پر اسکیل سے ہاتھ لال کر دینا۔ مس نرگس تو ہم سے جانے کہاں کہاں کی باتیں کرتی ہیں۔ ۔ ۔ مسکرا مسکرا کر۔ اسی پر تو ان کی شکایت ہو گئی تھی کہ لڑکیوں سے جمہوریت اور بھٹو کے بارے میں باتیں کرتی ہے، اور صدر ضیاء الحق کے خلاف بھی۔ خیر یہ پرانی بات ہے جب میں چھٹی کلاس میں تھی۔ مجھے شکایت والی بات کچھ دنوں پہلے ہی پتا چلی، نویں جماعت میں آنے کے کچھ عرصے بعد۔

نوشابہ کی ڈائری: اب راج کرے گا مہاجر

ہاں بھئی ڈائری، کیسی ہو۔ معاف کرنا اتنے دن بعد تم سے ملاقات ہو رہی ہے۔ کراچی سے چھوٹی خالہ آ گئی تھیں اپنی دونوں بیٹیوں کے ساتھ۔ بس پھر پورے دس دن ہلاگلا کرنے اور باتوں میں گزر گئے۔ شائستہ اور شگفتہ کی یہ بات مجھے بہت بری لگتی ہے کہ اتنی خاطرداری کرو،…

ہماری منیا کو دیکھے ہو؟

آج دہلی سے بڑے ابو کے بیٹے کا خط آیا۔ لکھا تھا بڑے ابو کا انتقال ہوگیا۔ ایک ہفتے پہلے جو خط آیا تھا اس میں ان کے شدید بیمار ہونے کا بتایا گیا تھا، مگر وہ خط بہت دیر سے ملا تھا، بھیجے جانے کے مہینہ بھر بعد۔ ابو نے فوراً انڈیا جانے کی…

مس مارگریٹ نعت پڑھتیں تو لگتا پکی مسلمان ہیں

نوشابہ کی ڈائری بڑی خالہ کراچی چلی گئیں۔ انھیں جانا ہی تھا۔ خالو کے ریلوے سے ریٹائر ہونے کے بعد وہ لوگ اور کتنے دن سرکاری مکان میں رہتے۔ پھر شہاب بھائی کی ملازمت بھی تو کراچی میں ہے۔ خالہ کتنے دکھ کے ساتھ کہہ رہی تھیں ”دلی چھٹنے کے بعد یہاں آئے، کس مشکل…

نوشابہ کی ڈائری: مشرقی پاکستان اور کنفیڈریشن کا ذکر

دل کی عجیب حالت ہے، خوش بھی افسردہ بھی۔ باجی جو شادی ہوکر حیدرآباد جارہی ہیں۔ مجھے سمجھا رہی تھیں ”ارے یہ تو رہا حیدرآباد، جب ملنے کو دل چاہے امی کے ساتھ صبح آنا شام کو واپس چلی جانا۔“ کتنا بھی قریب ہو ہے تو دوسرا شہر نا، پھر ہمارے گھر میں ٹیلی فون…

نوشابہ کی ڈائری: ٹی وی فریج بیچ کر اسلحہ خریدنا ہوگا 28 دسمبر 1986

اتنے دنوں میں جانے کیا کچھ ہوگیا، سب سے بڑا واقعہ تو باجی کی شادی ہے۔ باجی کے پیادیس جانے کا افسوس تو تھا لیکن مزہ بہت آیا۔ شادی تک کئی دس بارہ دن پورا خاندان ہمارے گھر پر تھا۔ پھر محلے کی عورتیں لڑکیاں، میلہ لگا تھا گھر پر، روز ڈھول بج رہا ہے…

نوشابہ کی ڈائری: کیا ہر وقت دہلی کی باتیں، چھوڑیں نہ یہ دہلی دہلی

20 مئی 1987 ڈائری! شکر ہے تم مل گئیں۔ تم کھو گئی تھیں تو تمھارے کھونے کے افسوس کے ساتھ یہ ڈر بھی تھا کہ کسی کے ہاتھ نہ لگ جاؤ۔ جانے کیا کچھ کھوگیا، وہ گھر جہاں بچپن گزرا، شہر، محلہ، اسکول، سہیلیاں، مس نرگس، زہرہ باجی۔ ہجرت کرنے میں یہ سب تو ہوتا…

نوشابہ کی ڈائری ( 8 ) ”آئندہ الطاف بھائی کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولیے گا“

۔7 اگست 1987
اف کتنے خوف ناک لمحات تھے۔ سوچتی ہوں تو لرز جاتی ہوں۔ دھماکے کی اطلاع ملی تو ابو صدر ہی گئے ہوئے تھے، اپنی دکان کے لیے سامان لینے۔ رضیہ بھابھی کوئی چیز مانگنے آئی تھیں تو انھوں نے بتایا صدر میں دھماکا ہوا ہے۔ میرے اور امی کے تو پیروں سے زمین نکل گئی تھی۔ میں رونا شروع ہو گئی اور امی جائے نماز پر بیٹھ گئی تھیں۔ ابو جب گھر آئے تو جان میں جان آئی۔ امی نے فوراً صدقہ دیا۔ کتنا خوف ناک دھماکا تھا دو سو سے زیادہ زندگیاں ایک لمحے میں ختم ہو گئیں۔

ضیا الحق نے تو دھماکے کا ذمے دار افغانستان کے ایجنٹوں کو قرار دے دیا اللہ اللہ خیر صلا۔ یہ آدمی تو اب مجھے بہت برا لگنے لگا ہے۔ اقتدار چھوڑ ہی نہیں رہا۔ بے چاری بے نظیر کو پکڑ کر جیل میں ڈال دیا تھا۔ بہت کچھ پڑھنے اور جاننے کے بعد احساس ہوا ہے کہ جنرل ضیا کے بارے میں میری سوچ غلط تھی۔ لوگ کہہ رہے ہیں دھماکا الذوالفقار نے کیا ہے۔ ہو سکتا ہے، وہ طیارہ اغوا کر سکتے ہیں تو دھماکا بھی کر سکتے ہیں۔ ظہور الحسن بھوپالی کو بھی الذوالفقار والوں ہی نے شہید کیا تھا۔

نوشابہ کی ڈائری: وہ کسی اسامہ نام کے مجاہد سے بہت متاثر ہوا

10 فروری 1988 بھابھی کے آنے سے میں خوش ہوئی تھی کہ باجی کی کمی پوری ہوگی مگر یہاں تو کچھ اور ہی کھچڑی پک رہی ہے۔ امی کبھی پڑوسن، کبھی کسی جاننے والی اور کبھی خالہ اور ممانی سے باتیں کرتے ہوئے اپنے نزدیک بڑے دھیرے سے کہہ چکی ہیں ”نوشابہ کے لیے کوئی…

نوشابہ کی ڈائری: ڈر تھا کہ حیدرچوک کے مسئلے پر کوئی ہنگامہ نہ ہو جائے

27 اگست 1988 کتنے دنوں بعد ٹرین کا سفر کیا۔ میرپورخاص جا کر بیتے دن یاد آگئے۔ کب سے بھائی جان سے کہہ رہی تھی لے چلیں ہمیشہ ٹال دیتے تھے۔ زہرہ باجی کی شادی کا کارڈ نہ آتا اور امی چلنے کو نہ کہتیں تو اب بھی ٹالتے رہتے۔ یہ سن کر تو میں…

نوشابہ کی ڈائری: انھیں بس چوبیس گھنٹے کا ٹائم ملا ہے بدلہ لینے کے لیے…

25 دسمبر 1988

لگ بھگ تین مہینے ہوگئے لیکن اب تک وہ خوف ناک منظر بھول نہیں پائی۔ بہت کوشش کی لیکن تصویر بنے دماغ سے چپکے ہوئے ہیں۔ اس دن کا خیال آتے ہی جسم میں ایسی ٹھنڈی لہر دوڑ جاتی ہے جیسے ان جانے میں پگھلی برف میں ہاتھ ڈال دیا ہو۔ خوابوں میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ گونجتی ہے، بندوقیں اٹھائے سائے مجھ پر جھپٹتے ہیں اور میں چیخ کر اٹھ جاتی ہوں۔ حیدرآباد سے آئے اتنے دن ہوگئے لیکن لگتا ہے اب بھی انھیں پتلی پتلی پتلی گلیوں میں برستی گولیوں سے بچتی بھاگ رہی ہوں۔

نوشابہ کی ڈائری: الطاف حسین کو پیرصاحب کہنے لگے ہیں

20 جولائی 1989 ء منگنی کیا ہوئی لگتا ہے زندگی ہی نئی نئی سی ہوگئی ہے۔ پتا نہیں انگلی میں پہنی انگوٹھی زیادہ چمکتی ہے یا اسے دیکھ کر میری آنکھیں، ہر لمحہ اس انگوٹھی کے سنہرے پن میں رنگ گیا ہے۔ بھابھی نے جب ذیشان کی تصویر دکھائی تو سچی بات ہے دل پورے…

نوشابہ کی ڈائری (13): ایک دوسرے کے اغوا شدہ کارکنوں کا آپس میں تبادلہ

کل پڑوس میں میلاد تھا، قادر کے آنے کی خوشی میں۔ وہ واقعی موت کے منہ سے نکل کر آیا ہے۔ جب پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے ہاتھوں قادر کے اغوا کا پتا چلا تھا تو پہلا خیال یہی آیا تھا کہ اب اس کا زندہ واپس آنا ممکن نہیں، پڑوسن خالہ تو بیٹے کے اغوا کا سن کر نیم پاگل ہو گئی تھیں۔ پیپلز پارٹی کے مغوی کارکنوں کی ماؤں کا بھی یہی حال ہوا ہوگا۔ وہ تو فوج نے آگے بڑھ کر دونوں جماعتوں کے مذاکرات کرائے۔ پورے تین دن چلے تھے مذاکرات، جیسے دو ملک قیدیوں کے تبادلے کی بات چیت کر رہے ہوں، تینوں دن پڑوس میں آیت کریمہ کا ورد ہوتا رہا تھا۔

اخبار میں تھا کہ کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل آصف نواز کی ہدایت پر فوج بیچ میں پڑی پھر دونوں نے ایک دوسرے کے اغوا شدہ کارکنوں کا آپس میں تبادلہ کیا۔ کچھ ہی عرصے میں فوج نے یہ دوسری بار لوگوں کی جان بچائی ہے۔ پچھلے سال حیدرآباد پولیس نے لوگوں پر قیامت ڈھائی تھی تب بھی فوج ہی کام آئی تھی۔ غنی بھائی بتا رہے تھے کہ پولیس نے جب اچانک پکے قلعے کا محاصرہ کیا تو پہلے بجلی، پانی اور گیس کی فراہمی بند کردی۔ عورتیں بھوک سے روتے بلکتے بچوں کو لیے سروں پر قرآن رکھ کر رحم کی اپیل کرتی گھروں سے نکلیں لیکن رحم تو کیا کیا جاتا ان پر گولیاں برسا دی گئیں۔ پولیس والے دو دن تک پکا قلعہ گھیرے رہے تھے۔ آخر مکینوں کی بیس جانیں لے کر قلعہ فتح کر لیا گیا۔ پھر فوجی آئے اور انھوں نے لاشوں اور زخمیوں کو اسپتال پہنچایا، حالات سنبھالے۔ انھیں آنا ہی تھا تو پہلے کیوں نہیں آئے؟ خیر کوئی مجبوری ہوگی۔ کہتے ہیں قلعے کے اندر اسلحہ تھا، دہشت گرد تھے۔ تھا بھی تو قلعے میں بسنے والے عام لوگوں کا کیا قصور؟

نوشابہ کی ڈائری: ایم کیوایم والے کہہ رہے ہیں، ”فائنل راؤنڈ“ ہونا ہے

8 دسمبر 1990

اللہ اللہ کرکے بی اے فرسٹ ائر میں ایڈمیشن ہوا، فراغت سے جان چھوٹی۔ یہ سال کتنی خوشیاں لے کر آیا ہے، تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا، بھائی جان کی بیٹی ہوئی، باجی اور غنی بھائی حیدرآباد چھوڑ کر کراچی آگئے، اور سب سے بڑی خوشی یہ کہ بے نظیربھٹو کی حکومت چلی گئی۔

بے نظیر کے جانے پر ہمارے محلے میں مٹھائی بٹی، جیسے ہی شام کو اطلاع ملی کہ صدرغلام اسٰحق خان نے حکومت کو برطرف کر دیا ہے لوگ گھروں سے باہر نکل آئے، ہماری گلی یوں بھر گئی تھی جیسے کوئی جلسہ ہورہا ہو۔ بڑے تبصروں میں مصروف تھے، لڑکوں کی ٹولیاں نعرے لگا رہی تھیں، عورتیں اپنے اپنے گھر کے دروازے پر پردے کی طرح لٹکی ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہی تھیں۔ کتنی شدید ہوائی فائرنگ ہوئی تھی اس شام۔ ہوائی فائرنگ تو زندگی کا حصہ بن گئی ہے۔

نوشابہ کی ڈائری: جو قائد کا غدار ہے، وہ موت کا حق دار ہے

12 اکتوبر 1991 اب یقین آیا کہ دنیا بہت چھوٹی ہے۔ صدام حسین نے قبضہ کیا ہے کویت پر، لڑ رہے ہیں سعودی حکم راں اور صدام حسین، حملہ کیا امریکا نے عراق پر، اور نام بدل گیا ہمارے ننھے منے فہد کا۔ میرے منہ پر اب تک اس کا نیا نام نہیں چڑھا ہے،…

نوشابہ کی ڈائری قسط 16-کراچی پر ایم کیوایم حقیقی کا راج قائم ہو چکا ہے

17 دسمبر 1992

کیسی ہو ڈائری! آج تمھیں کتنے عرصے بعد چھوا ہے۔ میں اتنی بدل گئی ہوں کہ تمھارے صفحات کو میری انگلیوں کا لمس اجنبی لگ رہا ہوگا، کیوں نہ لگے، اس لمس میں کسی اور کی خوشبو جو بس چکی ہے۔ کتنا بدلاؤ آ گیا، ذیشان جو غیر تھا اب اس سے زیادہ اپنا کوئی نہیں، گھر میکا ہو گیا، ذیشان کے والدین امی ابو ہو گئے، اس کے سارے رشتے میرے رشتے بن گئے۔ ملیر سے لیاقت آباد آئی ہوں، لیکن لگتا ہے ایک نئی دنیا میں آ گئی ہوں۔ سوچا تھا بی اے کا نتیجہ آنے کے بعد شادی ہوگی، لیکن ذیشان کی فارماسیوٹیکل کمپنی میں ملازمت ہوتے ہی ان کے گھر والوں نے اتنا اصرار کیا کہ امی ابو کو ماننا ہی پڑی۔

بدلاؤ میری زندگی ہی میں نہیں آیا پورا شہر ہی بدل گیا ہے۔ کل جو دیواریں الطاف حسین کے صدقے واری جاتی تھیں اب ان پر ”الطاف بھگوڑا، لندن دوڑا“ جیسے نعرے لکھے ہیں۔ جگہ جگہ لگی الطاف حسین کی قد آدم تصویروں پر سیاہی پھیر دی گئی ہے۔ ایم کیو ایم کے راہ نما اور گلی گلی بستے کارکن ایسے غائب ہیں جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔ ہر طرف سناٹا ہے، خوف ناک سناٹا۔ مجھے یاد ہے، میں ذیشان کے ساتھ موٹرسائیکل پر بیٹھی اڑی جا رہی تھی۔

نوشابہ کی ڈائری 17: عظیم طارق کے قتل پر ہر ایک دکھی ہے

اس شہر کی قسمت میں شاید یہی ہے، مکمل سناٹا یا پھر گولیوں کی دل دہلاتی آواز۔ کئی مہینے ایسا سکوت رہا کہ آپریشن کرنے والوں کے امن قائم کردینے کے دعوے پر یقین آنے لگا تھا۔ ہم لوگ بندوقوں کی دھائیں دھائیں اور موت کی خبروں کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ کچھ دن گولی نہ چلے اور کسی کے قتل کی اطلاع نہ ملے تو طبیعت بے چین ہوجاتی ہے، لگتا ہے اب کچھ زیادہ برا ہونے والا ہے۔

ذیشان کو آنے میں ذرا دیر ہو جائے تو میں اور میری ساس پریشان ہوجاتی ہیں۔ ذیشان کچھ بدلے بدلے سے لگنے لگے ہیں۔ انھیں غصہ بہت کم آتا تھا، ہر وقت ہنساتے ہنساتے رہتے تھے، بے فکر، اپنی ذات اور میری اور گھر والوں کی محبت میں مگن، مگر اب خاموش اور بے زار سے رہتے ہیں، بات بات پر چیخ پڑتے ہیں، پھر معافیاں مانگ مانگ کر مجھے مناتے ہیں۔ جب انھیں پتا چلا تھا کہ باپ بننے والے ہیں تو کتنا خوش تھے، کبھی میرے لیے پھل لا رہے ہیں کبھی ناریل کا پانی ”پیو پیو، بچہ گورا ہوگا“ مجھے زبردستی پلاتے، خوش تو اب بھی ہیں، میرے کھانے پینے کا خیال بھی اسی طرح رکھتے ہیں، لیکن وہ بات نہیں۔ شاید وہ واقعہ ان پر بہت اثرانداز ہوا ہے۔

نوشابہ کی ڈائری 18: کراچی میں کئی خودمختار علاقے وجود میں آچکے ہیں

سارنگ کے آنے سے زندگی کو نئے معنی مل گئے ہیں۔ ماں بن کر احساس ہوا کہ صوفی خدا سے عشق میں ہر شے سے بے گانے کیوں ہو جاتے ہیں، عاشق کے لیے معشوق کی خاطر اٹھائی جانے والی ہر تکلیف راحت کیسے بن جاتی ہے۔ دوسروں کے بچوں کے نام جھٹ سے رکھ دیتی تھی لیکن اپنے بچے کا نام رکھنے کا موقع آیا تو انتخاب مشکل ہو گیا۔ پہلی بار اندازہ ہوا کہ نام بھی اپنے ماضی، تہذیب، عقیدے اور نظریے کے اظہار اور اس سے جڑے رہنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔

بھائی جان کہہ رہے تھے نام ٹیپو، جوہر، غالب یا خسرو رکھو، پھوپھا کا اصرار تھا نام خالص اسلامی ہو جیسے فیض اللہ، نور اسلام۔ سسر کے سپاہ صحابہ والے دوست اکرام صاحب کی تجویز تھی ”معاویہ“ ، دو گھر چھوڑ کر رہنے والے باقر رضوی کی بیگم نے نام حیدر یا جعفر رکھنے کی صلاح دی۔ ذیشان کے دعوت اسلامی والے ماموں ”عطا المصطفی“ اور ”غلام دستگیر“ پر مصر تھے، میں نے ”جیون“ اور میکسم گورکی کے ناول ماں کے کردار ”پاویل“ کے نام پیش کیے، جیون کو سسر نے ہندوانہ نام قرار دے دیا اور ”پاویل“ پایل کی مشابہت کے باعث نسوانی ٹھہرا دیا گیا۔

نوشابہ کی ڈائری 19: ”یہ بچے ایم کیو ایم میں سیاست کے لیے نہیں لڑنے مرنے آئے ہیں“۔

موت کو پہلی بار اتنے قریب سے دیکھا جب اپنا گھر ”موت کا گھر“ بن گیا۔ وہ خوف ناک رات ہمارے گھر کی خوشیاں کھا گئی اور امی جان کی زندگی نگل گئی۔ ہم سب کے دل زخمی ہیں مگر ذیشان پر تو قیامت گزر گئی ہے۔ انھوں نے میت کے سرہانے کھڑے ہو کر کہا تھا، ”میری ماں مری نہیں قتل ہوئی ہوئے، خدا کی قسم میں انتقام لوں گا۔“ میں ان کا یہ جملہ سن کر سہم گئی تھی۔ امی جان کا صدمہ کیا کم تھا کہ یہ خدشہ مجھے اندر ہی اندر کھانے لگا کہ ذیشان کی جذباتیت اور ماں سے محبت انھیں نہ جانے اب کس طرف لے جائے، اور یہی ہوا۔

کہتے ہیں ہمیشہ اچھا سوچنا چاہیے، برا سوچو تو برا ہوجاتا ہے، ان حالات میں انسان برے کے علاوہ کیا سوچ سکتا ہے۔ اس رات پیروں کی دھمک اور کمرے کا دروازہ دھڑ سے کھلنے کی آواز سے میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی تھی۔ اندھیرے میں ہر طرف سائے تھے، بندوقیں تانے، میرے پہلو میں سوئے ذیشان کو گریبان سے پکڑ کر اٹھایا اور دیوار سے لگادیا گیا۔ سارنگ شور سے اٹھ گیا اور رونے لگا تھا۔ میں نے بدحواسی میں ڈھونڈ کر دوپٹہ اوڑھا۔

نوشابہ کی ڈائری: کھجی گراؤنڈ فتح ہو گیا․․․ ایم کیو ایم جنگ ہار رہی ہے

27 دسمبر 1995 میں ذیشان کو نہیں روک سکی، نہ جانے سے نہ اس راستے پر سفر سے جو اچانک کسی اندھیروں سے بھری کھائی پر ختم ہوجاتا ہے۔ میں نے ذیشان کو بہت سمجھایا، سارنگ کے بچپن، ابو جان کے بڑھاپے اور اپنی محبت کے واسطے دیے، سمجھانے کی مہلت ملتی بھی کتنی تھی،…

نوشابہ کی ڈائری: ”چیرا“ اور دوسرے ماورائے عدالت اقدامات

30 دسمبر 1996 کتنے دن بعد ذیشان کی صورت دیکھی، لگتا ہے مہینے نہیں سال گزرے ہیں۔ کتنا بدل گئے ہیں، کچھ بدلے ہیں کچھ خود کو بدل لیا ہے۔ ایک تو دبلے بہت ہوگئے ہیں، پھر داڑھی، بالوں کا نیا انداز اور سیاہ چشمہ، وہ ”یہ میں ہوں نوشی“ نہ کہتے تو جانے کتنی…

نوشابہ کی ڈائری: حکیم سعید شہید․․․سندھ میں گورنر راج․․․ ”مہاجر“ لفظ ”متحدہ“ سے تبدیل -قسط 22۔

19 جنوری 1999 وقت کتنی تیزی سے گزرتا ہے، زخموں پر کھرنڈ جماتا، مرہم رکھتا، یہ اس تیزرفتاری سے دوڑتا ہے کہ دوڑتے قدموں کی اڑتی دھول میں ماضی دھندلاجاتا ہے۔ کب سے ڈائری نہیں لکھی، جب لکھنے بیٹھی ذیشان سامنے آگئے، ”ابے کب سے لکھ رہی ہے تھکی نہیں“ اس لکھنے پڑھنے کے چور…

نوشابہ کی ڈائری: ”نو گو ایریا“ ختم․․․ مہاجر ”اردو بولنے والے سندھی“ ہو گئے

16 جولائی 2003 سال اور قد بچے کی عمر بتاتے ہیں لیکن بچوں کے شعور کی اٹھان کا پتا ان کے سوال دیتے ہیں۔ وہ سوال جو ہمیں پریشان یا سوچنے پر مجبور کردیں۔ کچھ دنوں پہلے سارنگ نے جب پوچھا، ”ماما! آپ ڈائری کیوں لکھتی ہیں، کوئی پڑھتا نہیں تو فائدہ؟“ تو مجھے خبر…

نوشابہ کی ڈائری: بارہ مئی 2007ء

28 مئی 2007ء

پھر گئے دور کی ابتدا ہو گئی

کل مرے شہر میں انتہا ہو گئی

آج ’ایس ایم ایس‘ میں آنے والی نظم کا یہ آخری شعر میرے دماغ میں پھنس کر رہ گیا ہے۔ 12 مئی کو جو کچھ ہوا، وہ واقعی انتہا تھی۔ موت کا کھیل کھلے عام سڑکوں پر کھیلا جا رہا تھا اور کرکٹ میچ کی طرح ٹی وی چینلوں پر براہء راست دکھایا جا رہا تھا۔ جانے کون جیت رہا تھا، لیکن لوگ جانیں ہار رہے تھے۔ یہ سب ریاست کے سب سے بڑے شہر میں ہو رہا تھا۔ ریاست جانے کہاں تھی، فریق تھی یا تماشائی۔ اسلحہ بردار لڑکے پورے اطمینان سے گنیں لوڈ کرتے، پھر تاک تاک کر نشانہ لیتے۔

نوشابہ کی ڈائری 25 ادھر لیاری․․․․․ادھر کٹی پہاڑی․․․عمران فاروق شہید انقلاب قرار پائے!

آج چائے بناتے ہوئے ہاتھ جل گیا۔ جلن کی اذیت جھیلتے ہوئے خیال آیا، ان پر کیا گزر رہی ہوگی جن کے پورے جسم شعلوں میں گھرے تھے۔ بلدیہ ٹاؤن کی گارمنٹ فیکٹری کے سانحے کے بارے میں سوچ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، اپنے ارد گرد تپش محسوس ہونے لگتی ہے۔ ڈھائی سو سے زیادہ مزدور زندہ جل گئے۔ زندہ جلنا! تصور بھی کتنا خوف ناک ہے، اسی لیے سب سے زیادہ جہنم کی آگ سے ڈرایا گیا ہے۔ لیکن یہ ڈراوا بھی دوسروں کی زندگی جہنم بنا کر اپنے لیے جنت تعمیر کرنے والوں کو ان کے ارادوں سے نہیں روک پاتا۔

میرا شہر بھی تو ایک جہنم ہے، مسلسل خوف کا عذاب۔ سوچتی ہوں کیا دوزخ میں اس سے بڑھ کر اذیتیں ہوں گی جو اس شہر کے باسی جھیل رہے ہیں؟ کیا باپ کے سامنے بیٹے کی سر کٹی لاش لائی جائے گی؟ یہ اطلاع کسی کا دل کرب سے بھر دے گی کہ اس کے پیارے کا جسم ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا، کوئی ماں گم شدہ بیٹے کے انتظار میں تڑپنے کی تکلیف جھیلے گی اور کیا کسی جہنمی کو یہ سوال ستائے گا کہ ”جانے کس جرم کی پائی ہے سزا؟“ خدا کتنا مہربان ہے، اس کی تو سزائیں بھی اس کے رحم کی دلیل ہیں، اور انسان کس قدر سفاک۔

نوشابہ کی ڈائری: 22 اگست کی تقریر… اور شہر بدل گیا

10 ستمبر 2016 وہ نعرہ زمین پر پڑا تھا، میرے قدموں کے پاس ”ہم نہ ہوں، ہمارے بعد، الطاف الطاف“ میں ایم کیو ایم کے مسمار کردیے یونٹ آفس کے دور تک بکھرے ملبے سے بچتی ہوئی چل رہی تھی کہ اچانک ٹوٹی دیوار کا یہ ٹکڑا راستے میں آ گیا، میں پل بھر کو…