پنجاب: تعلیمی اداروں میں یکساں نصاب کا کہیں خیرمقدم تو کہیں تحفظات


پاکستان کے صوبے پنجاب میں یکساں نصابِ تعلیم نافذ کر دیا گیا ہے جس کے بعد صوبے کے تمام تعلیمی اداروں اور دینی مدارس میں ایک جیسا نصاب پڑھایا جائے گا۔

پہلے مرحلے میں یکساں نصابِ تعلیم کا نفاذ پرائمری سطح پر کیا گیا ہے جس کے تحت پنجاب بھر میں تمام نجی اور سرکاری اسکولوں اور دینی درس گاہوں میں پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بُک بورڈ کی کتب پڑھائی جائیں گی۔

صوبائی حکومت کے یکساں تعلیمی نصاب کے فیصلے کا بعض حلقوں نے خیر مقدم کیا ہے جب کہ بعض کو اس پر اب بھی تحفظات ہیں۔

پنجاب کے وزیرِ تعلیم ڈاکٹر مراد راس نے 30 جولائی کو ٹوئٹر پر محکمۂ تعلیم پنجاب کا ایک نوٹی فکیشن شیئر کیا تھا۔ جس کے مطابق تعلیم سال 2022-2021 کے لیے پہلی سے پانچویں جماعت تک پنجاب کے تمام سرکاری و نجی اسکولوں اور دینی مدارس میں یکساں تعلیمی نصاب لاگو ہو گا۔

واضح رہے کہ اس بار عالمی وبا کرونا کے باعث پنجاب بھر میں نیا تعلیمی سال اپریل کے بجائے اگست سے شروع کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر مراد راس نے ٹوئٹر پر جاری ایک پیغام میں کہا ہے کہ یکساں نصابِ تعلیم وزیرِ اعظم کا ایک خواب تھا جو اب پورا ہو چکا ہے۔ اُنہوں نے نجی اسکولوں پر بھی زور دیا ہے کہ وہ اس نصاب سے فائدہ اٹھائیں۔

یاد رہے اٹھارویں ترمیم کے بعد نصاب بنانے کا اختیار صوبائی حکومتوں کے پاس ہے۔

وزیرِ اعظم عمران خان یکساں نظامِ تعلیم کے نفاذ پر زور دیتے رہے ہیں جب کہ ان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے اقتدار سنبھالنے سے قبل بھی اپنی انتخابی مہم میں تعلیمی نظام کو بہتر کرنے اور یکساں نظامِ تعلیم لاگو کرنے کا منشور پیش کیا تھا۔

یکساں نصابِ تعلیم

حکومتِ پنجاب کے مطابق دوسرے مرحلے میں یکساں نصاب ششم سے ہشتم جماعت تک تعلیمی سال برائے 2023-2022 میں شروع کیا جائے گا۔ اسی طرح تیسرے مرحلے میں جماعت نہم سے بارہویں جماعت تک یکساں نصاب تعلیمی سال برائے 2024-2023 سے شروع ہوگا۔

ترجمان کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ پنجاب رانا طارق محمود کے مطابق نئے یکساں نصاب کے تحت انگریزی، جنرل سائنس، ریاضی، معاشرتی علوم اور جنرل نالج کے مضامین لازمی ہوں گے۔

ترجمان کے مطابق غیر مسلم طلبہ اسلامیات کے بجائے مذہبی تعلیمات کا مضمون پڑھ سکیں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے رانا طارق محمود نے بتایا کہ یکساں نصاب کے تحت پریپ سے جماعت پنجم تک 30 ماڈل کتابیں پڑھائی جائیں گی۔

ان کے بقول نئے یکساں نصاب کے تحت اردو میں 18 اور انگریزی میں 12 مضامین پڑھائے جائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پانچویں جماعت تک تمام تعلیمی اداروں میں ریاضی انگریزی میں پڑھائی جائے گی۔

ترجمان پی سی ٹی بی کے مطابق اسی طرح اُردو، مطالعہ پاکستان، اسلامیات، اور معلوماتِ عامہ (جنرل سائنس، معاشرتی علوم اور جرنل نالج) کی تمام کتابیں اُردو میں پڑھائی جائیں گی۔

مدارس اور نجی اسکول مالکان کی رائے

لاہور کے جامعہ نعیمیہ کے مہتممِ اعلٰی ڈاکٹر راغب نعیمی سمجھتے ہیں کہ یکساں نصابِ تعلیم ایک اچھا اقدام ہے جس سے یکسانیت پیدا ہو گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر راغب نعیمی کا کہنا تھا کہ وقت کے ساتھ اس نصاب کو نئی تحقیق کے مطابق بہتر کرنا بھی ضروری ہو گا۔

ان کے بقول مدارس کو یکساں نصابِ تعلیم سے کوئی مسئلہ نہیں ہے البتہ اشرافیہ اس سے متاثر ہو سکتی ہے۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس نصاب سے اُن کی الگ شناخت ختم ہو جائے گی۔

نجی اسکولوں کی نمائندہ سرونگ اسکول ایسوسی ایشن کے صدر رضا الرحمان سمجھتے ہیں کہ یکساں نصابِ تعلیم ایک اچھا فیصلہ ہے جس پر ان کی تنظیم کو کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن اسے رائج کرنے کے طریقۂ کار پر نجی اسکولوں کی تنظیم کو اعتراض ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے رضا الرحمان نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے تاحال کسی بھی نجی پبلشر کو کتاب چھاپنے سے متعلق کوئی این او سی جاری نہیں کیا ہے۔

ان کے بقول حکومت نے اپنی کتابیں بنا دی ہیں اور تمام اسکولوں کو پابند کر دیا ہے کہ وہ پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابیں پڑھائیں۔

جامعہ اوکاڑہ کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر زکریا ذاکر سمجھتے ہیں کہ اِس طرح کے فیصلے اچھے ہیں لیکن یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ یکساں نصابِ تعلیم سے کیا فوائد حاصل ہوں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر یکساں نصاب کا مقصد صرف یہ ہے کہ دو طبقوں میں تعلیمی فرق ختم، قومی یکجہتی زیادہ یا معاشرتی تفریق کم ہو جائے گی، تو وہ شاید اس فیصلے سے ممکن نہیں ہو گا۔

پروفیسر زکریا نے کہا کہ اگر ایک اشرافیہ کا اسکول بھی وہی نصاب پڑھا رہا ہے جو ایک گاؤں کا نسبتاً کم سہولیات کے ساتھ والا اسکول پڑھا رہا ہے تو ایسی صورتِ حال میں ایک نصاب پڑھانے سے فرق نہیں پڑے گا۔

یکساں نصاب کا معیار

ڈاکٹر راغب نعیمی نے مدارس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مدارس اس صورتِ حال میں احتجاج کریں گے، ایسا نہیں ہے کیوں کہ مدرسہ شروع ہی جماعت پنجم سے ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی بھی مدرسے میں تعلیم کا آغاز حفظ سے ہوتا ہے۔ قرآن پاک زبانی یاد کرنے کے لیے صوبۂ پنجاب کے بیشتر مدارس میں طالب علم کا پرائمری پاس ہونا لازمی ہوتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبے بھر میں کچھ ایسے مدارس بھی موجود ہیں جو چھوٹے بچوں کو براہِ راست قرآن پاک زبانی یاد کرانا شروع کرا دیتے ہیں۔ ایسے مدارس میں اوّل، دوم یا سوم جماعت پڑھانے کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ایسی صورتِ حال میں حکومت اور مدارس کی انتظامیہ کو حل تلاش کرنا ہو گا کہ وہ قرآن پاک حفظ کرانے سے قبل یہ نصاب پڑھائیں گے یا نہیں۔

نجی اسکولوں کی تنظیم کے نمائندے کے مطابق پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابیں نجی اسکولوں کے معیار پر پورا نہیں اترتیں۔

انہوں نے بتایا کہ عمومی طور پر سات برس کا بچہ پہلی جماعت میں آتا ہے اور بورڈ کی جانب سے فراہم کردہ پہلی جماعت کی ریاضی کی کتاب کے پہلے 40 صفوں پر ایک سے سو تک گنتی سکھائی گئی ہے۔

ان کے مطابق جب کہ نجی اسکولوں میں بچے کو چار سے ساڑھے چار برس کی عمر میں گنتی مکمل کرا دی جاتی ہے۔ جو بچہ ایک کام چار برس کی عمر میں مکمل کر چکا ہے وہی کام اسے سات برس کی عمر میں دوبارہ شروع کرایا جا رہا ہے۔

رضاالرحمان کے مطابق حکومت نے اسکولوں کو جو کتابیں پڑھانے کا پابند بنایا ہے اس پر بچوں کے والدین تحفطات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس میں یہی سب سے بڑی خامی ہے جو اس تجربے کو ناکام کر دے گی۔

انہوں نے بتایا کہ یکساں نصابِ تعلیم کے تحت سرکاری اسکولوں کے بچوں کو بورڈ کی کتابیں مفت ملیں گیں جب کہ نجی اسکولوں کے طالب علموں کو یہی کتابیں خریدنا پڑیں گی۔

یکساں نصاب اور اساتذہ کی تربیت

رضاالرحمٰن کی بقول یکساں نصابِ تعلیم کے سلسلے میں محکمۂ تعلیم پنجاب نے اساتذہ کو جو تربیت دی ہے وہ نا کافی ہے۔ اس سلسلے میں اساتذہ کی تربیت ایک طویل کام ہے جو کئی ماہ کی مشق کے بعد اس نصاب کو پڑھا سکیں گے۔

انہوں نے دعوٰی کیا کہ محکمۂ تعلیم نے اساتذہ کو چھ روز میں یہ سکھایا ہے کہ کس طرح یکساں نصاب پڑھایا جائے گا۔ ان کے بقول چھ دنوں میں اساتذہ خود ٹھیک سے نہیں سیکھ سکے تو وہ بچوں کو کیا سکھائیں گے۔

مدارس کو سند کون جاری کرے گا؟

یکساں نصاب کے دوسرے مرحلے یعنی جماعت ششم سے جماعت ہشتم سے متعلق ڈاکٹر راغب نعیمی نے کہا کہ مدارس کی تعلیم میں کسی بھی طالب علم کو اس وقت تک داخلہ نہیں دیا جاتا جب تک اس نے کسی بھی اسکول سے ہشتم جماعت پاس نہ کر رکھی ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ جماعت دہم کے یکساں نصاب سے متعلق حکومت اور مدارس انتظامیہ کے درمیان تین نکات پر مذاکرات ہو رہے ہیں۔ پہلا، کون سے مضامین مدارس میں پڑھائے جائیں۔ دوسرا ان کا امتحان کون لے گا اور تیسرا یہ کہ چار مضامین انگریزی، حساب، اُردو اور مطالعہ پاکستان سے متعلق پاس ہونے کا سرٹیفکیٹ حکومت یا مدارس کی انتظامیہ جاری کرے گی۔

انہوں نے بتایا کہ اس بارے میں تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔

کیا یکساں نصاب معاشرتی تفریق ختم کر دے گا؟

یونیورسٹی آف اوکاڑہ کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر زکریا ذاکر کے مطابق حکومت کو تعلیمی ڈھانچے کو بہتر کرنا چاہیے۔ یکساں نصاب ایک اچھی کوشش ہے جس کے ساتھ تعلیمی ڈھانچے میں برابری لانی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ امراء کے اسکولوں اور معاشرے کے غریب ترین طبقے کے اسکولوں میں فرق کو کم کرے۔

پروفیسر ڈاکٹر زکریا کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر حکومت یہ چاہتی ہے کہ مدارس کے طالب علموں کو ریاضی اور انگریزی مضامین پڑھانے سے وہ مرکزی دھارے میں آ جائیں گے تو شاید ایسا نہیں ہو سکے گا کیوں کہ ایسے تعلیمی اداروں کی ترجیحات مختلف ہیں۔

ان کے بقول اگر زیادہ افراد سطح غربت سے نیچے چلے جائیں گے تو شاید یکساں نصاب کے فائدے حاصل نہیں ہو سکیں گے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments