سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے


ہمارے ہاں اچھے اور برے میں تمیز کے لیے پسند و ناپسند کو دیکھا جاتا ہے۔ بیشتر لوگ اپنی سوچ اور خواہشات سے مطابقت رکھنے والوں کو ہی درست تصور کر کے پسند کرتے اور دوسروں کو محض عادات اور سوچ مشترک نہ ہونے کی وجہ سے ناپسند کرتے ہیں۔ بھائی چارے اور ہم آہنگی کے فقدان کے باعث اپنی خواہشات، سوچ اور اس پسند و ناپسند کو انا میں بدل دیا جاتا ہے۔ خود کو صحیح اور دوسروں کو غلط ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کی باتیں اور تشریحات بیان کی جاتی ہیں۔ دشنام طرازی اور فتوے لگائے جاتے ہیں۔ ناپسندیدہ کو برائی اور گمراہی کے سرٹیفیکیٹس جاری کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔

پسندیدہ اور ناپسندیدہ کے خیالی گروہ بنا کر نظریاتی سرحد کی حیثیت رکھنے والی ایک لکیر کھینچ لی جاتی ہے۔ اپنے پسندیدہ کی بڑی سے بڑی برائی اور کوتاہی پر خاموشی اور ناپسندیدہ کی ایک لغزش کو بنیاد بنا کر آسمان سر پر اٹھا لینے کو ہی جہاد سمجھ لیا جاتا ہے۔ دوسروں کو نیچا دکھانے اور غلط ثابت کرنے کے لیے مذہب، قومی سلامتی اور معاشرتی اقدار کو بھی آڑ بنانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔

دوسروں کو سننے اور سمجھنے کی زحمت اس لیے گوارا نہیں کی جاتی کہ ان کو ہم غلط ہونے کا سرٹیفیکیٹ جاری کر کے مسترد جو کر چکے اور جسے مسترد کر دیا اسے قبول کرنا تو ہماری ہار ثابت ہوگی جو ہم نے کبھی تسلیم نہیں کرنی۔ اگر بس چلتا تو اپنے مسترد کیے ہوئے کو بارگاہ الٰہی سے بھی مسترد کروا کر ہی دم لیتے۔ لیکن جہاں تک بس میں ہوتا ہے وہاں تک کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔

پسند و ناپسند کا رجحان ہمارے معاشرے میں اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ہم گروہوں، جماعتوں، مسالک اور طبقات میں تقسیم در تقسیم ہو کر کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ بلکہ قوم سے ایک ہجوم میں بدل چکے ہیں۔ نا اتفاقی کا شکار ایک ایسا ہجوم جو کسی بھی مذہبی، سیاسی اور معاشرتی موضوع پر متفق نہیں ہو سکتا ۔ ایسا بھٹکا ہوا ہجوم جو واحدہ و لاشریک رب کے احکامات اور خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تعلیمات پر بھی اتفاق نہیں کر سکتا۔

ہمارے اندر سے برداشت کا مادہ ختم ہو چکا ہے۔ دوسروں کو قبول کرنا تو دور کی بات ان کے وجود کو تسلیم کرنے سے بھی گریزاں ہیں۔ نظریاتی اختلافات کو ذاتی رنجشوں میں بدل کر بد امنی کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ ہر سیاسی جماعت، مذہبی گروہ، طبقے اور برادری پر اپنی چودھراہٹ اور بالادستی قائم کرنے کا بھوت سوار ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ وسیع تر قومی مفاد میں مختلف معاملات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ دوسرے ہم وطنوں کو غلط کہنے سے پہلے ان کو سن لیں اور جو ہمیں غلط کہہ رہا ہے اسے سمجھانے کی کوشش کریں۔ ہو سکتا ہے جسے ہم غلط سمجھ رہے ہیں وہ غلط نہ ہو بلکہ ہم اسے سمجھنے سے محروم رہے ہوں۔ اور جو ہمیں غلط سمجھ بیٹھا ہے شاید اسے ہم اپنی نیت، سوچ، منشور اور نظریات کے متعلق سمجھا ہی نہ پائے ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ باہمی دوریاں اور نفرتیں چند غلط فہمیوں کا نتیجہ ہوں جن کو میل جول اور بات چیت کے ذریعے دور کر کے ہم وطن عزیر میں امن، محبت، بھائی چارے اور باہمی ہم آہنگی کو فروغ دے سکیں۔

چھوٹے چھوٹے اختلافات کو باہمی میل ملاقات اور سمجھنے سمجھانے سے بھی دور کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے برے سے نفرت کرنے کے بجائے برائی سے اور مجرم کے بجائے جرم سے نفرت کرنے کا ہنر سیکھنا ہوگا۔ اچھے انسان کا کام بروں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرنا ہے ان سے نفرت کرنا نہیں! اچھوں کو بروں اور گمراہوں پر رحم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بھی اچھائی سے متاثر ہوں اور برائی چھوڑیں۔

معاشرے میں امن و بھائی چارے کو فروغ دینے کی خاطر ایک دوسرے کو تسلیم اور برداشت کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ نظریاتی اختلافات کو بات چیت اور دلائل سے سننا، سمجھنا سمجھانا اور دور کرنا ہوگا۔ اپنی بات منوانے اور سوچ و نظریات کو پروان چڑھانے کے لیے تشدد اور الزام تراشی کی راہ ترک کرنی ہوگی۔ کمزوروں سے رحم اور منہ زوروں سے فہم و فراست کے ساتھ پیش آنا ہوگا۔

پاکستان کسی ایک گروہ، جماعت یا طبقہ کا نہیں بلکہ تمام پاکستانیوں کا ملک ہے۔ اس میں بسنے والے مسلم و غیر مسلم اور ساری جماعتوں کے پیروکار اس سے برابر محبت کرتے ہیں۔ دوسروں کی حب الوطنی پر شک کرنا باہمی اتحاد و یگانگت کو پارہ پارہ کرنے کے مترادف ہے۔ ہماری زندگی کی تمام بہاریں، خوشیاں اور رونقیں اس ملک سے وابستہ ہیں۔ ہماری نا اتفاقی، منفی سیاست اور نفرتوں کے باعث خدانخواستہ وطن عزیر پر آنچ آئی تو پھر کچھ بھی نہیں رہے گا۔

ملکی سلامتی و بقاء اور آئندہ نسلوں کے محفوظ مستقبل کے لیے ایک دوسرے کے لیے برداشت اور محبت کا جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ سمجھنے اور سمجھانے والے نظریے کو فروغ دینا ہوگا۔ جیو اور جینے دو کی راہ پر گامزن ہونا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments