تندی باد مخالف (1)


زندگی میں مختلف واقعات جنم لیتے رہتے ہیں۔ یہ واقعات ہماری زندگی کو ایک خاص رخ دینے کے لئے ہوتے ہیں۔ ہمیں لگتا تو ایسے ہے کہ ہمارے ارد گرد سبھی یا کچھ لوگ ہمارے خلاف ہیں اور ہمیں ہر صورت میں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ایسے ہی ہو۔ بات صرف اتنی سی ہوتی ہے کہ ہمیں دوسروں کی خامیاں صاف نظر آتی ہیں، صرف اپنی کمزوریوں، کجیوں اور حماقتوں کا احساس نہیں ہوتا۔ فوج میں سروس کے دنوں میں، چوں کہ میری طبیعت میں ٹھہراؤ نہیں تھا اور میں جلد سے جلد اپنی تعلیم مکمل کر کے سرجن بننا چاہتا تھا ’اس لئے میں فوج کو اپنے راستے میں حائل، ایک دیوار سمجھتا تھا۔ یہ ممکن ہے کہ، ان دنوں میرا اپنا رویہ بھی درست نہ رہا ہو۔

چھمب کے بیلے اور میلے کے حیرت کدے میں صرف مناو ر ٹیکری ہی اہم عجوبہ نہیں تھی، وہاں اور بھی بہت کچھ تھا۔ وہاں فرنٹیئر فورس کی ایک انفنٹری رجمنٹ جس میں میجر آفریدی، میجر اسلم اور میجر اویس تھے، کیپٹن بصیر اور کیپٹن ضیاء تھے، لیفٹیننٹ مجیب، لیفٹیننٹ حسن اور لیفٹیننٹ عابد تھے اور سب سے بڑھ کر لیفٹیننٹ کرنل (نام میں کیا رکھا ہے، آپ انہیں کرنل ساگر کہ لیں ) تھے، جو ایس ایس جی سے نئے نئے آئے تھے۔ میری اپنی یونٹ، جو بہت پیچھے بھاگووال میں تھی، میں نئے کمانڈنگ افسر، سلطان الغافلین، آ گئے تھے، سیکنڈ ان کمان، میجر، جو مجسمہ تسلیم و رضا تھے، چھے ماہ پہلے آئے تھے۔

کیپٹن ضیاء الدین جہلم سے تھا۔ وہ 32 ایف ایف کا بڑا فرض شناس کوارٹر ماسٹر تھا۔ دھوپ میں دوڑ دھوپ کی وجہ سے اس کا چہرہ سنولا نہیں جھلس سا گیا تھا۔ اس کا نشیمن، میرا مطلب ہے جھگی، میری جھگی سے ملحقہ تھی۔ ضیاء ہر وقت ٹیلیفوں پر ادھر ادھر ہدایات جاری کرتا رہتا۔ کبھی کبھی میں رات کو اس کی بڑی اونچی آواز سن کر ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھتا اور اسے کہتا: خدا کرے اس یونٹ کے سارے ٹیلیفون سیٹ، بی ایل آر (BLR) یعنی (Beyond Local Repair) ہو جائیں تاکہ میں آرام سے سو تو سکوں۔

ایک رات، دو بجے، وہ چیخ چیخ کر کسی کو ہدایات دے رہا تھا۔ میں آنکھیں ملتا اٹھا تو دیکھا کہ ضیاء کہے جا رہا ہے : شمال میں مسلسل بارش برس رہی ہے، اوپر سے بہت پانی آ رہا ہے، آپ لوگ دریا کے ادھر والے کنارے پر آجائیں۔ وہ ایک کمپنی، جو دریا کے عین درمیان میں دریا کے دوسرے کنارے پر بیٹھے دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے، ایک بیلے میں ڈیرا جمائے بیٹھی تھی، کو پیچھے آنے کا کہ رہا تھا۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ پیچھے آتے، دریا میں اتنا پانی آ گیا کہ کشتی میں بیٹھ کر دریا عبور کرنا ناممکن ہو گیا۔

صبح میں نے دریا کے کنارے جاکر طغیانی پہ آئے اس ٹھاٹھیں مارتے پانی کو دیکھا تھا۔ دریا، جس میں سمندر کی طرح لہریں اٹھتی تھیں، کے درمیان ٹیلے کا صرف دس پندرہ گز کا ایک ٹکڑا، صرف دو فٹ پانی سے اوپر دکھائی دیتا تھا جس پر تیس کے قریب جوان ایک دوسرے سے لگ کر کھڑے تھے۔ بڑا خوف ناک منظر تھا۔ انہیں بڑی مشکل سے کہیں ساڑھے بارہ بجے جاکر، جب پانی کافی حد تک اتر چکا تھا، ہیلی کاپٹر کے ذریعے، بحفاظت نکا لا جا سکا تھا۔

اس یونٹ میں کیپٹن بصیر ایڈجوٹنٹ تھا۔ وہ چھریرے بدن کا، گفتگو میں رواں، تیر طرار سا جواں تھا۔ ایڈجوٹنٹ کا عہدہ عام طور پر آئندہ ترقی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے ۔ فوج میں زیادہ تر، یس سر، یس سر، ہی سراسر اور کسی حد تک، خوش بیانی، خوش گفتاری، چرب زبانی اور خوشامد، ترقی اور کامیابی کے بڑے ہتھیار ہوتے ہیں۔ جلد ترقی پانے والے حضرات میں سے زیادہ تر انہی ہتھیاروں سے لیس ہوتے ہیں۔ چرب زبانی اور خوشامد ایسے ہتھیار ہیں جو کبھی کند نہیں ہوتے، انہیں جتنا زیادہ استعمال کیا جائے، یہ اتنے ہی تیز دھار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان کی تیز دھار، بہت سے تیز و طرار لوگوں کو بھی کاٹ کے رکھ دیتی ہے۔ مجھے کبھی پتہ نہ چل سکا کہ ان ہتھیاروں کی سکھلائی کا کام کون سی اکیڈمی میں ہوتا ہے۔

دریا کے پار، وہ معائناتی دورہ جو دو ماہ قبل، سیلاب کے باعث، قضا ہو گیا تھا، مئی 1978ء کے پہلے ہفتے میں اب پھر سے درپیش تھا۔ اب وہ جگہ میرے مستقر سے بیس میل دور تھی۔ اب میں پچھلے بھولے ہوئے سبق کو یاد کر چکا تھا۔ یہاں موجود انفنٹری کے افسروں سے نقشہ لے کر راستے کا جائزہ بھی لے چکا تھا۔ اس دفعہ جب دریا کے کنارے، اسی جگہ پہنچے، جہاں سے ہم واپس چلے آئے تھے تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دریا کا وہ کنارہ، دریا کی تہہ سے پندرہ، بیس فٹ اونچا تھا گویا اس دن دریا کی گہرائی بیس فٹ کے قریب تھی۔

دریا اب بھی خشک نہیں تھا، دو تین شاخوں میں بٹ کر اتھلا ہو چکا تھا، لیکن پانی کی گہرائی اب بھی اتنی تھی کہ ایمبولنس اس میں گزر نہیں سکتی تھی۔ جاتے ہوئے جب میں بوٹ اتارنے لگا تو ایک سپاہی نے مجھے زبردستی اپنے کندھوں پر اٹھا لیا اور دو نالے اسی طرح عبور کروا دیے۔ البتہ واپسی پر جس یونٹ کا ہم معائنہ کرنے گئے تھے، نے دو گھوڑے اس کام کے لئے ہمارے ساتھ کر دیے۔ یہ ایک دن کا کام نہیں تھا۔ بٹالین کی پلٹنیں دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔

انہیں دیکھنے میں دو دن لگ گئے۔ صاف ظاہر تھا، ہمارے نائب کماندار نے یہ علاقہ خود کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہاں سے واپس آیا تو دس دن بعد بریگیڈ کی ایک جزوی مگر لمبی حربی مشق پر کڑیانوالہ کے علاقے میں بھیج دیا گیا۔ میڈیکل کور (طبی پشت پناہی) دینے کے پیش نظر ہمارا دستہ ہمیشہ، قافلے کے سب سے پیچھے ہوتا۔ سخت گرمی تھی۔ کچا اور ریتلا علاقہ تھا، ہر وقت دھول اڑتی تھی۔ پس کارواں ہونے کا مطلب، پس گرد و غبار ہونا تھا۔

منہ اور سر پر اتنی خاک پڑتی تھی کہ منہ اور آئینہ صاف کرنے پر بھی چہرہ گرد آلود ہی رہتا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ اندر کی کثافت چہرے پر عیاں ہو جاتی ہو۔ اگر میں شاعر ہوتا تو اپنے نام کے ساتھ ’میر‘ کے بجائے ’خاکسار لکھنا شروع کر دیتا۔ یہ مشق چھے ہفتے تک چلی۔ کھڈوں، نالوں اور ٹیلوں کی خاک چھانتے ہوئے دل تو جلا، سخت گرمی میں جسم بھی جل گیا۔ اب میں اپنا تخلص بڑی آسانی سے تبدیل کر کے ’خاکستر‘ رکھ سکتا تھا کہ جون کے آخری ہفتے میں یہ مشق اپنے اختتام کو پہنچی اور میں، چھے ہفتے بے ٹھکانہ رہنے کے بعد ، چھمب میں اپنی جھگی یعنی (Home sweet Home) میں پہنچ گیا۔ بان کی منجی، استر حریر اور مخمل سے زیادہ آرام دہ لگی۔ جو سکھ چھجو دے چبارے، اوہ نہ بلخ نہ بخارے۔

ایک دن ایف آئی یو (Field Intelligence Unit) کے صوبے دار صاحب اپنے دو ہم کاروں کے ہمراہ، ایک شخص کو پکڑے، میرے پاس تشریف لائے۔ کہنے لگے اس شخص کو ہم نے زیرو لائن پر بھاگتے دیکھا اور پکڑ لیا۔ یہ ہندوستان کا جاسوس لگتا ہے۔ ہم اس سے تفتیش کرنا چاہتے ہیں۔ آپ اس کا طبی معائنہ کریں، آیا یہ ہماری تفتیش کا بار (یا مار) سہ بھی سکتا ہے یا نہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ ایک فوجی میں سب کچھ ہو سکتا ہے، صرف انٹیلی جنس نہیں ہو سکتی۔ میں نے دیکھا کہ وہ ایک ادھیڑ عمر، جھلا سا دیہاتی شخص ہے جو انتہائی لحمیاتی اور خون کی کمی (Hypopreinaemia & Anaemia) کا شکار ہے۔ اس کا جسم اور سانس دونوں ہی پھولے ہوئے تھے۔ اس کے جسم و جان کا رشتہ ایک بہت ہی کچے دھاگے سے جڑا ہوا تھا۔ اس کے جسم پر چربی نہیں سوجن تھی۔ میں نے صوبیدار صاحب کو باہر بھیج کر اس شخص سے پوچھا کہ وہ کون ہے اور زیرو لائن پر کیا کر رہا تھا۔ اس نے اپنا اور اپنے گاؤں کا نام بتایا اور کہا، وہ گاؤں کے نمبردار کے مال ڈنگر، روٹی کپڑے کے عوض چراتا ہے۔ نمبردار کی ایک گائے بہت اتھری ہے۔ وہ گائے بیلے میں اچانک ایک طرف کو بھاگ نکلی، میں اسے پکڑنے کو اس کے پیچھے دوڑا تو ان لوگوں نے مجھے پکڑ لیا اور اب آپ کے پاس لے آئے ہیں۔ میں نے صوبیدار کو اندر بلایا اور کہا، صوبیدار صاحب! آپ سیانے بیانیے افسر لگتے ہیں، آپ کا مشاہدہ بھی ہوگا۔ آپ کا کیا خیال ہے، لوگ اپنے ملک کے خلاف جاسوسی کیوں کرتے ہیں؟

پیسوں کے لالچ میں؟
پیسے، کس لئے؟
پیٹ پوجا اور دولت کی ہوس میں۔

میں نے اپنی انگلیوں کی پوریں اس جھلے سے شخص کے ہاتھ کی پشت اور پاؤں پر گڑو دیں۔ وہاں گڑھے بن گئے جو بہت دیر تک قائم ر ہے۔ میں نے کہا، صوبیدار صاحب، اس شخص کی شرح ذہانت 25 فی صد سے زیادہ نہیں ہے۔ اس کے جسم میں خون نہیں صرف پانی گردش کر رہا ہے اور وہ بھی اس کی رگوں سے نکل کر اس کی بافتوں میں جمع ہو گیا ہے۔ کئی سالوں سے مناسب خوراک نہ ملنے کی وجہ سے یہ شخص پروٹین کی کمی کا شکار ہے۔ بھوکے کو پیسے ملیں تو وہ سب سے پہلے اپنے لئے کھانے کا بندو بست کرتا ہے۔

اس کا گاؤں یہاں سے صرف ڈیڑھ میل کے فاصلے پر ہے، اسے اپنی جیپ پر وہاں لے جائیں اور نمبر دار سے پوچھیں کیا یہ شخص واقعی اس کے مویشی چراتا ہے؟ اگر وہ اس کی تصدیق کرے تو اسے چھوڑ دیں۔ وگرنہ واپس لے آئیں۔ میں اس کا معائنہ کر کے رپورٹ آپ کو دے دوں گا۔ ویسے پیشگی کہے دیتا ہوں اگر آپ نے اسے ہاتھ بھی لگایا تو یہ اللہ کو پیارا ہو جائے۔ آپ کی پیشی یہاں کسی عدالت میں پڑے یا نہ پڑے، آگے ضرور پڑے گی۔ وہاں آپ کا طبی معائنہ بھی نہیں کرایا جائے گا۔ اب آپ جائیں۔ صوبیدار صاحب چلے گئے اور پلٹ کے نہیں آئے۔

میں اس چھے ہفتے کی مشقی مہم، جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے، سے واپس آیا تو میری ہمسایہ یونٹ میں ایک نئے کمانڈنگ افسر آ گئے۔ یہ ایک لا ابالی اور کھلنڈرے سے جوان تھے۔ یہ ایس ایس جی (کمانڈو) ٹریننگ کے فوراً بعد یہاں بھیجے گئے تھے۔ لیفٹیننٹ کرنل کارینک تو انہیں دے دیا گیا تھا، مگر ان کا بنیادی رینک ابھی تک کیپٹن کا ہی تھا۔ یہ اپنے سارے افسروں کو بھی کمانڈو بنانا چاہتے تھے۔ ایک دن میں بعد سہ پہر آرام کر رہا تھا کہ کیپٹن ضیاء نے آ کر کہا کہ ہم سبھی پرندوں کے شکار کے لئے باہر جا ر ہے، کرنل ساگر چاہتے ہیں، آپ بھی ہمارے ساتھ آئیں۔

آپ پی ٹی شوز پہن کر آجائیں، سبھی آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہاں ہر طرف باہر ہی باہر تھا، جھگیوں کا اندر باہر ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ میں باہر نکلا تو کرنل صاحب کے ساتھ کیپٹن ضیاء کے علاوہ تین افسر اور بھی تھے۔ لیفٹیننٹ مجیب، میجر اسلم اور اور غالباً میجر اویس۔ مجیب کے ہاتھ میں شکاری بندوق تھی۔ ہم جنوب کی سمت چل پڑے اور چلتے چلے گئے۔ مناوری ٹیکری تو بہت پیچھے رہ گئی تھی۔ ہم چار میل کچے راستے پر چلتے ہوئے متے والا گاؤں کے قریب پہنچ گئے۔

راستے میں کسی پرندے کا شکار نہیں کیا گیا۔ اچانک کرنل ساگر بائیں مڑ کر مشرق کی سمت میں مناور توی، دریا کی طرف ہو لئے۔ یہ دلدلی علاقہ تھا۔ کیچڑ میں چلتے ہوئے ہمارے جوتے بھاری ہو گئے تھے۔ دو تین فرلانگ کے بعد ہمارے راستے میں ایک تالاب سا آ گیا۔ کرنل صاحب اس میں اتر گئے۔ پانی ان کی چھاتی تک تھا۔ ہم سب کو ان کی پیروی میں یہی کرنا پڑا۔ دوسری طرف نکلے تو سارے کپڑے بھیگ گئے، جوتے جو کیچڑ میں لت پت تھے، میں پانی بھر گیا۔ کرنل ساگر نے تالاب سے باہر نکلتے ہی شمال کی جانب دریا کی الٹی سمت میں دوڑنا شروع کر دیا اور اڑھائی میل تک دوڑتے ہی چلے گئے۔ انہوں نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو ان کے پیچھے بیس قدم کے فاصلے پرضیاء اور اس سے دس پندرہ قدم پیچھے میں تھا۔ باقی لوگ کہیں بہت پیچھے رہ گئے تھے۔ وہ اچانک رک گئے۔ ہم ان کے پاس پہنچے تو مجھے کہا، ڈاکٹر تم نے تو مجھے سر پرائز دے دیا۔
کس بات کا سرپرائز؟ میں نے کہا۔
بھئی یہ سارا ڈرامہ تو میں نے تمہارا مذاق اڑانے کے لئے کیا تھا، تم نے میرے افسروں کا مذاق بنا دیا۔

جناب آپ نے مجھے صرف کتابیں پڑھتے دیکھا ہے، دوڑتے نہیں، میں ہر روز عصر کے بعد دو میل کی دوڑ لگاتا ہوں۔

باقی افسر تین چار منٹ بعد ایک ایک کر کے ہم سے آ ملے۔ سب سے آخر میں میجر اویس تھے۔ ذرا بھاری جسم کے نہایت خوبرو، خوش مزاج اور خوب سیرت انسان تھے۔ وہ باقاعدہ ہانپ رہے تھے۔

ہم دریا کے ساتھ ساتھ اوپر کی جانب کوئی میل بھر چلے ہوں گے کہ دریا کے دوسرے کنارے پر کشتی میں سوار ایک سپاہی اور لیفٹیننٹ حسن نظر آئے۔ کرنل ساگر نے انہیں آواز دے کر اس طرف بلا لیا۔ ہم سبھی کشتی میں سوار ہو گئے۔ کشتی جب دریا کے عین درمیان میں پہنچی تو کرنل صاحب اٹھے، حسن کے پاس گئے۔ وہ بے چارہ کشتی کے کنارے پر بیٹھا تھا۔ وہ ابھی سمجھ بھی نہیں پایا تھا کہ کیا ہونے والا ہے کہ کرنل صاحب نے اس کی چھاتی پر ہاتھ رکھا اور اس زور سے دھکا دے دیا کہ وہ الٹ بازی کھا کر پانی میں جا گرا۔

مجیب کے ساتھ بھی انہوں نے ایسے ہی کیا۔ البتہ ضیاء ان کے دھکا دینے سے پہلے ہی دریا میں کود گیا۔ میں نے مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ اگر انہوں نے مجھے دھکا دیا تو میں انہیں بھی دریا میں ساتھ ہی لے کر جاؤں گا۔ لیکن انہوں نے ایسی کوئی حرکت نہ کی۔ دونوں میجر بھی ان کی دراز دستی سے محفوظ ر ہے۔ مجھے حسن کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا، پر رنج تھا۔ جب وہ آ کر اپنی جگہ پر بیٹھ گئے تو میں نے کہا، سر یہ آپ نے کیا کیا؟

میں ان کی ٹریننگ کروا رہا ہوں۔

ٹریننگ اس طرح تو نہیں ہوتی۔ حسن کے ساتھ حادثہ بھی پیش آ سکتا تھا، وہ تو بالکل بے دھیان بیٹھا تھا۔ آپ ان کی ٹریننگ ضرور کروائیں مگر ان کی عزت نفس کا خیال بھی رکھیں۔ یہ سب آپ کے ماتحت ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی آپ کے سامنے نہیں بولے گا لیکن آپ کے اپنے احترام میں فرق ضرور آ جائے گا۔

کرنل ساگر کو میرے اس طرح کے رد عمل کی امید نہیں تھی۔ خاموش ر ہے۔ ہم دریا کے پار اپنے اگلے مورچوں تک گئے اور بہت دیر تک وہاں ر ہے۔ ہم رات کے ساڑھے نو بجے اپنے ٹھکانے پر واپس آئے۔

کچھ ہفتے گزرے کہ کیپٹن ضیاء نے مجھے کہا، ہم ضیافت پر دریا کے پار جا رہے ہیں، تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔
ضیافت کون کر رہا ہے؟
چارلی کمپنی۔

یہ کمپنی دریا کے عین درمیان میں زیرو لائن پر تھی۔ ہم سبھی وہاں گئے تو وہاں واقعی ضیافت کا سماں تھا۔ پلاؤ گوشت، گوشت کا سالن، بھنا گوشت، سیخ کباب، چپل کباب اور تکے تھے۔ پلاؤ میں چاول کم اور گوشت زیادہ تھا۔ کھانے کے فارغ ہوئے تو میں نے ضیاء سے پوچھا، یہ اتنا گوشت کہاں سے آ گیا، جوانوں کو تو بڑی مشکل سے ہفتے میں ایک بار گوشت ملتا ہے؟

ڈاکٹر! دو بیل سرحد کی دوسری طرف سے ادھر آ گئے تھے۔ ایک بیل ہم نے واپس کر دیا اور دوسرا ذبح کر لیا۔

لگتا ہے، یہ بیل ’پلاں والا‘ کا پلاپلایا تھا (پلاں والا، سرحد کے اس پار ایک گاؤں تھا) ۔ آپ کے باورچی بڑے ماہر اور باصلاحیت لگتے ہیں۔ اگر ان سے کہا جاتا تو وہ بیل کے گوشت سے، مٹن قورمہ، چکن تکہ، چکن کڑاہی اور چکن کباب تک بنا لیتے۔

میں کبھی کبھی کسی مریض کے ساتھ اپنی رجمنٹ، جو بیس میل پیچھے بھاگووال میں تھی، میں چلا جایا کرتا تھا۔ اس طرح اپنے ڈاکٹر ساتھیوں سے ایک آدھ گھنٹے کے لئے ہی سہی، ملاقات ہو جاتی تھی۔ جہاں میں تعینات تھا وہاں آگے پیچھے میلوں تک کوئی ہسپتال یا ڈسپنسری نہیں تھی، لہذا عام شہریوں کو بھی یہ سہولت دی گئی تھی کہ وہ میرے اے ڈی ایس میں علاج کی غرض سے آسکتے تھے۔ کبھی کبھی ان کی تعداد چالیس پچاس تک پہنچ جاتی تھی۔ ایک روز دن کے تین بجے ایک مریض آیا جس کا ایک ہاتھ اس کے اونٹ نے بری طرح چبا ڈالا تھا۔

ایک تو میرے پاس اس طرح کے مریض کے آپریشن کے لئے مناسب سامان نہیں تھا، اوپر سے یہ کیس بھی خاصا پیچیدہ تھا اور میری اس وقت کی اہلیت سے متجاوز تھا۔ میں نے اس کی مرہم پٹی تو کر دی لیکن مجھے اس کے ہاتھ کے ضائع ہو جانے کی تشویش تھی۔ لہذا، میں اسے ایمبولنس میں ڈال کر ایم ڈی ایس لے گیا۔ میں چاہتا تھا کہ ابتدائی سرجری سے اس کے خون کا اخراج مناسب حد تک روک دیا جائے اور اس کے بعد اسے کسی ہسپتال میں منتقل کر دیا جائے۔ کماندار صاحب کو بتایا گیا۔ وہ مریض کی دیہاتی وضع قطع دیکھتے ہی مجھ پر برس پڑے۔ آپ اسے یہاں کیوں لے آئے ہیں؟

سر! اس کا ہاتھ ضائع ہو جانے کا خطرہ ہے۔ میں چاہتا تھا کہ کم از کم اس کا خون تو بہنے سے روک دیا جائے۔

کیا یہ تمہاری ذمہ داری ہے؟
مجھے تو یہی بتایا گیا تھا کہ یہاں عام شہریوں کو علاج کا استحقاق ہے۔
وہ صرف تمہارے اے ڈی ایس کی حد تک ہے۔
یہ جو تم ہر دوسرے تیسرے ہفتے ایمبولنس لے کر یہاں آ جاتے ہو، یہ سلسلہ بند کرو۔
سر! میں صرف مریض لے کر یہاں آتا ہوں۔
مریض تمہارے بغیر بھی آسکتے ہیں۔ آئندہ تم میری اجازت کے بغیر اے ڈی ایس نہیں چھوڑو گے۔

انہوں نے مریض کو انسپیکشن روم سے باہر نکال کے ٹانڈہ سے جلال پور جٹاں جانے والی سڑک کی طرف اشارہ کیا اور کہا، وہاں سے بس پر بیٹھو اور گجرات کے ہسپتال میں چلے جاؤ۔

مریض کے ہاتھ سے ابھی تک خون رس رہا تھا۔ وہ چلا تو گیا لیکن مڑ مڑ کے میری طرف دیکھتا تھا کہ میں نے اس کے ساتھ یہ کس طرح کی بھلائی کی ہے۔ وہ اب اپنے گھر سے بیس میل دور تھا۔ ادھر سے چھمب کی طرف آمد و رفت کے لئے کوئی پبلک ٹرانسپورٹ بھی نہیں تھی۔ پتہ نہیں اس کی جیب میں پیسے بھی تھے یا نہیں۔ میں بہت دل گرفتہ ہوا، آخر انسانی ہمدردی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ میں ایمبولنس لے کر واپس چلا گیا۔ مجھے معلوم نہیں، اس کے ساتھ کیا ہوا۔ وہ اس کے بعد کبھی میرے اے ڈی ایس میں پٹی کروانے بھی نہیں آیا۔

اس واقعے کو ہفتہ دس دن بھی نہیں گزرے تھے کہ سلطان الغافلین، اے ڈی ایس کے انسپیکشن کو آ پہنچے۔ میری جھونپڑی میں بان کی منجی اور ایک لوٹے کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ البتہ اے ڈی ایس جو ایک اسی پونڈ ر خیمے کے زیر سایہ تھا، میں لوہے کی ایک چارپائی تھی، ایک میز تھا، جس کی ٹانگیں کبھی سلامت رہی ہوں گی۔ اب ہم نے اس پر ایک لمبی سی چادر ڈال کے اور تین اطراف سے زمین تک لٹکا کے اس کی ٹانگوں کو دیے گئے اینٹوں کے سہارے کی ستر پوشی کر رکھی تھی۔ ایک کرسی تھی، جس کی ٹانگیں رعشہ زدہ

تھیں۔ اس پر بیٹھنے سے زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوتے تھے۔ ایک بکس پر چادر ڈال کے اس پر اے پی ایس کی بے شمار گولیاں سجا رکھی تھیں۔ یہ گولیاں فوج میں امرت دھارا سمجھی جاتی تھیں۔ اسی بکس پر کچھ پٹیاں، ٹنکچر آیو ڈین اور وہ پیلی دوائی تھی جسے زخموں پر لگایا جاتا ہے۔ خیمے کے اندر بس یہی کل کائنات تھی۔ خیمے کے باہر ایمبولنس کے ساتھ ایک جیپ کھڑی تھی۔ یہ جیپ، اس جیپ کی جڑواں بہن تھی جو مجھے بھاگووال سے چھمب کے ویرانے میں چھوڑ گئی تھی۔

اس کا چال چلن بھی کوئی ایسا قابل اعتبار نہیں تھا۔ ورکشاپ میں بار بار جانے کے باوجود، اس کے چال چلن میں کوئی سدھار پیدا نہیں ہوا تھا۔ ان گاڑیوں کے پاس دو ڈرائیور، ایک نرسنگ حوالدار، دو نرسنگ سپاہی اور پانچ عام سپاہی تھے، جن میں ایک میرا بیٹ مین، شان محمد بھی تھا۔ انسپیکشن پانچ منٹ میں مکمل ہو گئی۔ کماندار صاحب واپس جانے لگے تو فرمایا، تم ایک ماہ تک ویک اینڈ پر چھٹی نہیں جا سکتے۔ یہ کچھ عجیب سی بات تھی۔ میں نے تو ان سے درخواست کی تھی کہ میرے ویک اینڈ کی چھٹی ایک ہفتہ آگے پیچھے کر کے کرنل ساگر کے ویک اینڈ سے منسلک کر دی جائے تاکہ میں بسوں پر دھکے کھانے کی بجائے ان کے ساتھ منگلا چلا جایا کروں۔ کرنل ڈوگر اپنی جیپ پر یہاں سے منگلا جاتے آتے تھے۔

23 ڈویژن کے افسروں کو جو سرحد پر تعینات تھے، ڈیو کمانڈر (Div Commander) نے ہر دو ہفتے بعد دو دن کی چھٹی کی سہولت دے رکھی تھی۔ رجمنٹ کمانڈر اس چھٹی کو بغیر کسی معقول وجہ کے روکنے کے مجاز نہیں تھے۔ ہمارے کماندار صاحب یہ کر گزرے تھے۔ انہیں علم نہیں تھا کہ آگے چل کر کیا ہوگا۔ اس پر مستزاد، دو ہفتے بعد نائب کماندار نے کسی وجہ سے مجھے ٹیلیفون کیا تو میں اپنے ٹھکانے پر نہیں تھا، کہیں آگے گیا ہوا تھا۔ واپس آیا، انہیں ٹیلیفون کیا تو وہ مجھ پر برس پڑے۔ تم کہاں چلے گئے تھے، ہمیں بتائے بغیر کیوں گئے؟

میں کسی ذاتی کام پر نہیں گیا تھا کہ آپ کو بتا کر جاتا۔ اس جنگل بیلے میں میرا ذاتی کام کوئی ہو بھی نہیں سکتا؟ آپ مجھے ایک ہی بار بتا کیوں نہیں بتا دیتے کہ مجھے کون کون سے کام آپ لوگوں سے اجازت لئے بغیر نہیں کرنے چاہئیں۔ ادھر سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ دو گھنٹے بعد ایک سپاہی، ایک کاغذ میرے ہاتھ میں تھما گیا۔ یہ ہمارے کماندار کی طرف سے ٹیلیکس تھی۔ اس پر لکھا تھا ’تمہیں مطلع کیا جاتا ہے کہ آئندہ تم، اے ڈی ایس کی حدود سے باہر، مجھ سے اجازت لئے بغیر نہیں جا سکتے‘ ۔ قید تنہائی کا یہ پروانہ، اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا۔ ان دو اشخاص کا رویہ میرے لئے ناقابل برداشت ہو چکا تھا۔ اگر یہ پڑھے لکھے با شعور ہوتے تو شاید میں ان سے کوئی منطقی بات چیت کر لیتا، لیکن یہ ایم بی بی ایس کرنے کے باوجود ان پڑھ رہ گئے تھے۔

مجھے احساس تھا کہ مجھے فوج میں زور زبردستی بھرتی کیا گیا ہے۔ فوج نے اپنی فوری ضرورت کے تحت، حکومت پاکستان سے 1971ء میں ایک آرڈیننس جاری کروایا تھا کہ پاکستان کا ہر ڈاکٹر ایم بی بی ایس کرنے کے بعد دو سال فوج میں نوکری کرے گا۔ انہیں ایک سال فیلڈ میں رکھا جائے گا اور ایک سال ہسپتال میں۔ میری پاکستانی شہریت، کشمیری ہونے وجہ سے ذرا مشکوک سی تھی اور اس پر فوج نے مجھے پونے دو سال سے ایک فیلڈ یونٹ میں دھانس رکھا تھا۔ آٹھ ماہ قبل، ایک سال کی سروس مکمل ہونے پر، میری تحریری یاد دہانی کے باوجود مجھے کسی سی ایم ایچ میں نہیں بھیجا گیا تھا۔ ایسے میں، ان بوالعجموں کا گنواروں جیسا سلوک میرے لئے سوہان روح بن گیا۔ میں اپنی یونٹ میں جا نہیں سکتا تھا کہ وہاں اپنے ہم پیشہ دوستوں سے کوئی مشورہ کرتا۔ اپنے ارد گرد انفنٹری کے افسروں سے بات ہوئی تو انہوں نے کچھ ایسے ٹوٹکے بتائے، جن کا منتہائے نظر ان دو اشخاص کو زچ کرنا تھا۔ مجھے اس سے دل چسپی نہیں تھی۔ میجر آفریدی نے مشورہ دیا، اپنے کماندار سے بریگیڈ کمانڈر کا انٹرویو مانگو اور انہیں اپنے سارے مسائل سے آگاہ کرو۔ دوسرے دن میں نے تحریری طور پر بریگیڈ کمانڈر کا انٹرویو مانگ لیا۔ میرا مراسلہ ملنے پر کماندار صاحب کا ٹیلیفون آیا اور پوچھا کہ تم بریگیڈ کمانڈر سے کیا بات کرنا چاہتے ہو؟

میں نے صاف صاف بتایا کہ جناب آپ کے بارے میں ہی بات کر نا چاہتا ہوں۔ آپ براہ کرم، اگلے دو تین دن میں اس انٹرویو کا بندوبست کردیں۔ وہ خاموش ہو گئے۔ دس دن گزر گئے کچھ بھی نہ ہوا۔ بارہویں دن وہ خود میرے اے ڈی ایس میں تشریف لائے۔ بظاہر وہ کسی اور کام کے لئے آئے تھے۔ میں بہت آزردہ تھا جب کہ ادھر، ان کی ذات سے حسن اخلاق کے سوتے پھوٹے پڑتے تھے۔ کہنے لگے اتنے دن ہو گئے ہیں، آپ یونٹ میں آئے ہی نہیں؟
جی، وہ آپ نے خود ہی منع کیا تھا۔ اب یونٹ میں آنے کے لئے میں آپ سے اجازت طلب کرنے سے تو رہا؟
ارے بھئی یہ تو سرسری سی باتیں ہوتی ہیں۔ ان پر اتنا بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔

پریشان کن بات پر پریشان ہونا بنتا ہے۔ آپ نے میری ویک اینڈ کے چھٹی بند کر رکھی ہے اور اس پر قید تنہائی کا یہ پروانہ، میں نے ان کی ٹیلیکس ان کے سامنے رکھ دی۔

دیکھو کیپٹن جمیل مجھے جو کچھ بتایا گیا، میں اسے ہی صحیح سمجھا۔ میں نے وہی کیا جو ایک کمانڈنگ افسر کو کرنا چاہیے تھا۔ مجھے علم نہیں کہ میرے آنے سے پہلے کیا ہوا تھا؟

آپ کے آنے سے پہلے میں ایمبولنس پر بیٹھ کر دریا عبور نہیں کر سکا تھا، اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ میرے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے آپ کو مجھ سے براہ راست بات کرنی چاہیے تھی۔

چلو چھوڑو جو ہو گیا، سو ہو گیا۔ اب تم ویک اینڈ پر گھر جاؤ، جب جی چاہے اپنی یونٹ میں آ جایا کرو۔ ٹیلیکس کو بھول جاؤ۔

میرا غصہ قدرے کم ہوا لیکن تلخی برقرار تھی۔ کرنل صاحب کے چہرے پر بے بسی کے آثار کو دیکھ کر ’مجھے ان پر بڑا ترس آیا۔ انہوں نے کہا تو نہیں، میں نے دوسرے دن خود ہی بریگیڈ کمانڈر سے انٹرویو کی درخواست واپس لے لی۔

جاری ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments