میری ”بد معاشیوں“ کے انداز

مایا اور میں عارف حسین کے سامنے بیٹھے تھے۔ میری ڈائریکٹ اپائنٹ منٹ عارف حسین کی تھی۔ مجھے محسوس ہوتا تھا کہ عارف حسین کو مجھ پہ بہت مان ہے۔ پہلے تو سرزنش کی کہ مایا کی ای میل کا جواب ”کیپیٹل لیٹر“ میں کیوں دیا۔ انھوں نے پوچھا مسئلہ کیا ہے۔ مجھے لگا اگر میں نے یہاں وہ سب الزام لگا دیے، جو مجھے محسوس ہوتا تھا، کہ مایا نے غلط کیا ہے تو اس کی بہت سبکی ہو گی۔ میں نے اتنا کہا، مجھے پورے اختیار کے ساتھ کام کرنا ہے، ورنہ نہیں۔ اور مایا میرے اختیار میں مداخلت کرتی ہیں۔ ’عورت کہانی‘ کی مثال دی، جس کی میزبان مایا تھی۔ میرا کہنا تھا پروڈیوسر میں ہوں، مایا کو سیٹ پر اینکر بن کے رہنا چاہیے۔ سیٹ پر میں کسی کو باس نہیں مانتا۔ اس میٹنگ میں بہت سی ایسی باتیں ہوئیں، جن کی تفصیل میں جانا ضروری نہیں۔ عارف حسین نے آخری سوال کیا:

ملنا آصف قبال اور ظہیر عباس سے

جیسا کہ ذکر ہو چکا، انیق احمد اپنے پروگرام ’آغاز‘ کے لیے مجھے پروڈیوسر رکھنے کو چینل مالکوں تک سے جا ملے تھے۔ لیکن اسی دوران میں، میں انھیں اپنے استعفے کی خبر دے چکا تھا۔ اب میں نے ان کی چاہ کے مطابق ’آغاز‘ کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ میں نے اس پروڈیوسر سے بات کی، جو مجھ سے پہلے ’آغاز‘ کے معاملات دیکھتا تھا تا کہ انیق احمد اور پروڈیوسر کے درمیان جو مسائل پیدا ہوتے ہیں، انھیں سمجھوں۔ میں یہ ذکر بھی کر چکا، انیق احمد اس پروگرام کی ایڈٹنگ خود کرواتے تھے، تو میں نے انیق بھائی سے یہ کہا، پروگرام کی ایڈٹنگ میں کرواؤں گا، آپ فائنل کٹ دیکھ لینا۔ وہ اس پہ رضا مند ہو گئے۔ بعد میں یہ شو ’لائیو‘ ہونے لگا۔ انیق احمد کے تاثرات نہ جانے کیا ہوں، اس شو کو کرتے مجھے ان سے ایک دن بھی پرابلم نہیں ہوئی۔ میں نے شو کے سیٹ میں تھوڑی بہت تبدیلیاں کروائیں اور لائٹنگ میں بھی تبدیلی لے آیا۔

کرکٹر آصف اقبال سے میرا سوال اور ان کی حیرانی

ٹی 20 ورلڈ کپ 2009 ء کی افتتاحی تقریب کے بعد ایک ہی میچ تھا۔ ہم پری میچ شو کر آئے تھے اور پوسٹ میچ تبصرے کے لیے دو تین گھنٹے کا وقفہ تھا۔ ظہیر عباس کسی کام سے چلے گئے کہ شو سے پہلے لوٹ آئیں گے۔ جب کہ ڈائریکٹر شیخ سعید، میں اور آصف اقبال بورڈ روم میں آ کے بیٹھ گئے۔ یہ پہلی بار تھا کہ آصف اقبال صاحب سے سکون کے لمحو‍ں میں بات ہو سکتی تھی۔ چھریرے بدن کے آصف اقبال بہت نرم لہجے میں، ٹھیر ٹھیر کے بات کرتے ہیں۔ ایسے میں ان کی شخصیت کا سحر دو چند ہو جاتا ہے۔ میں انھیں محض ایک کرکٹر سمجھ کر کرکٹ پہ بات کر رہا تھا۔ ان سے منسوب قصوں کا ذکر کر رہا تھا۔ کرکٹ سے میرا لگاؤ دیکھ کر وہ خوش تھے۔ میں ایسے بے تکلف ہو رہا تھا، جیسے ان کے بعد کرکٹ پر ایک میں ہی اتھارٹی ہوں۔ اس دوران میں، میں نے پوچھ لیا:

”سر! آپ آج کل کیا کرتے ہیں“ ؟

عمران خان پر مرنے والی لڑکیوں کے قصے اور ظہیر عباس کی جنت

جون 2009 ء ہی میں اے آر وائے ون ورلڈ کا نام، اے آر وائے نیوز کر دیا گیا، جب ہم ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ 2009 ء کی کوریج میں مصروف تھے۔ عبد القادر پی سی بی میں چیف سلیکٹر کے عہدے پر اور یونس خان پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے۔ یاد نہیں رہا ٹورنامنٹ کا وہ کون سا میچ تھا، جس میں پاکستان کو شکست ہوئی تھی، اور یونس خان کے ٹی 20 کھلائے جانے پر اعتراضات بڑھ گئے تھے۔ نیز عبد القادر کی ٹیم سلیکشن پر تنقید ہوئی تھی۔ اس وقت ہم پری میچ کمنٹری کے لیے اسٹوڈیو میں داخل ہوئے ہی تھے کہ عبد القادر کے استعفے کی خبر آ گئی۔ آصف اقبال نے مجھے ہدایت دی کہ پروگرام میں جاوید کا بیپر لو۔ آن لائن جانے سے پہلے کی افراتفری تھی۔ میاں داد پی سی بی کے ڈائریکٹر یا کچھ ایسے عہدے پر تھے۔ بعد میں اس عہدے کا ذکر میرے سننے میں نہیں آیا۔

اے آر وائے کا مذاق اڑانے پر وسیم بادامی کو ڈانٹ پڑنا

مجھے فائنل پروگرام سے پہلے سن گن مل گئی تھی کہ ظہیر عباس کو آخری پروگرام کے بعد چینل کی طرف سے جو چیک دیا جانا ہے، اس کی ادائی کا کوئی امکان نہیں۔ بل کہ چینل کے کچھ بڑے ٹھٹھا اڑا رہے تھے کہ ظہیر عباس یونھی لوٹائے جائیں گے تو کیا دیکھنے لائق منظر ہو گا۔ اب ہونا یہ تھا کہ آخری شو رات گئے ختم ہوتا۔ ظہیر عباس پروڈیوسر (مجھ سے چیک کا پوچھتے۔ پروڈیوسر) میں جواب دیتا، اکاؤنٹ تو شام پانچ بجے کلوز ہو جاتا ہے، کل صبح کال کیجیے گا۔ یہاں میں اس کا نام نہیں لوں گا، جس نے مجھے کہا، ظہیر عباس کو کال کر کے یقین دلا دو کہ آخری روز چیک ضرور مل جائے گا۔ آصف اقبال، کہ جن کے سامنے جاوید میاں داد جیسے لیجنڈ بھی دبتے ہوں، ظہیر عباس انھیں فقط آصف کہ کر مخاطب کیا کرتے تھے۔ اور کئی بار آصف سے نہایت بے تکلفی سے گزشتہ ’سانجھی وارداتوں‘ کا ذکر کر جاتے۔ ”تمھیں وہ دن یاد ہے، جب وہ“ ؟ ۔ ۔ وہ بھول جاتے کہ ہم وہاں موجود ہیں۔ جب آصف اقبال کے چہرے پر چھائی سنجیدگی میں ذرا تبدیلی نہ آتی، تو ظہیر سمجھ جاتے یہ تخلیے کی بات ہے، بچوں کے سامنے کرنا مناسب نہیں۔