اردو شاعری کا ارتقا


تھا عرش پہ اک روز دماغ اردو
پامال خزاں آج ہے باغ اردو
غفلت تو ذرا قوم کی دیکھو کاظم
وہ سوتی ہے بجھتا ہے چراغ اردو

اردو زبان کے پہلے شاعر مسعود سعد سلمان کا تعلق لاہور کی دھرتی سے تھا، حافظ محمود شیرانی (محقق اول) نے اپنی تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ اردو کے پہلے شاعر مسعود سعد سلمان ہی تھے، علاوہ ازیں امیر خسرو نے اپنے دیوان ”غرۃ الکمال“ کے دیباچے میں اس بات کا خود اعتراف کیا ہے کہ اردو کے پہلے شاعر مسعود سعد سلمان ہی تھے، مسعود سعد سلمان کے کچھ ہی عرصہ بعد امیر خسرو کی شاعری سامنے آتی ہے۔ امیر خسرو کے بعد شاعری میں کوئی خاص نام تاریخ میں جگہ حاصل نہیں کر سکا، البتہ دکن میں کچھ شعراء سامنے آتے ہیں۔

دکن میں شاعروں کی ایک طویل فہرست ملتی ہے جس میں بادشاہ بھی ہیں، صوفی بھی اور عام شہری بھی۔ قلی قطب شاہ ایک بادشاہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شاعر بھی تھے انہوں نے کم و بیش پچاس ہزار ( 50، 000 ) اشعار چھوڑے ہیں اور اس بنیاد پر ان کو غزل کا ”باوا آدم“ کہا جاتا ہے۔ قلی قطب شاہ کے بعد سب سے معروف نام ولی دکنی کا ہے، ولی دکنی اٹھارہویں صدی میں شمالی ہند (دہلی) کا رخ کرتے ہیں۔ اس وقت شمالی ہند میں فارسی شاعری کا رواج عام تھا لوگ عمومی طور پر اردو (ریختہ) میں شاعری کرنے میں شرمندگی محسوس کرتے تھے۔

ولی دکنی نے ایک صوفی بزرگ ”سعد اللہ گلشن“ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اردو شاعری کی بنیاد رکھی تو معاصرین (بچے، بوڑھے اور نوجوان) سب نے فارسی شاعری چھوڑ کر ولی دکنی کی تقلید کرتے ہوئے اردو (ریختہ) میں شاعری شروع کردی۔ یہ اردو شاعری کا پہلا دور تھا۔ اس دور میں جو بڑے بڑے نام سامنے آتے ہیں ان میں خان آرزو، مرزا مظہر جان جاناں، شاہ حاتم، شاہ مبارک آبرو، وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہ اردو شاعری کا پہلا دور تھا اور اسی دور میں ہی ”ایہام گوئی“ نے سر اٹھایا اور ”ایہام گوئی“ کا سر کچلنے میں شاہ حاتم، مرزا مظہر جان جاناں اور انعام اللہ خان یقین، پیش پیش تھے۔

اس کے بعد اردو شاعری کا دوسرا دور میر تقی میر سے شروع ہوتا ہے اس دوسرے دور میں مشہور شعراء میر تقی میر، خواجہ میر درد اور مرزا محمد رفیع سودا کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہ دوسرا دور کئی حوالوں سے سنہری دور ہے۔ اس دور میں فارسی کی تمام اصناف اردو میں منتقل ہو گئیں۔ غزل اور مثنوی کی روایت دکن میں بھی موجود تھی لیکن اس دوسرے دور میں غزل اور مثنوی نے زیادہ تیزی سے ترقی کی ہے۔ خواجہ میر درد ایک صوفی شاعر کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ سودا نے غزل کے ساتھ ساتھ ساتھ قصیدے اور مرثیے میں نام پیدا کیا، جبکہ میر تقی میر نے غزل اور مثنوی میں اپنی ایک پہچان پیدا کی اور اردو ادب میں ”خدائے سخن“ کا لقب پایا۔

دوسرے دور میں ایک طرف تو مختلف شاعر شاعری کا قد اونچا کرنے میں مصروف تھے تو دوسری طرف دلی پر نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کے یکے بعد دیگرے حملوں کی وجہ سے دلی کے حالات خراب ہو رہے تھے۔ اس وجہ سے مختلف شاعروں نے دہلی کو چھوڑ کر فیض آباد اور لکھنؤ کا رخ کیا۔ میر تقی میر اور سودا نے بھی لکھنؤ کو اپنا مسکن بنانا پسند کیا۔ لکھنؤ پہنچ کر میر تقی میر، میر حسن، مصحفی، انشاء، جرات، سودا نے بہت زیادہ شہرت حاصل کی۔ انشاء، جرات اور مصحفی غزل کی طرف توجہ دے رہے تھے، میر حسن نے غزل کے بجائے مثنوی کی طرف خاص توجہ کی۔ ان کی سب سے مشہور مثنوی ”سحرالبیان“ تھی۔

لکھنؤ کا یہ زمانہ نہ صرف اردو شاعری کے لئے بلکہ اردو ادب کے لئے بھی ایک بہت مبارک زمانہ تھا اس کے ساتھ ہی میر تقی میر، انشاء، مصحفی، میر حسن بزم سے رخصت ہو رہے تھے اور ان کی جگہ ایک نئی نسل محفل میں قدم جمانا شروع ہو چکی تھی۔ ان میں آتش اور ناسخ کے نام سب سے نمایاں ہیں۔ آتش اور ناسخ نے اس دور میں بہت زیادہ کام کیا اور غزل کی آرائش و اصلاح میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ گھٹیا اور نامانوس الفاظ کا خاتمہ کیا اور تمام ضروری کانٹ چھانٹ کی۔ انیس و دبیر نے بھی اسی دور میں مرثیے کو بام عروج بخشا۔

ادھر جب لکھنؤ میں آتش و ناسخ کے چراغ روشن تھے تو ادھر دلی میں ادب کی آخری شمع روشن ہو رہی تھی بہادر شاہ ظفر، ذوق، مرزا غالب اور مومن کا ظہور ہو چکا تھا۔ مومن خان ایک حسن پرست شاعر تھے :

تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

ان کی غزل انسانی نفسیات کا ایک نہایت خوبصورت اظہار ہے۔ شمالی ہند میں معاملہ بندی کے حوالے سے دو نام بہت مشہور ہیں (جرات اور مومن) ذوق اور مومن کے استاد شاہ نصیر اپنے زمانے کے بڑے استاد تھے۔ انہوں نے دلی کی شاعری میں لکھنؤ کا ذائقہ شامل کر دیا تھا لیکن غالب نے بغاوت کرتے ہوئے شاعری میں جدت کو شامل کیا اور شاہ نصیر کے طرز شاعری کو ٹھکرا دیا۔

ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور

غالب نے اردو کے قدیم انداز کو ختم کر دیا اور نئے طرز کو اختیار کیا اور اس کے ساتھ ہی شاعری کے تیسرے دور کی بنیاد رکھ دی۔ اس کے بعد 1857 ء کا حادثہ ہوتا ہے اور دلی ”ست جگی“ ایک دفعہ پھر ویران ہو جاتی ہے، اور اس ماحول کے آخری شاعر داغ، امیر مینائی اور جلال لکھنوی قابل ذکر ہیں۔

اس کے فوری بعد لاہور میں محمد حسین آزاد نے جدید طرز کے مشاعروں کا آغاز کر دیا اور اسی زمانے میں الطاف حسین حالی بھی لاہور ملازمت کی غرض سے آ جاتے ہیں، حالی غالب اور شیفتہ کے نامور شاگرد تھے۔ ان لوگوں نے نیچرل شاعری کی بنیاد رکھی اور شاعری میں مختلف موضوعات کو شامل کیا۔

اس زمانے میں محمد حسین آزاد، الطاف حسین حالی، نظیر اکبر آبادی نے شاعری میں جدت پیدا کی خاص طور پر نظم میں بہت زیادہ کام کیا۔ اسماعیل میرٹھی اور اکبر الہ آبادی بھی اسی دور کے شاعر ہیں۔ اکبر الہ آبادی نے مزاحیہ شاعری کو چار چاند لگائے اور اسماعیل میرٹھی نے بچوں کے شاعر کے طور پر اپنا نام پیدا کیا۔ اسماعیل میرٹھی اور عبدالحلیم شرر کا نام اس حوالے سے اہم ہے کہ انھوں نے آزاد نظم کے تجربات بھی کیے۔

آزاد اور حالی کے لگائے ہوئے درخت کا سب سے اہم پھل اقبال کی شاعری ہے۔ اس دوران آزادی کی تحریک چل رہی تھی اقبال بھی ان تحریکوں سے متاثر ہوئے انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوششیں کی اور ترانے بھی لکھے۔ اس کے بعد جب وہ یورپ کا سفر کرتے ہیں تو ان کی سوچ اور ذہن تبدیل ہوا۔ یورپ سے واپسی پر اقبال نے اپنے بدلے ہوئے نظریے کی تلقین بڑے شد و مد سے شروع کی۔

اقبال کے نوجوان ہم عصر شاعروں میں سے جو شاعر ان سے متاثر ہو رہے تھے ان میں جوش ملیح آبادی، حفیظ جالندھری، برج نرائن، تلوک چند، محروم، اسد ملتانی، امین حزیں سیالکوٹی، محمد دین فوق اور احسان دانش قابل ذکر ہیں۔

1936 ء میں ترقی پسند تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک میں جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، اسرار الحق مجاز، ساحر لدھیانوی، احمد ندیم قاسمی، مصطفی زیدی اور عارف عبدالمتین کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس تحریک میں جوش ایک بے باک، باغی اور نڈر شاعر کے طور پر سامنے آتے ہیں جبکہ فیض احمد فیض ہلکی آنچ کی شاعری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

1939 ء میں ترقی پسند تحریک کے متوازی ایک اور تحریک نے جنم لیا جسے ”حلقہ ارباب ذوق“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ تحریک بھی نئی شاعری کی دعویدار تھی، لیکن اس کا نقطہ نظر یہ تھا کہ موضوع خواہ کچھ بھی کیوں نہ ہو جب تک اس کے ابلاغ میں فن کی بنیادی قدروں کا لحاظ نہ رکھا جائے، بے اثر ہے۔ یہ تحریک بھی خالص نظم کی تحریک تھی اور اس سے وابستہ لوگ ن۔ م راشد، میرا جی، قیوم نظر، تصدق حسین خالد، مختار صدیقی، باقی صدیقی، مجید امجد، اخترالایمان اور حبیب جالب وغیرہ ہیں۔

غزل کو ابتداء میں ترقی پسند اور حلقہ ارباب ذوق ان دونوں تحریکوں نے رد کیا لیکن پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد کچھ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ غزل کو پھر سے اپنی سخت جانی کا ثبوت فراہم کرنا پڑا اور غزل رفتہ رفتہ پھر سے شاعری کی فضا پر چھا گئی۔

قیام پاکستان کے بعد جن شاعروں نے غزل کو نئی زندگی بخشی ان میں ناصر کاظمی، انجم رومانی، ابن انشاء، احمد مشتاق، شہرت بخاری، سلیم احمد، نعیم صدیقی، سیف الدین سیف، سجاد باقر رضوی، صوفی تبسم، منیر نیازی، شہزاد احمد، قتیل شفائی، ظفر اقبال، محسن بھوپالی، ادا جعفری کے نام قابل ذکر ہیں۔

اس کے بعد جدید نظم نگاروں میں رفیق سندیلوی، حمیدہ شاہین، ارشد نعیم، نصیر احمد ناصر، انوار فطرت، معین نظامی، علی محمد قریشی، ابرار احمد، وحید احمد، جاوید انور اور سعید احمد کے نام قابل ذکر ہیں۔

اپنے ہر ہر لفظ کا خود آئینہ ہو جاؤں گا
اس کو چھوٹا کہہ کے میں کیسے بڑا ہو جاؤں گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments