جسٹن ٹروڈو کی آپ بیتی


کینیڈا کے وزیراعظم عزت مآب جسٹن ٹروڈو کی آپ بیتی Common Ground انگریزی میں پچھلے سال پڑھی۔ حال ہی اس کا اردو ترجمہ بھی ملا وہ بھی پڑھا اور دہرا لطف اٹھایا۔ یہ آپ بیتی کئی لحاظ سے ایک کامیاب اور کرشماتی شخصیت کی اب تک کی داستان حیات ہے۔ اس میں بہت سارے سبق ہیں۔ کتاب پڑھتے ہوئے ذہن لاشعوری طور پر وطن عزیز کی طرز سیاست اور طرز زندگی سے موازنہ کرتا جاتا ہے کہ ہم سیاسی اور اخلاقی میدان میں ان کے مقابل کہاں کھڑے ہیں۔

جسٹن ٹروڈو دنیاوی لحاظ سے خوش نصیب شخصیت ہیں کہ جب وہ پیدا ہوئے ان کے والد پیئر ٹروڈو کینیڈا کے وزیر اعظم تھے۔ پیئر ٹروڈو ذاتی حیثیت میں بھی ایک امیر اور علمی لحاظ سے ایک قابل شخصیت تھے۔ جسٹن اپنے والد سے بہت متاثر ہیں۔ کتاب میں پیئر ٹروڈو قاعدے قوانین کے پابند، ایک اصول پرست انسان نظر آتے ہیں لیکن کہیں کہیں ان کی زندگی کی امیرانہ ( ہلکی سی متکبرانہ) جھلک بھی ملتی ہے۔ اس کے مقابلے پر جسٹن کا اپنا رویہ بہت دوستانہ اور عوام میں گھلنے ملنے والے فرد کا رہا ہے۔ (کچھ پاکستانی دوست اس حوالے سے ہلکا سا طنز بھی کرتے ہیں کہ کینیڈا میں مقیم ہر پاکستانی نے جسٹن سے تصویر بنوا رکھی ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے اور کتاب میں بھی جسٹن ٹروڈو اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ لبرل پارٹی کی گرتی ساکھ کو اٹھانے میں جسٹن کے عوامی رابطے نے بہت اہم کردار ادا کیا۔)

2011 کے انتخابات میں کینیڈا کی دو بڑی پارٹیوں میں سے ایک لبرل پارٹی صرف 34 نشستوں تک محدود ہو چکی تھی اور اس بات پر غور کیا جا رہا تھا کہ اسے NDP میں ضم کر دیا جائے لیکن جسٹن نے پارٹی کی باگ ڈور سنبھالتے ہی عوامی رابطوں کا آغاز کیا اور لبرل پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی اور ان کی پارٹی نے 184 نشستیں حاصل کیں۔ اس جیت میں دوسرے عوامل کے ساتھ جسٹن ٹروڈو کی ذاتی محنت، عوامی رابطہ، سوشل میڈیا کا استعمال اور سب سے بڑھ کر اس بات کی خود احتسابی  (self assessment)شامل تھی کہ لبرل پارٹی کہاں کہاں غلطی کر رہی تھی۔ اس کا ذکر کتاب میں شامل ہے۔

جسٹن ٹروڈو کی والدہ ایک ذہنی بیماری کی شکار رہی ہیں۔ جسٹن نے اس بات کو بھی نہیں چھپایا بلکہ مہذب انداز میں ایک بیماری کے طور پر کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے اسی طرح اپنے والدین کی علیحدگی کا بھی متوازن تجزیہ کیا ہے۔ دو مختلف ذوق رکھنے والوں کے درمیان بیماری یا روزمرہ زندگی کی مصروفیات نے جب ایک دوسرے کو مزید برداشت کی طاقت ختم کر دی تو وہ مہذب انداز میں علیحدہ ہوگئے۔ لیکن بچوں کے لئے ہمیشہ ماں باپ رہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ “ہماری ماں نے ہمارے باپ کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں کہا “ہم بہ حیثیت شادی شدہ جوڑا ساتھ نہیں رہ سکے لیکن بہ حیثیت والدین ہم نے بطریق احسن ذمہ داری نبھائی۔ ”

خاندان یا باپ کا نام جو وجہ تفاخر ہو سکتا تھا اسے بھی اوائل جوانی سے ہی جسٹن نے چھپانے کی کوشش کی اور مختلف تقریبات میں دانستہ اپنا نام صرف جسٹن یا ننھیال والا نام سینکلئیر وغیرہ استعمال کرتے رہے۔ ایک دفعہ جب ایک استاد نے جسٹن کو ڈانٹا کہ تم محنت نہیں کر رہے اس لئے کہ تم جانتے ہو تم کس کے (وزیراعظم) کے بیٹے ہو تو یہ خاتون استاد سے الجھ پڑھے کہ کیوں اس نےخاندان کا نام کا فائدہ اٹھانے کا الزام لگایا ہے۔ یہ بہت قابل غور ہے کہ “والد صاحب نے ہمیشہ یہ ذہن نشین کرانے کی کوشش کی کہ ٹروڈو کا نام بیچنے کے لئے نہیں بلکہ ذمہ داری کا متقاضی ہے۔۔۔” بعد میں استاد کی بات پر غور کر کے اس حقیقت کا ادراک کیا “چاہے میں خاندان کے نام کا فائدہ نہ بھی اٹھا رہا ہوں پھر بھی یہ بات فطری ہے کہ لوگ ایسا سمجھیں۔” تعلیم کے دوران ایک مضمون میں فیل ہو جانے اور اس پر والد کے تعلیمی ریکارڈ کا تجزیہ اور ان کا ردعمل بھی کئی نفسیاتی پہلو سامنے لے کر آتاہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں “میرا خاندانی نام کام کے درمیان نہیں آیا۔ ”

یونیورسٹی کی ابتدائی تعلیم کے بعد جسٹن مغربی کینیڈا کے شہر وینکوور میں آباد ہوئے۔ جہاں رہائش کے لئے کسی دوست کے گھر کی ایک بالاخانہ یا دو چھتی (loft) میسر آئی اور گزر اوقات کے لئے دو دو نوکریاں بھی کرنی پڑیں۔ ان میں سے ایک نوکری ایک نائٹ کلب کے دربان کی بھی تھی۔ جسٹن نےاپنے دو بھائیوں ساشا اور مشیل کے ساتھ گذرے وقت، پیار اور لڑائیوں کو بھی یاد کیا ہے پھر ایک حادثے میں ایک بھائی کی موت جو کینیڈا کی ایک جھیل کی تہہ میں ابدی نیند سو رہا ہے، کا دلگداز تذکرہ بھی موجود ہے۔

یونیورسٹی سے اعلی تعلیم کے بعد بطور استاد اپنی پیشہ وارانہ زندگی شروع کر کے جسٹن اپنی زندگی سے مطمئن تھے اور سیاست میں آنے کا کوئی خیال بھی نہیں تھا۔ والد پیئر ٹروڈو نے بھی ان کے سکول میں ان سے ملاقات کی اور وہ بیٹے کے منتخب کردہ پیشے سے مطمئن تھے۔ انہوں نے ہرگز ایسی کسی خواہش کا اظہار نہ کیا کہ میرے بعد یہ پارٹی تمہیں ہی سنبھالنی ہے۔ لیکن پھر والد کی وفات کے بعد باقاعدہ سیاسی عمل میں حصہ لے کر سیاست میں قدم رکھا۔

ملک کسی بھی شخصیت یا پارٹی سے بالاتر ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں کی طرح کینیڈا میں بھی ایک جملہ کہا جاتا تھا کہ “لبرل جماعت نے کینیڈا کو بنایا تھا۔ ” اس کے برعکس جسٹن ٹروڈو اپنی قیادت کی مہم کے دوران کہا کرتے تھے کہ “لبرل جماعت نے کینیڈا کو نہیں بنایا، یہ کینیڈا ہے جس نے لبرل جماعت بنائی۔” لبرل پارٹی کے سیاسی حریف اور این ڈی پی کے بہت مقبول راہنما جیک لیٹن کینسر جیسے موذی مرض سے وفات پا گئے۔ لکھتے ہیں “یہ ناممکن تھا کہ جیک کو پسند نہ کیا جائے۔ گو ہم سیاسی حریف تھے لیکن اس نے میرے اپنے صوبے کیوبیک میں جو کارنامہ انجام دیا اس کے لئے میں جیک کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔۔ کینیڈا کی عوامی زندگی اب بھی جیک لیٹن کی کمی محسوس کرتی ہے۔” ایک جگہ لکھتے ہیں “میرا کبھی یہ طریقہ نہیں رہا کہ ذاتیات پر اتروں اور نیچی اور گندی سیاست کو اپنی جدوجہد میں جگہ دوں۔” سیاست محض اقتدار کا کھیل نہیں بلکہ آئندہ نسلوں کو بہتر ملک دینے کا نام ہے، لکھتے ہیں “ ۔ ۔ ۔ وہ جس دنیا میں بڑے ہوں گے اس کی خدمت پرتوجہ مرکوز رکھتے ہوئے کیا میں ان کے لئے واقعتاً ایک بہتر مستقبل تعمیر کررہا ہوں یا محض سیاست، گھٹیا پوائنٹ سکور کرنے اور جیتنے کی کوشش کررہا ہوں؟”

ہمارے نام نہاد سیاسی راہنما یا ہم خود اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر یہ بات کہہ سکتے ہیں جو جسٹن ٹروڈو باآسانی کہہ گئے کہ “پارلیمان اچھے لوگوں سے بھری پڑی ہے، ان کی توجہ کینیڈین عام کی بہتر خدمت کرنے، مشکل معاملات حل کرنے اور ہمارے ملک کی ترقی کے لئے بہتر راستے تلاش کرنے کی کوششوں پر مذکور ہے۔ ” پھر اس بات کا بھی اپنے سیاستدانوں سے موازنہ کیجئے کہ پیئر ٹروڈو وزیراعظم تھے اور ان کے سیاسی حریف جو کلارک نے ان کا ناک میں دم کر رکھا تھا۔ ایک دفعہ کھانا کھاتے ہوئے بچے جسٹن کو جو کلارک نظر آئے تو انہوں میں سکول میں سنا ایک بے ہودہ لطیفہ سنا دیا۔ ”والد صاحب کو میرا لطیفہ سنانا نہایت ناگوار گذرا اور انہوں نے مجھے ایک سخت لیکچر دیا کہ اپنے مخالف کے موقف کے خلاف بولنے کا کیا طریق کار ہے اور یہ کہ مجھے کسی کی ذات پر کبھی کیچڑ نہیں اچھالنا چاہئیے۔ ”

کتاب میں کینیڈین سیاست، فرانسیسی زبان بولنے والے صوبے کیوبیک کی علیحدگی کی تحریک (جو ایک زمانے میں پرتشدد بھی ہو گئی تھی) پھر علیحدگی کا ریفرنڈم، لبرل پارٹی کی گذشتہ دہائی اور موجودہ دہائی، وفاق اور صوبوں کا تعلق، قدیم کینیڈین باشندوں پر ہونے والی زیادتی سمیت کئی پہلو سامنے آتے ہیں۔ کینیڈا کی خوش قسمتی ہے کہ جسٹن ٹروڈو شروع سے ہی قدیم باشندوں کے حامی رہے ہیں اسی طرح کینیڈا میں آباد مختلف النوع اقوام اور مذاہب کے احترام پر یقین رکھنے والے ہیں۔ اس کا حالیہ مظاہرہ پاکستان نژاد مسلمان خاندان کی حال ہی میں ہونے والی دردناک موت پر بھی سامنے آیا۔

کتاب پیراماونٹ نے شائع کی ہے اور اس کا اردو ترجمہ سانجھی زمین کے نام سے ابراہیم سعد اور حمیرا اشرف صاحبہ نے کیا ہے۔ کوئی بھی ترجمہ اصل کا حق تو ادا نہیں کرسکتا۔ ترجمہ بہت اچھا اور رواں ہے پھر بھی کچھ بنیادی غلطیاں ہیں جو کینیڈین معاشرت اور ثقافت کو جاننے والے شخص پر گراں گذرتی ہیں ہوسکتا ہے عام قاری ان کی طرف متوجہ بھی نہ ہو۔ میرے خیال میں کتاب کی معمولی سی اور پروف ریڈنگ ترجمے کو اور بہتر بنا سکتی تھی۔ اسی طرح کتاب کے ٹائٹل Common Ground کا ترجمہ “سانجھی زمین” کی بجائے “سانجھی اقدار” ہونا چاہیئے تھا کیونکہ یہی اس کتاب میں جسٹن کے خیالات بھی ہیں.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments