عزت کا بلبلہ


میں نور کو نہیں جانتی، نہ ہی صائمہ اور نہ ہی قرات العین کو مگر میرا تعارف عائشہ، نازیہ اور سدرہ سے ضرور ہے ان کے علاوہ ان جیسی بہت سی ان کہی کہانیوں سے بھی۔ نام کوئی بھی ہو مگر قسمت عورت کی ہی ہے، کوئی جل کے مر گئی، کوئی زندہ لاش بن کے بچوں کے لئے قاتل کے ساتھ اسی بستر پر جسم کے کیڑوں کو واپس زخموں پر رکھ رہی اور کوئی کسی دوسری کے منہ پر ہاتھ رکھ کے عزت برباد نہ کرنے کہ دہائیاں دے رہی ہے۔

ایک اطالوی جج نے زبردستی کے مقدمے میں ڈرائیور کو اس لئے معاف کیا کہ جو عورت ”جینز“ پہنتی ہے اس سے زیادتی نہیں ہو سکتی بالکل ہمارے معاشرے کی طرح جہاں فیمینسٹ عورت قتل بھی ہو جائے تو قصور تو اس کا ہے کہ طیش دلا کے خود کو قتل کروا لیا اگر مان جاتی تو تشدد اور زیادتی ہی ہوتی جان بچ جاتی اور خاموشی سے اگلی کے لئے بھی مشعل راہ بنتی اب تو صرف موم بتیاں جلانے کا موقع ہے۔

پانچ ہزار سال پہلے اس زمین پر عورت دیوی تھی جو زمینی لوگوں کی پہنچ سے دور تھی تبھی تو اس کی پوجا کی جاتی تھی لوگ اس کو خوش کرنے کے لیے چڑھاوے چڑھاتے تھے کہ کہیں اس کو غصہ آ گیا تو کیا پتہ وہ کالی بن جائے یا درگا۔ جب عورت نے مرد کو اپنا رتبہ دے دیا تو اس نے زمین بھی تنگ کر دی اس ”دو ٹکے کی روح کے لیے۔“ اب عورت صرف سانس لیتی عزت ہے جو اتنی لاغر اور دیمک زدہ ہے کہ اس پر اگر کوئی ترس بھی نہیں کھاتا۔ آخر کھائے بھی کیوں؟

اگر یہ واپس دیوی کے مقام پر چلی گئی تو پھر ہم درجہ دوئم پر آ جائیں گے۔ جب تک عورت دماغ اور آنکھوں کو اپنی جی حضوری اور خوبصورتی سے ٹھنڈک پہنچائے اور جسم سے حرارت، وہ دیوی جیسے ہی اس نے الٹ کیا اور دماغ اور آنکھوں کو سوالوں سے گرم کیا اور جسم کو یخ وہ چڑیل اور واجب القتل۔ ہم مسلمان ہمارا مذہب مرد کی حاکمیت کی بات کرتا ہے ہم کیوں کمی کمین دوسرے درجے کی پتلی جس نے ہمیں جنت سے نکلوایا کی بات سنیں۔ مگر ہاں اگر یہ صرف سانس لے اور زندہ رہنے کی اداکاری اور خوش ہونے کی صدا کاری کرے تو ہم دو روٹی کے بدلے اس کو عزت مان لیں گے مگر بس پانی کے بلبلے جتنی عزت۔

ایک پھونک اس کا مقدر بنا دے گی۔ چاہے یہ پھونک گھر سے کوئی مارے یا باہر سے یہ بلبلہ تو پھٹنا ہی ہے اب چاہے سر کٹے یا بچوں کے سامنے کوئی زبردستی کرے یا گولی ہی مار دے بلبلہ تو پھٹے گا ہی آخر کو خود ہی کا تو قصور ہوتا عورت ہونے کا نہ دلاتی اتنا غصہ کہ کوئی گولی چلا دے یا نہ جاتی بغیر کسی رشتے کے کہ کوئی گلا کاٹ دے۔ مگر باقی جو گھروں کے اندر بلبلے پھٹ رہے ہیں ان کا کیا۔ آج کا سوشل میڈیا کا مرد اپنا بلبلہ بنانے اور دوسرے کا بلبلہ اڑانے میں لگا رہے گا۔

عمارہ خالد
Latest posts by عمارہ خالد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments